مشن خنجراب (وقار کا سفر نامہ) پانچویں قسط
(M. Qasim Waqar Sialvi, Faisalabad)
فیصل آباد سے بذریعہ موٹرسائیکل خنجراب پاس تک کے سفر کی داستان جس کی اب تک چار اقساط آپ نے ملاحظہ کر لی بیں، پانچویں پیش خدمت ہے ۔ اگلی آخری قسط ہوگی۔ مختصر روداد کے ساتھ سفرنامہ پیش خدمت ہے۔ مزید تصاویر کے لیے ہمارا وقار کا سفر نامہ فیس بک پیج ملاحظہ کیجئے |
|
|
خنجراب پاس پر گزرے چند لمحات زندگی کی حسین یادوں میں سے ایک ہیں |
|
صبح سات بجے روانہ ہونے والے مسافر اپنی منزل خنجراب نیشنل پارک، پاکستان چائنہ سرحد پر سہ پہر 3 بجے پہنچے۔ ایسا دلفریب منظر، مائنس ڈگری میں درجہ حرارت اور جذبات ایسے کہ ابل ابل کر باہر آرہے ہوں۔ منزل کو سامنے دیکھ کے سفر کی تھکان چھوڑ احساسِ سفر تک ختم ہوگیا۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے ہم نے دنیا کی چھت پر قدم رکھ دیا ہو۔ ارد گرد پہاڑ برف سے ڈھکے تھے جن پر تازہ برف واضح دکھائی دے رہی تھی، خنجراب کا وسیع و عریض میدان بالکل فریزر بنا ہوا تھا، رہی سہی کسر یخ بستہ ہواوں نے پوری کر رکھی تھی۔ ہوا اتنی تیز تھی کہ جیسے ساتھ اڑا کر لے جائے۔
ہم نے خود کو برساتیوں سے نکالا کیونکہ تصاویر بنانی تھیں تو کچھ شکلیں بھی نظر آنی چاہیے۔ لیکن ہوا کہہ رہی تھی کہ۔۔۔۔۔۔ایہہ حرکت نہ کرنا۔ ۔۔۔۔ہم کہاں ٹلنے والے تھے، موٹرسائیکل پر برساتیاں، شوز کور، دستانے رکھے جو تیز ہوا نے نیچے گرا دیے۔ وہیں زمین پر ان کو پتھروں کا آسرا دیا اور چل دیے آخری پوائنٹ کی طرف جو چند سو میٹر کے فاصلے پر تھا۔ جیسے جیسے مرکزی گیٹ کی طرف بڑھ رہے تھے دل کی دھڑکن بھی تیز ہو رہی تھی۔ خنجراب پاس جانا ہر ایک بائیکرز کا خواب ہوتا ہے، اور سنا ہے کہ بائیکرز میں اس سفر کو بطور رینک بھی سمجھا جاتا ہے، جس کا اظہار مختلف مواقع پر بائیکرز کرتے رہتے ہیں کچھ کے جذباتی مناظر بھی دیکھنے کو ملتے رہتے ہیں۔
اس طرف آنے کی ہلا شیری سینئر بائیکر ذکاء اللہ قادری صاحب (لاہور) نے دی تھی، پلان بھی ان کے ساتھ ہی بنا لیکن وہ رہ گئے ہم آ پہنچے۔
گیٹ تک تو نہ پہنچ سکے وجہ حکومت پاکستان کا وہ سکیورٹی حصار تھا جو گیٹ اور ہمارے درمیان حد فاصل کا کام کر رہا تھا۔ ہم کو تو موٹرسائیکل اس پوائنٹ تک نہیں لانے دی گئی حالانکہ رش سرے سے موجود ہی نہ تھا۔ ایک پولیس والے صاحب اپنی موٹرسائیکل کے اوپر منہ سر، ہاتھ لپیٹے بیٹھے تھے، دس پندرہ منٹ ہی گزرے ہونگے کہ گویا ہوئے، چلیں صاحب وقت مکمل ہوگیا۔
