کنگرو آئی لینڈ قدرت کا حسین تحفہ:ایک سفر نامچہ---(1)

برِ اعظم آسٹریلیا میں یوں تو بہت سے چھو ٹے چھوٹے جزیرے ہیں۔ ان میں سے کنگرو آئی لینڈ تیسرا بڑا جزیرہ ہے جوجنوبی آسٹریلیا میں واقع ہے۔ یہ جزیرہ ریاست جنوبی آسٹریلیا کے دارالحکومت ایڈیلیڈ سے تقریباً ایک سو بیس کلو میٹرجنوب مغرب میں واقع ہے۔ اس جزیرے کو دیکھنے کی ایک مدت سے خواہش تھی لیکن آج اسے دیکھنے کا موقع ملا ہے۔
کنگرو آئی لینڈ قدرت کا حسین تحفہ:ایک سفر نامچہ---(1)
تحریر: سیدہ ایف گیلانی
یہ جزیرہ خواب کی تعبیر لگتا ہے مجھے
روشنی، خوشبو، دعا، تفسیر لگتا ہے مجھے
ریت پر موجوں نے لکھے وقت کے افسانے سارے
ہر لہر میں عمر کی تحریر لگتا ہے مجھے
چاند اترے تو سمندر میں اجالا بولتاہے
ہر کرن میں حرفِ تسخیر لگتا ہے مجھے
فلنڈرز کی چٹانوں پر کھڑا وہ وقت ہے
جو ازل سے منتظرِ تعبیر لگتا ہے مجھے
شام آئے تو فضا سجدے میں ڈھل جاتی ہے
کینگرو آئی لینڈ تقدیر لگتا ہے مجھے
برِ اعظم آسٹریلیا میں یوں تو بہت سے چھو ٹے چھوٹے جزیرے ہیں۔ ان میں سے کنگرو آئی لینڈ تیسرا بڑا جزیرہ ہے جوجنوبی آسٹریلیا میں واقع ہے۔ یہ جزیرہ ریاست جنوبی آسٹریلیا کے دارالحکومت ایڈیلیڈ سے تقریباً ایک سو بیس کلو میٹرجنوب مغرب میں واقع ہے۔ اس جزیرے کو دیکھنے کی ایک مدت سے خواہش تھی لیکن آج اسے دیکھنے کا موقع ملا ہے۔
جب ہم نے اپنے سفر کا آغاز کیا تو سورج کی تمکنت ہر سو پھیل چکی تھی۔ ایسے میں ہماری گاڑی کیپ جاروس کی طرف روانہ ہوئی تو راستے میں کرسٹیز ڈاؤن(Chrities Beach)، اولڈ نورلنگا(Old Noarlonga)، سی فورڈ رائز(Seaford Rise)، الڈنگا بیچ(Aldinga Beach)، مے پونگا(Mayponga)، ینکالیلا(Yankalilla)، نارمن ول(Normanville)، سیکنڈ ویلی(Second Valley)، سے گزرتے ہوئے کپ جاروس (Cape Jervis)کے ساحل پر پہنچے۔ راستے میں آنے والے چھوٹے چھوٹے قصبے اپنی مخصوص آسٹریلوی سادگی کے ساتھ دل موہ لینے والے تھے۔ ہر بستی میں چھوٹے کیفے، مقامی فنکاروں کی دکانیں، اور ساحلی خوشبو سے لبریز ہوا گویا یہ سب مسافروں کو دعوتِ سفر دے رہے ہوں۔
فیری کا سفر — سمندر کی آغوش میں
کیپ جاروس پہنچ کر ہم نے اپنی گاڑی سی لنک فیری پر سوار کی جس کی ٹکٹ ہم پہلے ہی خرید چکے تھے۔ چند ہی لمحوں بعد فیری کے انجن کی گڑگڑاہٹ سمندر کی وسعتوں میں تحلیل ہو گئی۔ نیلا آسمان، جھاگ اڑاتی لہریں، اور دور کہیں چمکتا ہوا جزیرہ — منظر ایسا تھا کہ وقت ٹھہر سا گیا۔ ڈیک پر کھڑے ہم نے جب پس منظر میں ساحلِ جنوبی آسٹریلیا کو دھیرے دھیرے دور ہوتے دیکھا تو یوں محسوس ہوا جیسے ہم کسی نئے جہان کی طرف بڑھ رہے ہوں۔
