سیلفی کا امام صاحب

کہتے ہیں زمانہ بدل گیا ہے، مگر کچھ لوگ زمانے سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گئے ہیں۔ پہلے امام صاحب وہ ہستی ہوا کرتے تھے جن کا ذکر آتے ہی لوگوں کے ذہن میں عاجزی، علم، تقویٰ، اور سادگی کی تصویر بنتی تھی۔ آج کل کے بعض ”امام صاحبان“ کو دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ کسی فیشن برانڈ کے ایمبیسیڈر ہیں اور خاص طور پر جب اُن کے ہاتھ میں آئی فون 15 پرو ہو، تو لگتا ہے کہ فتوے کے بجائے اگلا فریم capture کیا جا رہا ہے۔
جمعہ کی اذان سے پہلے جب امام صاحب مائیک پر آتے ہیں، تو پہلا کام یہ کرتے ہیں کہ موبائل سیٹ کرتے ہیں۔ لیکن اذان دینے کے لیے نہیں، سیلفی لینے کے لیے! قبلہ رخ ہو کر نورانی چہرے پر تھوڑا سا عطر لگاتے ہیں، عمامہ کا زاویہ تھوڑا سا بائیں گھماتے ہیں، اور پھر پوری سنجیدگی سے کہتے ہیں: ”بھائی ذرا روشنی بڑھا دو، اور دیکھو یہ قالین زیادہ پرانا تو نہیں لگ رہا پیچھے؟“ پھر جیسے ہی کیمرہ آن ہوتا ہے، امام صاحب کی زبان پر ہوتا ہے: ”السلام علیکم دوستو، آج کی 'جمعہ وی لاگ' میں خوش آمدید، موضوع ہے 'دل کی صفائی اور بالوں کا اسٹائل'، ویڈیو کو آخر تک دیکھئے گا!“ ایک لمحے کو تو نمازی سوچنے لگتے ہیں کہ کیا ہم مسجد میں ہیں یا کسی یوٹیوب چینل پر؟ اور خاص بات یہ کہ جب امام صاحب دعا کرواتے ہیں تو ساتھ ساتھ موبائل سے لائیو جا رہے ہوتے ہیں۔ ایک ہاتھ میں دعا، دوسرے ہاتھ میں اینگل ٹھیک کر رہے ہوتے ہیں۔ دعا ختم ہونے کے بعد فوراً اعلان ہوتا ہے: ”آج کی دعا کی ریکارڈنگ انسٹاگرام اور TikTok پر بھی ملے گی۔ کیپشن: 'روح کو چھو لینے والی دعا'، مت بھولیے، شیئر کرنا صدقہ جاریہ ہے!“ ایسے امام صاحب کے فالوورز ہزاروں میں ہوتے ہیں۔ صبح اذان سے پہلے motivational پوسٹ، ظہر کے وقت ”نماز کے فوائد“ پر ریلس، عصر کے بعد ”میری داڑھی کی journey“ پر ویڈیو بلاگ، اور عشاء کے بعد Q.A session لائیو! اب آپ یہ نہ سمجھیں کہ امام صاحب صرف آن لائن ہی ایکٹو ہیں، نہیں جناب! مسجد میں بھی ایک مکمل influencer کا aura لیے چلتے ہیں۔ جب وہ مسجد میں داخل ہوتے ہیں تو اُن کے آگے چلنے والا بچہ ہاتھ میں tripod تھامے، اور پیچھے ایک چھوٹا سا بچہ mic پکڑے ہوتا ہے۔ جوتا اتارنے سے پہلے امام صاحب پوچھتے ہیں: ”کیمرہ آن ہے؟ ٹھیک angle آ رہا ہے نا؟ اچھا، اب میں دھیرے سے جوتا اتاروں گا، zoom کرنا، یہ دین کی طرف پہلا قدم ہے۔“
کبھی کوئی بزرگ نمازی بڑی عقیدت سے کہتے ہیں: ”بیٹا، امام صاحب واقعی ماشاءاللہ نیک ہیں، سنا ہے اُن کے وی لاگ پر لاکھوں views آتے ہیں۔“ تو کوئی نوجوان فوراً جواب دیتا ہے: ”جی جی، اور reels پر جو دعا مانگی تھی، وہ اگلے ہفتے ہی trend میں آگئی تھی!“ اب امام صاحب کا تبلیغی دورہ بھی "content creation tour" کہلاتا ہے۔ ہر شہر کی مسجد میں درس کم اور angles زیادہ تلاش کیے جاتے ہیں۔ نماز کے بعد ہر نمازی کے ساتھ group selfie، caption کچھ یوں ہوتا ہے: "#UmmahVibes #MosqueLife #ImamOnTheGo" اور اگر کوئی ناصح، پرانے وقتوں کی بات کرے کہ بھائی دین کی تبلیغ تو عاجزی سے ہوتی ہے، شہرت سے نہیں، تو فوراً جواب آتا ہے: ”ارے بھائی! ہم نئی نسل کو ایپ کے ذریعے دین سکھا رہے ہیں۔ مسجد میں نہیں آئے تو کیا ہوا، TikTok پر تو آگئے نا!