کراچی، پاکستان کا معاشی دل، وہ شہر جو دن رات جاگتا ہے، جہاں کاروبار کی رونقیں، تعلیمی ادارے اور محنت کش عوام کی دوڑ دھوپ ملک کی معیشت کو سانس دیتی ہے۔ مگر افسوس کہ اسی شہر کی سڑکیں آج بدحالی کی داستان بن چکی ہیں۔ ہر طرف گڑھے، اکھڑی ہوئی سڑکیں اور کیچڑ سے بھرے راستے عوام کے صبر کا امتحان لے رہے ہیں۔
یونیورسٹی روڈ جو کبھی شہر کی خوبصورت اور اہم ترین شاہراہوں میں شمار ہوتی تھی، اب جگہ جگہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ روزانہ طلبہ، مریض اور عام شہری اسی سڑک پر سفر کرتے ہیں، مگر انہیں منزل تک پہنچنے کے لیے تکلیف دہ سفر برداشت کرنا پڑتا ہے۔ گاڑیاں جھٹکوں سے ہل جاتی ہیں، موٹر سائیکل سوار پھسل جاتے ہیں اور پیدل چلنے والے ہر قدم پر خطرہ محسوس کرتے ہیں۔
ناظم آباد، نارتھ ناظم آباد، گلشنِ اقبال، اور لیاقت آباد جیسے علاقوں میں بھی صورتحال کچھ مختلف نہیں۔ بارش کے بعد یہ علاقے تالاب کا منظر پیش کرتے ہیں، جہاں پانی کے ساتھ ساتھ گندگی اور بدبو بھی عوام کی زندگی کو اذیت ناک بنا دیتی ہے۔ نکاسی آب کا نظام ناکام ہو چکا ہے، جبکہ سڑکوں کی مرمت کے کام اکثر ادھورے چھوڑ دیے جاتے ہیں۔
گرین لائن منصوبے نے جہاں ایک بہتر سفری نظام کا خواب دکھایا، وہیں اس کے دوران کئی سڑکیں توڑ دی گئیں۔ تعمیراتی کاموں کے سبب ٹریفک جام معمول بن گیا ہے۔ جگہ جگہ کھدائی اور بند راستوں نے شہریوں کے لیے سفر کو عذاب بنا دیا ہے۔ سب سے دکھ کی بات یہ ہے کہ اس منصوبے کے دوران درجنوں درخت کاٹ دیے گئے، جن کی چھاؤں کبھی شہر کو ٹھنڈی ہوا دیتی تھی۔ اب ان کی جگہ دھول، شور اور آلودگی نے لے لی ہے۔
کراچی کے عوام نے بارہا آواز اٹھائی، شکایات درج کروائیں، مگر حکومتی رویہ ہمیشہ خاموشی پر قائم رہا۔ منصوبے شروع ہوتے ہیں مگر مکمل کم ہی ہوتے ہیں۔ شہری روزانہ گڑھوں سے بچتے ہوئے دفتر پہنچتے ہیں، بچے اسکول دیر سے پہنچتے ہیں، اور ایمبولینسیں گھنٹوں ٹریفک میں پھنسی رہتی ہیں۔ یہ صرف سڑکوں کا نہیں بلکہ پورے نظام کا زوال ہے۔
شہرِ قائد کی سڑکیں آج سوال کر رہی ہیں کہ روشنیوں کے شہر کا یہ حال کیوں ہوا۔ کب وہ دن آئے گا جب کراچی کی شاہراہیں ترقی کا عکس بنیں گی، نہ کہ تباہی کا منظر۔ عوام اب تھک چکی ہے، مگر امید اب بھی زندہ ہے کہ شاید کوئی سن لے، کوئی دیکھ لے، اور کوئی اس شہر کی سڑکوں کو دوبارہ زندگی دے دے۔
حالات کے قدموں پہ قلندر نہیں گرتا ٹوٹے بھی جو تارا تو زمیں پہ نہیں گرتا — قتیل شفائی |