مشن خنجراب (وقار کا سفرنامہ) چوتھی قسط

تھکے ہارے مسافروں نے رات گلگت میں گزاری، علی الصبح بعد ازناشتہ روانگی کے لیے تیار تھے، آج پہاڑی علاقہ میں ساڑھے پانچ سو کلومیٹر سے زیادہ سفر کرنے کا مشن تھا۔ پھر کیا ہوا؟ اس کے لیے سفرنامہ کی چوتھی قسط کو ملاحظہ کریں۔ ستمبر٢٠٢٥ء کے اس سفر کی مزید تصاویر دیکھنے کے لیے فیس بک پیج وقار کا سفرنامہ کوملاحظہ کریں۔

پاک چائنہ بارڈر، خنجراب

16 ستمبر2025ء بروز منگل، صبح 6.30 بجے ہم مکمل تیار تھے روانگی کے لیے، ناشتہ کر چکے تھے، سیفٹی گیجٹس فٹ ہو چکے تھے، اضافی سامان انجینئر صاحب کے دولت خانہ پر رکھا، صرف ٹینک بیگ ہمراہ تھا جس میں ناران سے خرید کردہ گرم ہوڈ تھے، برساتیاں تھیں اور شو کور تھے، موبائل بارش کی آمد کی خبر بھی سنا رہا تھا لیکن اب یہ ایپلیکیشن بے اعتباری سے ہو گئی ہے۔ بہت بار دھوکہ کھا چکے اس لیے زیادہ سیریس نہیں لیتے اب اس کی الرٹ کو۔ تاہم عقلمندی کا تقاضا ہے کہ بندہ پوری تیاری کرکے نکلے اس لیے برساتیاں ہمراہ رکھ لیں۔

موبائل فل چارج تھے اور ہم موبائل سے زیادہ چارج کیونکہ آج کا سفر جذبات، احساسات اور جنون کا سفر تھا، پہاڑی علاقہ کا 280 کلومیٹر سفر ایک سائڈ کا طے کرنے والے تھے وہ بھی Yamaha YBZ 125 DX پر۔ عشق کا گھوڑا بالکل تروتازہ تھا، سفر شروع کیا، عثمان بھائی نے الوداع کہا اور ہم نے جانب خنجراب سفر شروع کر دیا۔ پہلے پیٹرول پمپ سے ٹینکی فل کروائی چونکہ پہلے سے پیٹرول موجود تھا اس لیے محض 1700 کا اضافی آیا اس طرح موٹرسائیکل کا ناشتہ بھی مکمل ہوگیا۔

گلگت سے باہر نکل کر ہم جگلوٹ کی طرف نہیں گئے بلکہ نلتر روڈ پر ہی رہے آگے نیا پل بنا ہے اس سے دریائے سندھ کو کراس کیا اور خنجراب روڈ پر جا پہنچے، یوں ہمارا قریب 30 کلومیٹر کا سفر بچ گیا۔ صبح صبح روڈ تقریباً خالی تھا، ویسے بھی زیادہ رش شہر کے اندر ہوتا یے، شہر سے باہر نہیں۔ تازہ اور خنک ہوا سے لطف اندوز ہوتے، مناظر کو دیکھتے آگے بڑھتے جا رہے تھے، ابھی کوئی پچاس ساٹھ کلومیٹر طے کیا ہوگا کہ بارش نے آن گھیرا۔ بائک ایک طرف روک کے برساتیاں چڑھانا شروع کیں۔ مقصود بھائی کے پاس نارمل تھی میرے پاس بائیکرز والی جو فل شرٹ ٹراؤزر اک ساتھ ہی ہے، اس پر کچھ زور آزمائی کرنی پڑتی ہے۔ شوز کور بھی چڑھا لیے کیوں کہ اب شوز گیلے کرنے کا کوئی ارادہ نہ تھا۔ اور خنجراب کی یخ بستہ ہواؤں سے نبردآزما ہونا ابھی باقی تھا۔