فیری کے عملے نے بتایا کہ یہ سفر تقریباً چالیس منٹ کا ہے، اور اکثر اوقات یہاں ڈولفنیں فیری کے ساتھ ساتھ تیرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ واقعی، کچھ دیر بعد چند چمکتی ہوئی ڈولفنیں لہروں کے بیچ اٹکھیلیاں کرتی دکھائی دیں — سمندر کی سطح پر زندگی کا ایک دلکش رقص (یہاں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ جب سمندر میں اونچی لہریں اٹھنا شروع ہو جائیں تو یہ فیری سروس بند کر دی جاتی ہے)۔
کنگرو آئی لینڈ — فطرت کا زندہ عجوبہ
فیری جیسے ہی پینے شا (Penneshaw) کے ساحل سے لگی، ہوا میں سمندری نمک کی خوشبو اور نرمی گھل گئی۔ سامنے پہاڑی ڈھلوانیں، درختوں سے بھری وادیاں، اور کبھی کبھار سڑک کے کنارے چھلانگ لگاتے کنگروز — یہ سب مناظر ایسے تھے جیسے کسی مصور نے رنگوں کی جادوگری سے ایک زندہ تصویر تخلیق کر دی ہو۔مجھے لگا جیسے یہ جزیرہ زمین پر نہیں، کسی اور کائنات کا حصہ ہے — جہاں فطرت، انسان سے نہیں ڈرتی بلکہ اسے اپنا ہمراز سمجھتی ہے۔
صبح کی پہلی کرن جیسے جزیرے کی آنکھوں میں اتر رہی تھی۔ ہوا میں خنکی تھی مگر دھوپ نرم، جیسے کسی ماں کا لمس۔ میں نے ساحل کے قریب بنے لکڑی کے کیبن سے باہر قدم رکھا تو سامنے دور تک سبزہ پھیلا تھا — اور وہ سبزہ محض رنگ نہیں، زندگی کی دھڑکن محسوس ہوتا تھا۔
جنگل کی طرف جانے والا راستہ باریک پتھروں سے بھرا تھا۔ چلتے ہوئے پاؤں میں وہی خراش محسوس ہوتی جو مسافر کو یاد دلاتی ہے کہ سفر آسان نہیں ہوتا، مگر ہر خراش میں ایک نیا منظر چھپا ہے۔ درختوں کے بیچ سے گزرتی ہوا کے ساتھ پرندوں کی آوازیں مل کر ایک ایسا ترانہ بنا رہی تھیں جو نہ کسی انسان نے لکھا، نہ کبھی بجاتا۔
کنگرو آئی لینڈ کی سڑکیں زیادہ تر خاموش، ہموار اور فطرت کے قریب ہیں۔ کہیں کہیں درختوں کے جھنڈ میں کوآلا(Koala) الٹا لٹکا ہوا نظر آتا، اور پرندوں کی چہچہاہٹ پورے جزیرے میں ایک موسیقی سی بکھیر دیتی۔
راستے میں ایک مقامی گائیڈ ملا، نام تھا جارج۔ وہ ہنس کر بولا:
”یہاں کے درخت ہماری طرح عمر رسیدہ ہیں، اور بعض شاید ہم سے زیادہ دانا۔“
میں نے جواب دیا،”اور شاید ہم سے زیادہ خاموش بھی۔“
وہ مسکرایا — جیسے اس بات کو قبول کر چکا ہو کہ انسان شور مچانے والی مخلوق ہے اور فطرت اس کا صبر آزما ہمسفر۔
کچھ دور ہم نے ایک جگہ دیکھی جہاں کوآلا درختوں کی شاخوں سے لپٹے سو رہے تھے۔ ان کے چہرے پر عجب سکون تھا، جیسے وقت ان کے لئے رک چکا ہو۔ میں نے سوچا — انسان نے ترقی کے نام پر نیند کھو دی، اور یہ ننھی مخلوق دنیا کی سب سے بڑی دولت، یعنی سکون، کی مالک ہے۔
