لوگ خودکشی کیوں کرتے ہیں ؟

لوگ خودکشی کیوں کرتے ہیں ؟

تحریر:ڈاکٹرظہوراحمد دانش

(دوٹھلہ ڈبسی کشمیر )

آج کے دور میں جب موبائل اسمارٹ فون ہاتھ میں ہو، سوشل میڈیا ہر لمحے کی گواہی دے رہا ہو، اور دنیا ایک “کلک” میں سامنے آجائے، تو خودکشی کے رخ پر بھی چند نئے زاویے نظر آتے ہیں۔مثلاً، نوجوان ذہن سوشل میڈیا پر دوسرے لوگوں کی “پرفیکٹ زندگیوں” کو دیکھ کر مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس نے محسوس کیا کہ اُس کا اندر کا درد ٹرنڈ نہیں، اُس کا سکون انسٹاگرام پوسٹ نہیں، اور اُس کی وجودی تنہائی ‘لائکس’ کی قطار میں گم ہو گئی ہے۔ اس کے اندر یہ خیال پیدا ہو جاتا ہے کہ “اگر تم نظر نہیں آ رہے، تو شاید تم وجود نہیں رکھتے۔

اسی طرح، ڈیجیٹل دنیا نے نئی خطرات بھی پیدا کی ہیں: آن لائن بُلیِنگ، دنیا سے الگ تھلگ رہنے کا احساس، اور سماجی تال میل میں کمی۔ پاکستان میں یہ پیداوار خاص طور پر نظر آ رہی ہے، جہاں کہانی یہ بھی بن گئی ہے کہ “ہر گھریلو تنازعہ، ہر بیرونی دباؤ، اور ہر خاموش چیخ ڈیجیٹل عہد میں بڑا بحران بن سکتی ہے”۔ مضمون نگار نے مشاہدہ کیا ہے کہ جہاں گھر کی بات دبائی جاتی ہے، وہاں موبائل پر چیٹنگ تیز اور بے قرار چل رہی ہوتی ہے۔

مزید یہ کہ وبائی دور نے بہت سی زندگیاں متاثر کیں: لاک ڈاؤن، بے روزگاری، معاشی بحران، خوفِ وبا — یہ تمام مل کر انسان کو اندر سے کمزور بنا گئے تھے۔ پاکستان میں لاہور، کراچی، تھرپارکر اور دیگر علاقوں کی رپورٹس میں یہ واضح ہوا ہے کہ وبا کے بعد خودکشی کے رجحانات بڑھے۔

ہم ایک نئے سراغِ ناپیدا مرحلے میں ہیں جہاں “سوشل سگنلز” یعنی آن لائن پوسٹس، چیٹس، تصویریں اور غمزدہ سٹیٹس اپنے اندر خطرے کی بو لیتی ہیں۔ مصنوعی ذہانت اور ڈیٹا مائننگ بھی اس سمت بڑھ رہی ہیں، یعنی خودکشی کی پیش گوئی کے لیے اسمارٹ ٹولز بن رہے ہیں۔

لہٰذا جدید دور کا چیلنج یہ ہے کہ صرف دوا یا تھراپی کافی نہیں، بلکہ انسانی رابطے، ڈیجیٹل اتحاد اور ٹیکنالوجی کے ذریعے “داخلے کی صفائی” لازم ہے — یہ سوال کہ کس نے درد سنا، کس نے سنبھالا۔خودکشی کی وجوہات جاننے کا عمل ایک ادبی سراغ سے کم نہیں — یعنی حقیقت کو تلاش کرنا، خاموش مواصلات کو پڑھنا، اور درد کی تہہ کھولنا۔میں آپ کو قدیم طریقے بتاتاہوں جن کے ذریعہ کھوج لگائی جاتی رہی ۔

قدیم طریقے

1. نفسیاتی آٹاپسی (Psychological autopsy) —

ایک مرحلہ وار تحقیق ہوتی ہے کہ متوفی نے کیوں اور کیسے یہ فیصلہ کیا۔ اُس کے طبی ریکارڈ، دوستوں و اہلِ خانہ سے گفتگو، زندگی کے حالات، جذباتی پیمانے سب ملائے جاتے ہیں۔

