مودی کی بوکھلاہٹ اور بھارتی سازشیں: ہندوتوا اور طالبان گٹھ جوڑ
(Arbaz Raza Bhutta, Layyah)
|
مودی کی بوکھلاہٹ اور بھارتی سازشیں: ہندوتوا اور طالبان گٹھ جوڑ |
|
جہاں پوری دنیا میں دن بدن طاقت کا توازن تبدیل ہوتا نظر آ رہا ہے اور دنیا یونی پولر سے ملٹی پولر کی جانب رواں دواں ہے جہاں نہ صرف اب دنیا میں امریکہ سپر پاور کے طور پر ہے جبکہ دوسری جانب چین اور روس بھی اسی فہرست میں شامل ہو گئے ہیں۔ دنیا کی انہیں انہونی تبدیلیوں کے دوران اگر جنوبی ایشاء کو دیکھا جائے تو منظر نامہ 2025 کی مئی میں ہونے والی پاک بھارت 6 روزہ جنگ نے بدل کر رکھ دیا ہے۔ جہاں پہلگام مقبوضہ کشمیر میں ایک دہشت گردی کی آگ نے پھیلتے پھیلتے دونوں ممالک کو جنگ میں دھکیل دیا تھا۔ اگر دیکھا جائے تو اس جنگ کی اہمیت کچھ یوں بھی ہے کہ اس جنگ کی وجہ سے بھارت کی سیکیورٹی اور ان کی فضائیہ کا پول کھلا ہے۔ جہاں اب دنیا مان رہی ہے کہ کس طرح پاکستان نے بھارت کو درد ناک شکست سے دو چار کیا ہے۔ اس میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ صرف جنگ کے عملی میدان میں نہیں بلکہ جنگ کے بعد پاکستان نے بین الاقوامی سطح پر سفارتی لحاظ سے بھی بھارت کو دہائیوں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ جس کا درد آپ بے جے پی اور مودی کی تقاریر میں باقاعدہ طور پر محسوس کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر مودی نے 15 اگست یوم آزادی کے اوپر پاکستان کو للکارا اور اپنی بوکھلاہٹ کا واضح طور پر اظہار کیا۔ اس کے علاؤہ کچھ ہفتے قبل مودی نے ڈائریکٹ پاکستان کے فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کو مخاطب کیا اور بزدلانہ طریقے سے دھمکیاں دیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ مودی ہمیشہ یہ تمام کام صرف و صرف ملکی سطح پر اپنی سیاست کو چمکانے کے لیے کرتا ہے اور کیونکہ پاکستان کا سودا صحیح بکتا ہے اس لیے وہ یہی سودا بار بار بیچتا ہے۔ اس کے علاؤہ مودی کی بوکھلاہٹ اس وجہ سے بھی ہے کہ اپوزیشن جس میں راھول گاندھی کی جانب سے مودی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یقین مانیں اس میں پاکستان اور پاکستانی عوام کچھ بھی نہیں کر رہے یہ صرف امریکی صدر ٹرمپ ہے جو بار بار مودی کے زخموں پر نمک چھڑکتا ہے۔ اسی تناظر میں اگر دیکھا جائے تو ٹرمپ تقریباً 30 سے زائد مرتبہ جنگ رکوانے اور بھارت کے جہاز گرنے کے بارے میں بات کر چکے ہیں اور آج کل تو ٹرمپ کی زبان میرے فیورٹ فیلڈ مارشل عاصم منیر کہتے نہیں تکھتی۔ اس تمام تناظر میں اگر دیکھا جائے تو اس وقت مودی کے پاس دو آپشنز ہیں ایک آپشن پاکستان کے ساتھ ایک بار پھر جنگی محاذ کھولنا اور دوسرا افغان طالبان اور تحریک طالبان پاکستان کو ساتھ ملا کر پاکستان میں دہشت گردی کو ہوا دینا شامل ہیں۔ میرے خیال میں بھارت نے جو حالیہ جنگ میں ذلت و رسوائی اٹھائی ہے اب وہ پاکستان پر ڈائریکٹ حملہ نہیں کرے گا جبکہ وہ دوسرا آپشن جس میں افغان طالبان اور ٹی ٹی پی شامل ہیں ان کو پاکستان کے خلاف استعمال کیا جائے گا اور خصوصاً خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کو پروان چڑھایا جائے گا۔ اسی چیز کے لیے آپ نے یہ محسوس کیا ہو گا کہ بھارت اس وقت افغانستان کے ساتھ اپنے معاملات کو بڑھا رہا ہے اور اس وقت افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی بھارت میں ہیں۔ بھارت نے اسی تناظر میں 10 اکتوبر 2025 کو کابل میں اپنا سفارت خانہ کھول دیا ہے۔ ابھی افغانستان کے وزیر خارجہ بھارت میں ہی موجود ہیں کہ طالبان نے پاکستان کی سرحدی خلاف ورزی کی ہے جس کا جواب پاکستان نے بھرپور انداز میں دیا ہے۔ پاکستان نے طالبان کے ساتھ تقریباً 2018 سے مکمل طور پر کوششیں کی ہیں کہ بات چیت سے حل نکالا جائے اور جو ان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے اسے روکا جائے۔ اس کے برعکس افغان فورسز نے ٹی ٹی پی جو کہ ایک دہشت گرد جماعت ہے ان کو افغانستان میں تحفظ دیا ہوا ہے اور وہ جب چاہتے ہیں پاکستان پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ اس وقت اگر دیکھا جائے تو بہت سے انٹرنیشنل میڈیا کے ادارے جن میں الجزیرہ، دا گارڈین اور نیو یارک ٹائمز شامل ہیں بہت سی سٹوریز کر چکے ہیں کہ کس طرح افغانستان میں ان دہشتگردوں کو پناہ دی جاتی ہے اور وہ وہاں سے اپنا منظم نیٹورک چلاتے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں اس امر کی بے حد ضرورت ہے کہ اس مسلئہ کو بین الاقوامی سطح پر بھرپور اجاگر کیا جانا چاہیے اور تمام برادر اسلامی ممالک کو بھی اعتماد میں لایا جائے اور یہ ملا اور ہندوتوا گٹھ جوڑ کو کھل کر بے نقاب کیا جانا چاہیے۔ اس وقت پاکستان کی قیادت چاہے وہ صوبائی ہو یا وفاقی مل کر دشمن کو بھرپور جواب دینا چاہیے کیونکہ پاکستان اب دہشت گردی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اب ہمارے لیے خطرہ نہ صرف مشرقی بارڈر پر ہے بلکہ افغانستان کے طویل بارڈر پر بھی بھارتی ناپاک عزائم منڈلا رہے ہیں۔ یہ وقت مل کر کام کرنے کا ہے، جڑنے کا ہے اور دشمن کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا وقت ہے۔ |
|