اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کااجلاس اورنریندر مودی کی عدم شمولیت

ستمبر ٢٠٢٥ میں منعقد ہونے والے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں نریندر مودی کی عدم شمولیت اس کے فظری عناد اور بے ضمیری کی واضح دلیل ہے۔
انسان نے آج تک جتنی بھی ترقی کی ہے وہ مربوط اور منظم نظام کے تحت کی ہے۔قوموں کی ترقی ان کی باضابطہ کاوشوں اور امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے نتیجے میں ہوئی ۔ انسانی اقدار کے تحفظ اور بقا کے لئے قوانین و ضوابط بنانا، اور ان پر عمل پیرا ہو کر تسخیر کائنات کرنا ، انسانی وطیرہ رہا ہے۔ انفرادی طور پر ہر قوم نے اپنے معاشرے کی اصلاح اور فلاح و بہبود کا فریضہ مختلف ادوار میں اپنے اپنے انداز میں نبھایا۔ مگردوسری جنگ عظیم(1945-1939)جس میں بڑے پیمانے پر انسانی خون ہوا اور قتل و غارت کا بازار گرم ہوا لہذا جنگ کے بعد امن قائم رکھنے اور آئندہ عالمی جنگوں سے بچنے کے لئے ایک عالمی ادارے کی ضرورت محسوس کی گئی ۔تاہم اقوام عالم نے ایک ایسا پلیٹ فارم بنانے کا سوچا جہاں اتفاق رائے سے انسانی حقوق کا پرچار بھی کیا جائے ، اور پابندی بھی ۔ تاکہ اقوام عالم کے لئے امن و استحکام کو مرکزی حیثیت دی جائے۔چنانچہ اقوام متحدہ UN کے نام سے ایک ادارہ معرض وجود میں آیا جسے ابتداء میں قلیل لیکن دھیرے دھیرے کثیر ملکی حمایت حاصل ہو گئی اور وہ ادارہ دنیا کے ایک سو ترانوے (193) ممالک کی رکنیت کا حامل ہوا اور مرکزی حیثیت اختیار کر گیا۔
آج اقوام متحدہ کو قائم ہوئے 80 سال ہو چکے ہیں لیکن اس ادارے نے شروع دن سے دنیا میں امن و سلامتی اور بہترین انسانی اقدار کی بحالی کے لئے شفاف کردار ادا کیا ہے۔ستمبر 2025میں منعقد ہونے والا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا 80 واں اجلاس جہاں اقوام عالم کے لئے اہمیت کا حامل ہے وہا ں خاص طور پر اس اسمبلی میں کئے گئے فیصلوں کا اثر جنوبی ایشیا ئی ممالک پر ہوگا۔اقوام متحدہ نے ہمیشہ جنوبی ایشیا کے امن کے لئے اہم کردار ادا کیا ہے، تاہم بھارت نے اکثر جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے منشور کی پاسداری سے گریز کیا،جس کی بنا پر یہ خطہ تاحال شدید خطرات سے دوچار ہے۔بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف عسکری پیش قدمی، سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی اور دہشت گردی جیسے مذموم اور گھناؤنے اقدامات نے خطے کو مزید خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔
اقوام متحدہ نے ہمیشہ پاک۔بھارت جنگ میں ثالثی کا کردار ادا کیا ،مئی 2025کے حالیہ تنازع میں بھی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اقوام متحدہ کی کوششوں نے خطے کو بہت بڑے نقصان سے بچا لیا۔پاکستان اور بھارت کے مابین عسکری کشیدگی کے باوجود بھارت نے جنگ بندی کے معاہدے کو تسلیم نہ کیا اور اپنی جارحیت کو مختلف صورتوں میں جاری رکھا ہوا ہے۔اس کا یہ رویہ عالمی سطح پرروایتی ہٹ دھرمی ، جنگی جنون اور یکطرفہ سیاسی انتشار کو ظاہر کرتاہے۔بھارت نے متعدد بار جھوٹے جمہوری دعووں سے اقوام عالم کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی ہے، تاہم دنیا کی آنکھ اس کے اوچھے ہتھکنڈوں سے اوجھل نہیں ہے۔کشمیر میں مظالم کی انتہا ، معصوم جانوں پرجبرو استبداد ، اقلیتوں کے ساتھ غیر انسانی برتاؤ اور پاکستان کے بیشتر علاقوں میں دہشت گردی کی سرپرستی اور سہولت کاری کرنا اس کی مذموم پالیسی کا حصہ ہے۔بھارتی خفیہ ایجنسی را۔ نے پاکستان میں دہشت گرد کارروائیوں کی حمایت کی اور یہ امر اس خطے کی امن و سلامتی کے لئے سوالیہ نشان ہے۔