2. معاشرتی سروے اور انٹرویوز

خاندان، محلے، دوستوں سے مل کر سنا جاتا ہے کہ شخص کو کون سے درد لاحق تھے، کون سا لمحہ آخری ثابت ہوا۔

3. عدالتی تفتیش اور رپورٹنگ

جہاں خودکشی رپورٹ ہوتی ہے، پولیس اور میڈیکل کا کام ہوتا ہے کہ اس کی تفصیلات درج کریں، کیمیکل تجزیہ کریں اور شواہد جمع کریں۔

قارئین:اب وقت نے کروٹ بدلی جدید دور جدید ماحول کے تقاضے بدلے تو انسان نے اپنے طور طریقے اور ضابطے بھی بدل دیے ۔آئیے اس معاملے میں جدید طریقہ تفتیش کو بھی جانتے ہیں ۔

جدید طریقے

1. ڈیجیٹل تجزیہ اور سوشل میڈیائی سگنلز

اب لوگ اپنی چیٹ، پوسٹس، احساسات کا اظہار آن لائن کرتے ہیں۔ محققین ایسے ڈیٹا کو استعمال کر رہے ہیں کہ خطرے کی پہلی جھلک مل جائے۔

2. اسکیننگ اور اسکریننگ ٹولز

اسکولوں، یونیورسٹیوں، اسپتالوں میں ایسے سوالنامے اور آن لائن ایپلیکیشنز بنائی جا رہی ہیں جو خودکشی کے امکانات کا اندازہ لگا سکیں۔

3. کئی سطحی ماڈلنگ —

ٹیکنالوجی کے ذریعے جذباتی تبدیلیاں، پوسٹ کی ٹائمنگ، نیٹ ورک تجزیہ، الگوردمز بنائے جا رہے ہیں کہ کس فرد میں خودکشی کا امکان زیادہ ہے۔

4. ہیلپلائنز، چیٹ بوٹس، آن لائن تھراپی

جہاں انسان کھل کر بات نہ کر سکے، وہاں ٹیکنالوجی اپنی جگہ بنا رہی ہے جس سے سنا جائے، سمجھے جائے اور امداد ملے۔

ان طریقوں سے ہم صرف واقعے کے بعد “کیوں” کا سوال نہیں پوچھ رہے بلکہ پہلے سے “کب اور کیسے” کا انکشاف کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ وقت پر مداخلت ممکن ہو سکے۔

ذرا احتیاط کے ساتھ بتانا چاہوں گا کہ دنیا بھر میں پیشوں (پروفیشنز) کی بنیاد پر خودکشی کا مکمل، یک معیاری اور تازہ ڈیٹا آسانی سے دستیاب نہیں ہے۔ البتہ معتبر اداروں نے کچھ اہم رجحانات اور پیشوں کی جھلک ضرور فراہم کی ہے، جنہیں آپ بطور حوالہ استعمال کر سکتے ہیں۔ نیچے دو حصے ہیں: (ا) کون-کون سی پیشوں میں خودکشی کا خطرہ نسبتاً زیادہ پایا گیا، (ب) گزشتہ پانچ سالوں کے دوران عالمی سطح پر خودکشی کے کچھ اہم عددی حقائق۔

