موضوع: بگڑتے ہوئے معاشی حالات و بے روزگاری
(Sohail Aazmi, Dera Ismail khan)
آرٹیکل: سہیل احمد اعظمی، ڈیرہ اسماعیل خان مورخہ 20.10.2025 موضوع: بگڑتے ہوئے معاشی حالات و بے روزگاری
پاک سعودی عرب کا معاہدہ ہو گیا، منفرد قیمتی پتھر "ریئر ارتھ منرل" کا کھربوں کا خزانہ دریافت ہو چکا، پٹرول، ڈیزل، گیس، کوئلہ، کرومائٹ، جپسم، یورینیم، ریکوڈک میں سونا اور تانبے کی کان دریافت ہو گئی، اٹک کے قریب، کے پی کے اور پنجاب کے علاقوں میں دریا کی ریت سے خالص سونا نکالا جا رہا ہے۔ نمک، زمرد اور چلغوزے کی پیداوار حاصل ہو رہی ہے، لیکن عام غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزارنے والے 25 کروڑ پاکستانیوں کی زندگی میں کوئی بہتری نظر نہیں آرہی۔
غربت میں کمی، تعلیم و صحت کی سہولیات کی فراہمی کی صورت میں کوئی امید یا خواہش ہمارے حکمرانوں کی نظر میں نہیں۔ آئی ایم ایف سے جان چھڑانے کی بجائے قرضوں کی بھرمار جاری ہے۔ حکمران اپنی عیاشیوں، مراعات اور سہولیات پر وہی قرض کیا ہوا سرمایہ اڑانے میں مصروف ہیں، جبکہ 78 سالوں سے ظلم کی چکی میں پسی عوام کے حالات دن بدن خراب سے خراب تر ہوتے جا رہے ہیں۔
بھاری ٹیکسوں، ٹول پلازوں کے بڑھتے ہوئے نرخ اور ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں آئے دن اضافے نے روزگار اور تعلیم کے حصول کی خاطر سفر کرنا دشوار بنا دیا ہے۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ سرکاری کالجوں اور اسکولوں کو — جہاں تعلیم کا خرچ پرائیویٹ اداروں کے مقابلے میں کم تھا — نجی تحویل میں دیا جا رہا ہے، جو نوجوانوں اور ان کے والدین کے لیے ایک اور بڑا دھچکا ہے۔
ٹریفک کے چالانوں میں بے پناہ اضافے نے گھر سے باہر نکلنا محال کر دیا ہے۔ بجلی اور گیس کے بل ہر ماہ عدالتی وارنٹ کی طرح آ پہنچتے ہیں۔ واپڈا کا میٹر ریڈر کسی پولیس والے سے کم نہیں۔ پولیس سے تو کبھی کبھار سامنا ہوتا ہے، لیکن واپڈا، گیس کے بل اور بچوں کے پرائیویٹ اسکولوں کی بھاری فیسوں کا سامنا ہر ماہ کرنا پڑتا ہے۔ سفید پوش طبقہ کانپتے ہاتھوں سے بل وصول کرتا ہے کہ کہیں کوئی جرمانہ تو نہیں لگا دیا گیا، یا ریڈنگ زیادہ تو نہیں لکھ دی گئی۔
ان تمام تر ناگفتہ بہ حالات کا ہمارے حکمرانوں اور مقتدر قوتوں کو کوئی احساس نہیں کہ عام آدمی کی زندگی کس قدر دشوار ہو چکی ہے۔ آئی پی پیز سے معاہدے ویسے ہی چل رہے ہیں کیونکہ ان میں سے اکثر ہمارے حکمرانوں کی اپنی کمپنیوں سے منسلک ہیں۔ وہ گھر بیٹھے اربوں روپے عوام کی کھال ادھیڑ کر وصول کر رہے ہیں۔
چینی مافیا، گندم مافیا، گھی مافیا کھربوں روپے کما چکے لیکن کسی کے خلاف کارروائی نہیں ہوئی۔ آج کی خبر کے مطابق چینی 200 روپے فی کلو اور روٹی کا نرخ 20 روپے ہو چکا ہے۔ حکومت کی رِٹ کہیں نظر نہیں آتی۔ احتسابی ادارے صرف خزانے پر بوجھ بنے ہوئے ہیں۔ ناقص تعمیراتی اور ترقیاتی کاموں کے ذریعے عوام کے ٹیکسوں سے حاصل سرمایہ کرپشن کی نذر ہو رہا ہے۔
افسوس کہ چونکہ اس سب کے پیچھے بڑے لوگ شامل ہیں، اس لیے کسی کے خلاف کارروائی ممکن نہیں۔ ایماندار افسران ناپید ہو چکے ہیں۔ ہر ادارہ کرپشن میں دوسرے سے سبقت لے جانے میں مصروف ہے۔ عوام اپنے حالات سے مایوس ہو چکے ہیں، انہیں بہتری اور اچھائی کی کوئی امید نہیں۔