دوسری طرف چائنہ کے لوگ بھی بارڈر پر پہنچے ہوئے تھے، دور سے تعداد تو معلوم نہ ہو سکی لیکن کچھ گا رہے تھے تو آواز سے اندازہ ہوا کہ پچاس ساٹھ سے زیادہ لوگ ہونگے۔ کچھ نے ہم کو دیکھ کے ہاتھ ہلایا ہم نے بھی جواباً لہرا دیا۔ کچھ یادگار تصاویر بنائیں، اب جسم سردی کی بدولت وائبریشن پر لگنا چاہتا تھا اس لیے واپسی کو ہی عافیت جانا۔ یہیں ایک سیاحوں کے لیے سہولت سنٹر بنا ہے، اندر کرسیاں ٹیبل تھے لیکن کوئی بھی موجود نہ تھا۔ چند ایک کنٹینر ٹائپ دفاتر یا رہائشی کمرے تھے جو پولیس یا سکیورٹی والوں کے زیر استعمال تھے، یہیں دنیا کی بلند ترین اے ٹی ایم مشین نیشنل بینک والوں نے لگا رکھی ہے اس کے دیکھا دیکھی اب حبیب بنک والے بھی آ پہنچے ہیں اپنی اے ٹی ایم مشین لیکر۔ ایک طرف پاکستان سے پیار کا بورڈ تھا، ساتھ ہی ایک جھنڈے کے بغیر بڑا بلند پول بھی موجود تھا۔ شاید کسی خاص تقریب یا دن کے موقع پر اس پر پرچم لہرایا جاتا ہوگا۔ ہم نہیں جانتے۔
جہاں موٹرسائیکل کھڑا کیا وہیں قریب ایک ٹک شاپ بھی تھی لیکن ہم اس طرف گئے ہی نہیں۔ پیاس لگی تو بیگ سے بوتل نکال کے چند گھونٹ پیے، دوبارہ برساتیاں پہنیں، شوز کور چڑھائے ابھی موٹرسائیکل پر بیٹھنے ہی والے تھے کہ موبائل کی گھنٹی بج اٹھی۔۔۔۔۔۔۔ سچ مچ تراہ نکل گیا۔۔۔۔۔۔ ہائیں یہ کون ہے؟ اور کیا یہاں بھی سگنل آتے ہیں؟ موبائل کو نکالا تو حیرت کی انتہا نہ رہی کہ ذکاء اللہ قادری صاحب بنفس نفیس ویڈیو کال پر موجود تھے۔ ہاں جی کتھے پہنچے او؟ جھٹ سے موبائل کا کیمرہ گھمایا تو سامنے خنجراب بارڈر دیکھا دیا۔۔۔۔۔ او مبارکاں۔۔۔۔ شاوا وائی شاوا۔۔۔۔۔۔ یقین مانیں کہ پیسے پورے ہوگئے۔ اب قادری صاحب کے کیا جذبات تھے یہ تو وہی بتا سکتے ہیں۔ ثبوت کے طور پر ویڈیو کال کا سکرین شارٹ بھی ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ کچھ دیر کی گفتگو کے بعد کال بند کر دی کیونکہ ہم کو واپس نکلنے کا کہا جا رہا تھا۔ واپس ایک نظر خنجراب پاس پر ڈالی اور واپسی کا سفر شروع کر دیا۔ گھڑی دیکھی تو ہم آٹھ گھنٹے سفر کرکے یہاں محض چالیس منٹ ہی رک پائے تھے، شام ہونے والی تھی اور چاہتے تھے کہ کم از کم سوست تک دن کی روشنی میں پہنچ سکیں۔
خنجراب سے واپسی چونکہ مسلسل اترائی ہی تھی اس لیے سپیڈ بھی کچھ زیادہ رہی یا شوق و جنون تھا کہ فٹافٹ بائک بھاگنے لگی، دن کی روشنی میں ہم پاسو کونز سے بھی آگے تک سفر کر چکے تھے۔ سفر جاری رہا اندھیرا چارسو پھیل چکا تھا، پرانے سِلک روٹ پر جدید دور کے مسافر رواں دواں تھے، ایک چوک پر الٹے ہاتھ کافی شاپ نظر آئی، سوچا چلو فیر ایک ایک کپ کافی کا ہوجائے، موٹرسائیکل کھڑی کی، سردی اب بھی لگ رہی تھی، اس لیے سوچا جو فٹافٹ مل جائے وہی آرڈر کرو تو چائے کا آرڈر دے مارا، ساتھ ایک ایک ابلا ہوا انڈہ بھی۔ جب کچھ اوسان بحال ہوئے تو معلوم ہوا کہ یہ ڈھابہ بھی کسی باذوق بندے کا شاہکار ہے۔ ایک خوبصورت الماری پڑی تھی جس میں مختلف کتابیں موجود تھیں، مطالعہ کا شوق تو موجود تھا لیکن اس وقت اس شوق کو پورا کرنے کا کوئی ارادہ نہ تھا۔ چائے کی دو چار چسکیاں لیں تو ساتھ بیٹھے ایک صاحب ہم سے گویا ہوئے، کہاں سے آ رہے ہیں؟ خنجراب سے تو تلفظ درست کرایا۔۔۔۔ خونجراب ہے۔ پیش کے ساتھ۔ آئے کس علاقہ سے ہیں؟ فیصل آباد سے واہ واہ بڑا پیارا شہر ہے۔ میں بھی نیشنل ٹیکسٹائل یونیورسٹی میں پڑھتا رہا ہوں، اب یہاں کسی ادارہ کا ڈرائیکٹر ہوں (نام یاد نہیں نہ ان کا نہ ادارہ کا) اور تازہ تازہ ہنزہ میں پوسٹنگ ہوئی ہے۔ پھر کچھ یادیں شیئر کیں، ساتھ ایک یادگار تصویر بنائی۔ وہ اپنے ویگو میں بیٹھے اپنے ڈرائیور، خانساماں اور گارڈ کے ساتھ اور روانہ ہوگئے۔ جاتے جاتے ہماری چائے اور ابلے انڈوں کا بل بھی دیتے گئے۔ منع کے باوجود بولے آپ ہمارے مہمان ہو۔۔ کوئی اور ہمارے لائق ہو تو حکم کریں۔
اس پوائنٹ کی انوکھی خاص وجہ وہاں بنا ایک لکڑی کا کیبن تھا جس میں بلاشبہ لاکھوں نہیں تو ہزاروں روپے لازمی تھے، مختلف ملکوں کے کرنسی نوٹ ہی نوٹ، جن کو دیواروں پر چسپاں کیا گیا تھا۔ سب پر کچھ نہ کچھ لکھا ہوا تھا جیسے تاریخ، نام، ملک، کچھ پتھر بھی تھے، کچھ پر جذباتی پیغامات بھی۔ کچھ دیگر اشیاء بھی۔ مزید تفصیلات جاننے پر معلوم ہوا کہ ان صاحب کے پاس لوگ امانت رکھوا جاتے ہیں کہ اگلی بار جب بھی آنا ہوا تو میری امانت مجھے لوٹا دو گے، تو جب دو چار پانچ سال بعد کسی کو اس کی رکھی پرانی یاد یہاں سے ملتی ہے تو وہ خوش ہو کے ان کو انعام دیتے ہیں۔ اب تو گلگت بلتستان حکومت نے اس ڈھابے کو تاریخی ورثہ قرار دیتے ہوئے میوزیم کا درجہ دے دیا ہے۔
یہاں سے واپس مڑے تو کچھ بورڈ نظر آئے، تصاویر بنا لیں تاکہ جگہ کی نشاندہی رہ جائے جب بورڈ کو دیکھا تو اوپر حسینی سسپینشن بریج کا لکھا تھا۔ واہ یعنی جس پل کو دن کے وقت تلاش کر رہے تھے وہ رات کو مل گیا لیکن اب اندھیرے کی بدولت اس پر جانا بے سود تھا۔
واپسی کا سفر پھر سے شروع کیا۔ سردی بھی مسلسل ساتھ ہی آ رہی تھی۔ ایک دو جگہ پر چھوٹی چھوٹی بریک لگائی، موبائل چونکہ برساتیوں کے اندر تھے اس لیے نہ ان کو نکالا نہ چیک کیا۔ گلگت پہنچ کے میزبان کو کال کی تو معلوم ہوا جناب کو آرام فرما ہوئے ڈیڑھ گھنٹہ ہو چکا تھا۔ ہم رات کے ساڑھے دس بجے واپس گلگت پہنچ گئے تھے۔
ایک دن میں گلگت سے واپس گلگت تک سفر مکمل کر لیا تھا وہ بھی خنجراب پاس کا۔ یہ کوئی بڑائی نہیں میرے اللہ پاک کا کرم ہے، قدرت کے حسین مناظر دیکھے اور زندگی بھر یاد رہنے والی یادیں لیکر واپس گلگت پہنچ چکے تھے، اللہ بھلا کرے انجینئر صاحب کی سلیقہ مند شریک حیات کا، گرما گرم کھانا بنا کر بھیج دیا، ناشتہ کے بعد رات کا یہی کھانا شکم سیری کا باعث بنا، کھانا کھا کے فوراً دراز ہوگئے کیونکہ صبح پھر ایک لمبا سفر ہمارا منتظر تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے |
|