“ اب امام صاحب کا جمعہ خطبہ بھی editing کے بعد آتا ہے۔ درمیان میں background nasheed، soft focus، اور intro کچھ یوں: "Welcome to today’s khutbah with Sheikh Vibes. Let’s get spiritual!" خطبات میں اب قرآنی آیات اور احادیث سے پہلے notifications کا ذکر ہوتا ہے: ”پیارے بھائیو! اگر ابھی تک آپ نے ہماری مسجد چینل کو سبسکرائب نہیں کیا، تو یہ خطبہ miss بھی ہو سکتا ہے۔ Bell icon دبائیں تاکہ ہر اذان کے ساتھ alert ملے۔“ جمعہ کے دن مسجد کے گیٹ پر امام صاحب کا بینر لگا ہوتا ہے جس پر لکھا ہے: ”آج کا موضوع: دین اور ڈیجیٹل دور، Special Appearance by Maulana Vlogistani“ اب جنازے میں بھی اگر وہ شریک ہوں، تو اُن کی پہلی دعا مرحوم کے لیے ہوتی ہے، دوسری audience کے لیے: ”اے اللہ! اس ویڈیو کو اُن لوگوں تک پہنچا دے جنھوں نے ابھی تک قبر کی تیاری شروع نہیں کی، پلیز share کیجیے تاکہ کسی کو ہدایت مل جائے، اور ہاں، comment میں 'آمین' لکھنا مت بھولیں!“ نکاح کی تقریبات تو ویسے بھی امام صاحب کے لیے content goldmine ہیں۔ عقد کی نیت باندھتے ہوئے بھی کہتے ہیں: ”میں تمہیں قبول کرتا ہوں، اور یہ لمحہ TikTok پر upload کرتا ہوں۔“ نوجوانوں کے دلوں میں امام صاحب کا مقام بہت بلند ہے۔ کچھ تو یہ تک کہتے ہیں: ”یار! یہ مولوی صاحب نہ صرف جنت کی طرف بلاتے ہیں بلکہ Instagram explore page پہ بھی لے آتے ہیں!“
اب سننے میں یہ آیا کہ ایک دن امام صاحب کا موبائل خراب ہو گیا۔ مسجد میں سب پریشان! نہ خطبہ live آیا، نہ اذان میں echo، نہ دعا میں background nasheed۔ نمازی کہنے لگے: ”لگتا ہے آج دین میں connection نہیں ہو پایا۔ شاید نیٹ ورک down ہے!“ ایک بزرگ نمازی نے آہ بھری اور کہا: ”پہلے اذان دلوں میں گونجتی تھی، اب اگر Wi-Fi نہ ہو تو بند ہو جاتی ہے۔“
اور آخر میں، امام صاحب کا اگلا پروجیکٹ ”مسجد Vlog Series“ ہے، جس میں وہ بتائیں گے: ”نماز پڑھنے کے صحیح angles“ ”آنسو کیسے بہائیں کہ camera پر pure لگیں“ ”کون سی سورۃ پر views زیادہ آتے ہیں؟“ تو حضرات، اب مسجد صرف عبادت کی جگہ نہیں، بلکہ ایک **mini studio** بن چکی ہے جہاں امام صاحب صرف نمازیوں کے امام نہیں، بلکہ سوشل میڈیا کے influencer بھی ہیں۔ انجام یہ کہ: ممبر سے واعظ کم اور فلٹرز زیادہ برس رہے ہیں۔ دلوں کی اصلاح کم، دلکش poses زیادہ۔ اور اگر کہیں امام صاحب رکوع میں دیر کریں تو نمازی سمجھ جاتے ہیں: ”اچھا، شاید وہ slow-mo بھی record کر رہے ہیں!“ اب یہ سچ ہے کہ دین کی تبلیغ ہر دور میں نئے انداز سے کی گئی ہے۔ لیکن جب فالوورز کی گنتی، filters، اور sponsorships تبلیغ پر حاوی ہو جائیں تو دل چاہتا ہے کہ بندہ اپنے محلے کے اُس امام صاحب کو ہی سلام کرے، جن کے پاس سمارٹ فون تو کیا، گھڑی تک نہ تھی، لیکن ہر نماز وقت پر ہوتی، ہر دعا خلوص سے، اور ہر بات میں عاجزی کا عطر۔ اور اگر آج کے ”سیلفی والے امام“ کو بزرگ امام صاحب دیکھ لیں، تو شاید آسمان کی طرف دیکھ کر بس اتنا کہیں: ”اللہ! یا تو اسے influencer بنا دے یا مولوی واپس کر دے!“

 

Shayan Alam
About the Author: Shayan Alam Read More Articles by Shayan Alam: 54 Articles with 31856 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.