بلوچستان میں بی ایل اے کی پشت پناہی کر کے پروفیسر عثمان قاضی جیسے معلم کو راہ راست سے ہٹا کر انسانیت کش عزائم سے دوچار کرنا اور طلبہ کو دہشت گردی کا سہولت کار بنانے کے لئے مکمل رہنمائی فراہم کرنے میں بھارت نے انتہائی نامناسب رویہ اپنایا ہے۔جس کا ثبوت عثمان قاضی کا اعترافی بیان ہےجس میں تمام تر تفصیلات بھارتی منصوبہ بندی کی نشاندہی کر تی ہیں۔ دوسری جانب پاکستان میں موجودہ سیلابی صورتحال بھارتی آبی جارحیت کا ہی نتیجہ ہے۔بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی معطلی اور سرحدی علاقوں میں پانی چھوڑنے کے نتیجے میں لاکھوں انسانی زندگیاں خطرات سے دوچار ہیں۔ سیکڑوں لوگ ڈوب گئے، لاکھوں بے گھر ہوئے،زرعی زمینوں کو تباہ کردیا گیا اور بستیوں کو تباہی سے دوچار کر دیا گیا ہے۔پانی جیسے قدرتی وسیلے کو ہتھیار بنانے والا ملک انسانی اقدار بھلا چکا ہے۔ معصوم انسانی جانوں، جانوروں ، فصلوں اور بستیوں کو آبی جارحیت سے اجاڑ دینا بنیادی انسانی حقوق کی پامالی ہے۔جس پر بھارت بری طرح بر سرپیکار ہے۔
اس کے برعکس پاکستان نے خطے میں امن و امان اور بحالی کے لئے مؤثر کردار ادا کیا ہے۔اور ہمیشہ معاملے کو افہام و تفہیم کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا ہے۔ اور اقوام متحدہ کی مفاہمتی کوششوں کو نہ صرف سراہا بلکہ ان کی طرف سے مقرر کردہ اصولوں کی پیروی بھی کی۔ جس کی بنا پر اقوام متحدہ اور امریکہ سمیت دیگر ممالک نے پاکستان کی مفاہمتی پیش رفت کو خراج تحسین پیش کیا۔جس کا واضح ثبوت ٖفیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا دورہ امریکہ اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا پاکستان پر مکمل اعتماد کا اظہار اور پاکستان کے ساتھ نئے اقتصادی اور معاشی منصوبہ بندی جیسے اقدامات کا اعلان ہے۔ حالیہ پاک بھارت جنگ کے بعد بھارت کی ہٹ دھرمی اور روایتی دوغلی پالیسی کے نتیجے میں اقوام عالم نے پاکستا ن کے مؤقف کی نہ صرف حمایت کی ہے بلکہ سفارتکاری اور دفاعی میدانوں میں پاکستان کو مزید تقویت بھی حاصل ہوئی ہے۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا UNGAاجلاس میں شرکت نہ کرنا اور اپنی جگہ جے شنکر کو بھیجنا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ مودی اپنی انانیت ، ہٹ دھرمی اور انتقامی سیاست پر ڈٹ کر اقوام عالم کی آنکھوں سے آنکھیں چرا رہا ہے۔اس اجلاس میں بھارتی وزیر اعظم کا شرکت کا نہ کرنا تشویشناک امر ہے۔ جو یہ ظاہر کرتاہے کہ بھارت اب دنیا کے سامنے اپنے جرائم کا دفاع کرنے کی طاقت کھو چکا ہے۔بھارت خطے میں موجودہ بدامنی، خوف و ہراس اور دہشت گردی پھیلانے کا ذمہ دار ہے ۔یہاں سوال یہ پید ہوتاہے کہ اقوام متحدہ بھارتی وزیر اعظم کی UNGAاجلاس میں غیر حاضری کو کس نظر سے دیکھتا ہے؟ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اگر اقوام متحدہ اس اجلاس میں بھارت کی ان سنگین پالیسیوں کا نوٹس نہیں لیتا ہے تو یہ بات جنوبی ایشیا سمیت عالمی بقا و سلامتی کے لئے بھی خطرے کی علامت بن سکتی ہے۔اقوام عالم کو بھارتی ہٹ دھرمی اور جنگی جنون کا نوٹس ضرور لینا چاہئے۔
پاکستان ماضی کی طرح امسال بھی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں باضابطہ شرکت کرے گا اور اقوام عالم کے سامنے یہ ثابت کرے گا کہ پاکستان نے کبھی خطے میں انتقامی سیاست نہیں کی بلکہ امن و سلامتی، ترقی و خوشحالی اور عالمی برادری کے ساتھ مخلصانہ برتاؤ روا رکھا ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان جو 30 ستمبر 1947 کوUNITED NATIONS –UNکاممبر بنا ، تب سے اب تک اس کے مینڈیٹ اور مؤقف کا احترام کیا ۔ پاک بھارت کشیدگی ہو یا امن عالم کی بیرونی صورتحال، پاکستان نے ہمیشہ اقوام عالم کے لئے مثبت اور مؤثر کردار ادا کیا ہے۔ اور ان 80 سالوں میں یہ ثابت کیا ہے کہ افواج پاکستان، عوام ، سکیورٹی ادارے اور حکومت ،جنوبی ایشیا میں امن و سلامتی اور سیاسی استحکام کے خواہاں ہیں۔ جمہوری اقوام کی پاسداری اس قوم کا مشن ہے جس کا دنیا اب بھی احترام کر رہی ہے اور ہمیشہ کرتی رہے گی۔

 

Waseem Akram
About the Author: Waseem Akram Read More Articles by Waseem Akram: 15 Articles with 6359 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.