راستے میں ایک جگہ بورڈ نظر آیا کہ تاریخی چٹانیں ہیں، گائیڈ ہمراہ نہ تھا جو زیادہ معلومات دیتا۔ بس رک کے کچھ فوٹو بازی کی اور آگے بڑھ دیے۔ ہمارا ارادہ یہی تھا کہ سیدھا خنجراب چلتے ہیں واپسی پر دیگر مقامات کو دیکھیں گے اگر وقت بچا تو۔ اس لیے بھاگم بھاگ چلتے رہے۔ کئی سٹاپ آئے، کئی علاقہ آئے، باغات، سکول، ورکشاپس خوبصورت نظارے دیکھتے گزرتے چلے گئے۔ یہ Old Silk Route ہے یعنی تاریخی شاہراہ ریشم پر سفر ہو رہا تھا جو خود ایک عجوبہ ہے۔

نومل، گلمت، ناصر آباد، سکندر آباد، ہنزہ نگر، علی آباد، مرتضیٰ آباد، کریم آباد کراس کرتے عطاء آباد جا پہنچے۔ وہی عطا آباد جہاں زلزلہ کے باعث جھیل بن گئی تھی اب وہاں باقاعدہ چھوٹی بڑی کشتیاں موجود ہیں، جس میں سنگل پرسن سے ایک سو لوگوں تک کی گنجائش والی بھی موجود ہیں۔ سڑک کو بحال رکھنے کیلئے کوئی گیارہ کلومیٹر طویل سفر کو کور کرنے والی چار سرنگیں موجود ہیں۔ سرنگوں میں اتنا اندھیرا کہ تمام لائٹس آن کرکے بھی اندھیرے کا احساس ہوتا ہے۔ گورنمنٹ کو ان سرنگوں میں لائٹس کا پراپر انتظام کرنا چاہیے۔ پہلی سرنگ تو اتنی لمبی نہ تھی، دوسری میں جب سفر شروع کیا تو وہ ختم ہونے کا نام ہی نہ لے رہی تھی، اسی طرح تمام سرنگوں کو پار کیا، چند منٹ جھیل کا نظارہ کیا اور آگے بڑھ گئے۔

سفر بغیر وقفہ کے جاری رہا۔ اچانک ایک موڑ کاٹنے کے بعد سامنے کا نظارہ نہایت دلفریب تھا، خشک لیکن دھوپ میں چمکتے نوک دار پہاڑ، بہت عجیب اور حیرت انگیز منظر پیش کررہے تھے، ابھی سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے کہ اگلے موڑ نے سارا منظر واضح کر دیا کہ ہم کہیں اور نہیں Passu کونز پہنچ چکے تھے، پہلے سے چائینیز سیاحوں کا ایک گروپ یہاں فوٹوبازی میں مگن تھا۔ اس لیے کچھ دیر انتظار کیا تاکہ مہمان اچھی یادیں محفوظ کر لیں۔ پھر ہم نے بھی کچھ تصویر کشی کی ، یہیں پاسو کا گلیشیر بھی الگ ہیبت ناک منظر پیش کر رہا تھا۔ آگے پاسو گاؤں سے گزرتے چلے گئے۔ آگے ایک علاقہ خیبر نام سے آیا۔ واقعی دیکھنے لائق تھا۔ پتھروں سے چھوٹی چھوٹی دیواریں بنا کر بکریوں کے ریوڑ وغیرہ کی جگہیں بنائی ہوئی تھیں۔ اصل مقام خیبر تو نہیں دیکھا لیکن اس کا ایک عکس یہاں نظر آیا۔

خیبر کے بعد بالآخر وہ منزل آن پہنچی جس کا شدت سے انتظار تھا۔ جی ہاں ہم Sost کے مقام پر پہنچ چکے تھے۔ ایک اچھا جنکشن ہے، یہیں ڈرائی پورٹ بھی ہے، چائینیز اور پاکستانی لوگوں کی اچھی ریل پیل تھی، سامان سے بھرے ٹرک سفر کے منتظر تھے لیکن راستہ بند تھا کیونکہ قریب تین ماہ ہونے کو ہیں یہاں احتجاج چل رہا ہے کچھ مطالبات ہیں مقامی لوگوں کے جس میں بڑا مطالبہ۔۔۔ اساں ٹیکس کوئی نہیں دینا۔۔۔۔ شامل ہے۔ میں سیاسی تو ہوں نہیں اس لیے احتجاج کے چسکے سے پراں ہی رہا۔ کوئٹہ ہوٹل سے چائے پی جو نہایت لاجواب تھی، کچھ موبائل چارج کیا کیونکہ اب سردی ہو رہی تھی اور سردی میں موبائل صاحب کی بیٹری تیزی سے ختم ہوتی ہے ہوگی کوئی وجہ مجھے نہیں معلوم ہم کو تو خنجراب کی دھن سوار تھی