پاکستان کا قرضہ 2025 تک 76.45 ٹریلین تک پہنچ چکا ہے، جس میں بیرونی قرضہ 52 ٹریلین اور اندرونی بینکوں سے حاصل کردہ قرضہ 25 ٹریلین ہے۔ صرف ایک سال میں شریف برادران نے 9 ٹریلین کا قرضہ لیا۔ ہر پاکستانی تقریباً چار لاکھ روپے کا مقروض ہو چکا ہے۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں غربت کی سطح 2024 تک 39.4 فیصد تک پہنچ چکی ہے، اور ٹیکس کی شرح ہمسایہ ممالک کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔
بجلی اور گیس کے ٹیرف پر ظالمانہ ٹیکسوں نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ کئی ملٹی نیشنل کمپنیاں پاکستان چھوڑ چکی ہیں جن میں پی اینڈ جی، ستارہ ٹیکسٹائل ملز، شیل پیٹرولیم، مائیکروسافٹ، فائزر، سنوفی، بائر اور ٹوٹل پارکو شامل ہیں۔
اندرونِ ملک قلیل سرمایہ سے چلنے والی ہزاروں پاور لومز، فیکٹریاں اور ملیں بند ہو چکی ہیں۔ میرے ایک دوست جن کی گھی اور آٹے کی ملیں تھیں، دونوں بند کر چکے ہیں۔ وجہ پوچھی تو بتایا کہ بجلی و گیس کے بھاری نرخ، ایف بی آر، کسٹم، ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن، انتظامیہ کی کرپشن اور بدامنی نے کاروبار ناممکن بنا دیا ہے۔ ان ملوں کے سینکڑوں مزدور بے روزگار ہو گئے۔
ہمارے حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ پاک سعودی عرب دفاعی معاہدے، قطر، یو اے ای، عمان، بنگلہ دیش، چین، امریکہ، روس، ترکی، ملائیشیا اور دیگر ممالک سے بہتر تعلقات کا فائدہ اٹھائیں۔ اندرونِ ملک حالات کو بہتر بنا کر سرمایہ کاری کو فروغ دیں۔
مہنگائی کی شرح عوام کی برداشت سے باہر ہو چکی ہے۔ لوگ پاکستان کے بیرونی تعلقات اور آپریشن "بیان مرسوس" کے بعد بہتری کی امید لگائے بیٹھے تھے، مگر حالات بد سے بدتر ہو رہے ہیں۔ روپے کی قدر اب افغانی کرنسی سے بھی کم ہو گئی ہے، جو کبھی بوریوں میں بھر کر دی جاتی تھی۔
وزراء اور حکمران اپنی مراعات میں آئے دن اضافہ کر رہے ہیں، مگر عوام کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول ناممکن بنا دیا گیا ہے۔ ان حالات میں نہ صرف سرمایہ کار کمپنیاں ملک چھوڑ کر جا رہی ہیں بلکہ تعلیم یافتہ نوجوان اور مزدور طبقہ بھی روزگار کی تلاش میں بیرونِ ملک جا رہا ہے۔
2023 میں 10 لاکھ پاکستانیوں نے ملک چھوڑا، جن میں سے 8 لاکھ 62 ہزار 625 روزگار کے لیے، اور 28 ہزار مستقل نیشنلٹی کے لیے گئے۔ 2024 میں وزارتِ اوورسیز کے مطابق 7 لاکھ پاکستانیوں کو بیرونِ ملک روزگار ملا، جبکہ 6 لاکھ 64 ہزار نے غیر قانونی طور پر ملک چھوڑا۔ 2025 میں اپریل تک ایک لاکھ 7 ہزار 246 پاکستانی بے روزگاری کے باعث ملک چھوڑ چکے ہیں۔
اگر آپ لاؤڈ اسپیکر پر اعلان کروائیں کہ گلف ممالک، یورپ یا افریقہ میں روزگار کے مواقع دستیاب ہیں تو 90 فیصد نوجوان ملک چھوڑنے کو تیار ہیں۔
ہمارے حکمران کس مدہوشی اور خوابِ غفلت میں پڑے ہیں؟ عوام کی نفرت آسمان کو چھو رہی ہے۔ اگر فوری طور پر ٹھوس اقدامات نہ کیے گئے تو بہت دیر ہو جائے گی — اور پھر پچھتاوے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ |
|