سفر حج چیپٹر ٢٢

مدینہ روانگی

مکہ میں اس وقت صبح کے نو بجے تھے۔ ناشتے کے بعد میں اپنے خاندان کے انتظار میں
ہینڈ کیری تھامے عزیزیہ ہوٹل کی لابی میں موجود تھی۔ باقی گھر والے کمرے سے باقی سامان
لا رہے تھے۔میں ارد گرد لوگوں کا ہجوم دیکھ کر سوچ رہی تھی کہ جلدی سے مدینہ
پہنچ جائیں۔بس میں سوار ہو کرجلد سے جلد پہنچ جانے کی دعا کی تھی۔
مگر جتنے لوگوں نے ہماری بس پر روانہ ہونا تھا وہ سب ابھی آئے نہیں تھے۔
کبھی کوئی کدھر تھا اور کبھی کوئی اور ادھر تھا۔

کیونکہ جب مکہ سے مدینہ ۔۔۔۔۔یا مدینہ سے مکہ لے کر جانا ہے ۔۔۔۔۔یا حج کے لئے منیٰ لے کر جانا
ہے اسوقت انتظامیہ خاص طور پر ذمہ دار ہے کہ وہ ایک بس کے سارے افراد گن کر لے جائے گی
سو اتنا اتنا وقت اس مد میں لگ جانا ایک عام سی بات تھی۔

جب سب بس میں بیٹھ گئے تو وہ لوگ جو ڈائننگ ہال کے ذمہ داران تھے انھوں نے بس میں
لنچ باکسز بانٹے تاکہ ہم راستے میں کھا سکیں اوراس میں مسمی پانی کی بوتل اور بریانی باکس تھے۔
پھر ایک یاد گاری
souvenir
دیا تھا۔ جسکا رنگ سنہری تھا اور اوپر تصویر سبز گنبد کی بنی ہوئی تھی۔

بالاآخر بس چل پڑی۔ جب بس روانہ ہوئی تو آغاز میں سارے سفر میں سنگلاخ پہاڑ اور میدان ہی
تھے۔ جس کی وجہ سے
باہر دیکھنے کی بجائے نیند آنے لگ گئی تھی۔ کچھ دیر سوئی بھی تھی۔
پھر آدھا سفر طے ہونے کے بعد بس ایک پوائنٹ
پر طعام و نماز کے لئے رکی۔
اس ہوٹل میں میرا پسندیدہ کھانا گرلڈ چکن اور رائس تھے ۔ انکو مدینہ میں کھانے کی نیت کرتے ہوئے
واپس بس میں بیٹھ گئی تھی ۔
پھر آہستہ آہستہ سبزہ نظر آنے لگا تھا جدید بلڈنگز ٹاورز ذیادہ نئ نکور سی سڑکیں نظر آںے لگیں تھیں۔
پھر ایک پوائینٹ پر ایک آدمی نے بس کی کہیں کسی کھڈ سے بڑا سا کارٹن نکالا اور سب میں
باکس بانٹنا شروع کر دیے تھے جس میں کروسان ،مٹھائی ،کیک اورپانی کی بوتل تھی۔

پھر ہم ایک ٹول پلازہ پر رکے اور ڈرائیور نے ساری کاروائی پوری کی تھی۔
پھر بس چل پڑی اور پندرہ منٹ کے بعد ہم اپنے ہوٹل کے باہر کھڑے تھے۔ ہوٹل
کی بلڈنگ انتہائی خوبصورت اور جدید تھی۔

والد صاحب نے سب گھر والوں کے کارڈز مانگے اور جا کر ہوٹل ریسیپشن پر دکھاکر کمرہ لیا جو کہ دسویں
فلور پر تھا۔اپنا سامان اکٹھا کر ہم کمرے میں پہنچے تھے۔
کھانا اور آرام کر چکے تھے۔
اب وضو کر اور تیاری کے بعد باری آئی مسجد نبوی جانے کی۔
جو کہ
ہر مسلمان کی وہ خواہش جس کی تکمیل کے لئے وہ ہر وقت تیار رہتا ہے۔
اور جب ایک دفعہ ہو آتا ہے پھر تڑپ مزید بڑھ جاتی ہے۔
ہوٹل اتنا قریب تھا کہ صرف چل کر ہی آپ پانچ منٹ میں مسجد نبوی صلہ اللہ علیہ والہ وسلم تک پہنچ جائیں۔

ہم مدینے میں تنہا نکل جائیں گے اور گلیوں میں قصدا بھٹک جائیں گے
ہم وہاں جا کے واپس نہیں آئیں گے ڈھونڈتے ڈھونڈتے لوگ تھک جائیں گے

دور سے نظر آتا سبز گنبد، سنہرے منقش اونچے اونچے دروازے، دروازوں کے اوپر لگی
سرخ و سبز جلتی بجھتی بتیاں۔ سبز بتی یہ بتانے کے لئے
کہ ابھی اندر جگہ موجود ہے، سرخ بتی
یہ بتانے کے لئے کہ اندر جگہ موجود نہیں ہے اسلئے بھاگتے ہوئے لوگ تاکہ مسجد کے اندر جگہ مل سکے۔
زم زم کے دور دور پڑے ہوئے کولرز جن تک ذوق و شوق سے جاتے ہوئے لوگ،
چھتریوں کی طرف دیکھتے ہوئے لوگ کہ کب یہ کھلیں گی،اور ایسی خوشگوار اور ٹھنڈی
میٹھی ہوا کہ آپ سارا دن وہاں ہی گزارنا چاہیں۔

اے صبا مصطفیٰ سے کہہ دینا غم کے مارے سلام کہتے ہیں
یاد کرتے ہیں تم کو شام و سحر دل ہمارے سلام کہتے ہیں









sana
About the Author: sana Read More Articles by sana: 254 Articles with 332889 views A writer who likes to share routine life experiences and observations which may be interesting for few and boring for some but sprinkled with humor .. View More