سوست میں احتجاج کے باعث بند شاہراہ عبور کرنے کے لیے گلیوں میں سے ایک گزرگاہ کا پتا چلا۔ اس طرف نکل گئے۔ کچھ کچہ راستہ کچھ پتھروں پر مشتمل تھا۔ خیر نکل گئے۔ کچھ کلومیٹر کے بعد کسٹم والوں کی چیک پوسٹ آگئی، انٹری ہوئی، ایک ہزار روپے کی کمپیوٹرائزڈ سلپ تھما دی پانچ سو روپے فی کس یہ خنجراب نیشنل پارک کی سلپ تھی۔ پیسے اگلی چیک پوسٹ پر ادا کرنے کا کہہ کے روانہ کر دیا گیا۔ اگلی چیک پوسٹ پر تلاشی ہوئی، ڈراؤن کیمرہ اور اسلحہ ممنوع ہے، پیسے جمع کرائے اور جانب خنجراب روانہ ہوگئے۔ یہ سیکشن قریب ساٹھ ستر کلومیٹر کا ہے، راستہ ایسا کہ جیسے کوہ قاف میں داخل ہو رہے ہوں۔ بلند خشک پہاڑ، بل کھاتی سڑک ساتھ دریائے ہنزہ، اور نہ کوئی بندہ نہ بندے دی ذات۔ پندرہ بیس کلومیٹر بعد کوئی اکا دکا کار نظر آتی باقی سب سنسان اور خاموشی۔ روڈ شاندار ہے اس لیے سفر خوشگوار ماحول میں جاری رہا۔ بالآخر برف پوش پہاڑوں نے جھلک دکھلانی شروع کی، نیچے دریائے ہنزہ کا پانی اب ایک نالے کی شکل اختیار کر چکا تھا، جیسے اس کا مقام آغاز قریب ہی ہو۔ سردی اچھی خاصی بڑھ چکی تھی۔ برساتیوں، ہوڈ اور تین تین شرٹس نے کچھ حوصلہ دیا ہوا تھا۔

اب آخری چڑھائیاں شروع ہوگئی تھیں۔ نہایت عمدہ انداز سے بہت مناسب طریقہ سے انجینئرنگ کا شاہکار روڈ آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہا تھا۔ ایک سو پچیس سی سی بائک پر دو سوار بآسانی جا رہے تھے البتہ سپیڈ دس یا پندرہ تھی۔ کچھ کلومیٹر کے بعد ایک بڑا میدان آنکھوں کے سامنے تھا جس میں سینکڑوں یاک اور ان کے بچے مٹر گشت کر رہے تھے، کچھ سڑک پر بھی دھوپ سیک رہے تھے، موٹرسائیکل کو آتا دیکھ کے ادھر ادھر بھاگنا شروع کر دیا۔ یاک اتنا تیز بھی بھاگ سکتا ہے یہ پہلی بار دیکھا۔ پنجاب کی بھینسیں تو بس ہولی ہولی ہی چلتی ہیں جبکہ یہ بہت ایکٹو جانور ہے۔ سامنے دیکھا تو وہ دروازہ نظر آیا جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سرحد کی نشاندہی کر رہا تھا۔۔۔۔۔ جی ہاں ہم خنجراب پاس پہنچ چکے تھے، خوشی کا یہ عالم تھا کہ تھکاوٹ کا احساس تھا نہ سردی کا۔ بارڈر چونکہ بند تھا اس لیے سائڈ پر پارکنگ کی طرف موڑ دیا گیا۔ موٹرسائیکل کو پارک کیا، شوز کور اور برساتیاں اتارنے لگے تو سر چکرانے لگا، جیسے نشہ سا ہو رہا ہو۔ یہ تھکاوٹ نہیں آکسیجن کی کمی کی بدولت تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے۔

 

M. Qasim Waqar Sialvi
About the Author: M. Qasim Waqar Sialvi Read More Articles by M. Qasim Waqar Sialvi: 71 Articles with 32052 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.