جزیرے کے شمال میں فِلنڈرز چیز نیشنل پارک (Flinders Chase National Park)اور جنوب مغرب میں ریمارکیبل چٹان (Remarkable Rocks) جیسے قدرتی عجائبات ہیں — پتھروں کی ایسی دلکش ساختیں جنہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ فطرت خود ایک مجسمہ ساز ہے۔
دن بھر کی سیاحت کے بعد ہم اپنے ہوٹل پہنچے تو سورج دور سمندر کی تہہ میں ڈوب رہا تھا یہ منظر بھی ناقابلِ فراموش تھا جسے ہماری آنکھوں نے دل و دماغ کی گہرائی میں ہمیشہ ہمیشہ کے محفوظ کر لیا گویا:
جب جھکایا سر توآیئنہ بنا دل کا جہاں
خود ہی دیکھا، خود ہی پایا، فاصلہ کوئی نہ تھا
فطرت نے بخشی بصیرت، عقل کو حیرت ملی
تھا تو قطرہ بحرِ حق میں جا کر گوہر بن گیا
کنگزکوٹ کے کیفے میں داخل ہوئے تو ایک مقامی عورت نے خوشی سے کہا،
“گُڈ مارننگ، لوولی ڈے از اِنِٹ اِٹ؟”
میں نے مسکرا کر جواب دیا،”ہاں، واقعی، آج کا دن خوبصورت ہے — شاید جزیرے کی روح اسی روشنی میں جاگتی ہے“
وہ ہنسی، جیسے یہ بات کسی راز کو چھو گئی ہو۔
یہاں کے لوگ وقت کے بوجھ سے آزاد ہیں۔ وہ گھڑی نہیں دیکھتے، بلکہ آسمان کے رنگوں سے دن اور شام کا اندازہ لگاتے ہیں۔ کوئی جلدی میں نہیں، کوئی شور نہیں۔
دکان دار، کسان، ماہی گیر — سب کے چہروں پر ایک خاص سکون ہے، جیسے زندگی سے سمجھوتہ نہیں بلکہ دوستی کر رکھی ہو۔
ایک بوڑھے مچھیرے سے ملاقات ہوئی۔ وہ بندرگاہ کے قریب جال سمیٹ رہا تھا۔
میں نے پوچھا،“کتنے عرصے سے یہاں ہو؟”
وہ بولا،“پچاس سال سے زیادہ۔”
میں نے کہا،“اتنے برس ایک ہی سمندر کے ساتھ؟”
وہ مسکرایا،“یہ سمندر دوست ہے، دشمن نہیں۔ بس شرط یہ ہے کہ تم اس کی زبان سمجھ لو۔”
اس کے الفاظ سمندر کے لہروں کی مانند میرے دل میں گونجتے رہے۔
واقعی، یہاں کے لوگ سمندر سے، ہوا سے، درختوں سے بات کرتے ہیں۔
ان کی مسکراہٹیں مصنوعی نہیں — بلکہ فطرت کی سادگی کا عکس ہیں۔
مقامی لوگوں کی گفتگو سے مجھے یہ احساس ہوا — یہ جزیرہ صرف مناظر کا نہیں، انسانیت کا جزیرہ بھی ہے۔اس احساس نے مجھے تاریخ اوراق میں گم کر دیا۔ تاریخی حقائق جو مجھے میسر آسکے انہیں اختصار سے یہاں بیا ن کیا جارہا ہے تاکہ میرے قارئین کوفطرت کے اس شہکار کی زیادہ سے زیادہ معلومات مل سکیں اور وہ بھی میری طرح ایک دن اس جزیرے کو دیکھنے کے خواہاں ہوں۔

 

Syeda F Gilani
About the Author: Syeda F Gilani Read More Articles by Syeda F Gilani: 54 Articles with 84463 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.