کون-کون سی پروفیشنز میں خطرہ نسبتا زیادہ ہے

ذیل میں وہ پیشے ہیں جن میں تحقیقات نے نسبتاً زیادہ خودکشی کی شرح دکھائی ہے۔

Centers for Disease Control and Prevention (CDC) کے مطابق امریکی ڈیٹا میں درج صنعتوں (industry) اور پیشوں (occupation) میں خودکشی کی شرح مجموعی ورکنگ آبادی سے زیادہ تھی، مثال کے طور پر: مائننگ، کنسٹرکشن، زرعی شعبہ، ٹرانسپورٹیشن وغیرہ۔
تفصیل میں: مردوں میں “تعمیر و نکالنے” (Construction & Extraction) کے مزدور، ٹرانسپورٹ اور میٹریل موونگ (Transportation & Material Moving) کے افراد، زرعی/ماہی گیری وغیرہ میں زیادہ شرح دیکھی گئی۔
ایک دوسری تحقیق میں یہ ظاہر ہوا ہے کہ بعض پیشے جیسے ڈاکٹرز، ڈینٹسٹس، پولیس آفیسرز، ویٹرنری ڈاکٹرز وغیرہ میں خودکشی کا خطرہ عمومی آبادی سے زیادہ ہوسکتا ہے۔
مثال کے طور پر ایک تحقیق نے قبل از وقت ادوار میں ویٹرنری ڈاکٹرز (veterinarians) کو انتہائی خطرے میں قرار دیا ہے۔
یہ اعداد و شمار براہِ راست “پاکستان” پر منحصر نہیں بلکہ بین الاقوامی تحقیق کی جھلک ہیں۔ پاکستان میں مخصوص پیشوں کے لحاظ سے خودکشی کا مفصل ڈیٹا دستیاب ہونا چیلنج ہے۔

پچھلے پانچ سالوں کے عالمی حقائق

یہ وہ اعداد و شمار ہیں جنہیں بین الاقوامی اداروں نے شائع کیا ہے، خودکشی کے رجحانات کی نشان دہی کرتے ہیں:

دنیا بھر میں ہر سال تقریباً ۷۲۰٬۰۰۰ یا اس سے زائد افراد خودکشی کی وجہ سے جانِ بحق ہوتے ہیں۔
۲۰۲۱ میں خودکشی دونوں جنسوں مل کر تقریباً ۱٫۱ فیصد تمام اموات کا حصہ تھی یعنی ہر ۱۰۰ موتوں میں ایک موت خودکشی کا تھی۔
خودکشی کی شرح (suicide mortality rate) عالمی سطح پر ۲۰۱9 میں تقریباً ۹٫۰ فی ۱۰۰٬۰۰۰ افراد تھی۔
مردوں میں خودکشی کی شرح خواتین کے مقابلے تقریباً دو گنا یا اس سے بھی زیادہ ہے۔
مختلف رپورٹس کے مطابق ترقی پذیر ممالک میں ۷۳ فیصد سے زائد خودکشیوں کی تعداد واقع ہو رہی ہے۔
قارئین:

زندگی کا اصل معیار “دوسروں کے سامنے دکھنے کا” نہیں بلکہ “اپنے اندر کا وہ روشنی”، ہے جو خاموش تھیلی میں جلتی رہتی ہے۔ خودکشی اس روشنی کا خودمحرومی ہے — ایک ایسا فیصلہ جس نے زندگی کی ممکنہ صبح کو نظرانداز کر دیا۔اگر ہم نے قدیم اور جدید طریقے دونوں کو اپنایا، کوشش کی کہ سنیں، سمجھیں، رابطہ کریں — تو شاید وہ ہجوم جو سڑک پہ جمع تھا اور صرف تماشا دیکھ رہا تھا، اُس کی جگہ ایک دستی تھامنے والا ہاتھ ہوتا۔زندگی ایک گلزار ہے، جسے ہم اجنبی پودوں سے نہیں بلکہ اپنے احساسات کے ساتھ، اپنے رشتوں کے ساتھ، اور اپنی امیدوں کے ساتھ سجاتے ہیں۔ اگر کبھی اندھیرا گھیرے، تو یاد رکھیں کہ روشنی کا وعدہ تب بھی زندہ ہے۔ایک انسان کی خاموش چیخ سننے کی ہمت کریں۔ اور معاشرت کی مردہ سماعت کو زندہ بنائیں۔اگر چاہیں، میں پاکستان میں مخصوص اعداد و شمار، علاقائی تحقیقی رپورٹس یا خودکشی سے بچاؤ کی حکمتِ عملی کا تفصیلی مطالعہ بھی فراہم کر سکتا ہوں۔

اسلام نے انسان کی جان کو ایک مقدس امانت قرار دیا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ پاک نے انسان کو تمام محرومیوں سے نکالتے ہوئے ارشاد فرمایا آیت کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ ’’اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو، بے شک اللہ تم پر مہربان ہے۔‘‘(سورۃ البقرہ: 195)

ایک اور مقام پر فرمایا گیا:’’ اور اپنی جان کو قتل نہ کرو، یقیناً اللہ تم پر مہربان ہے۔‘‘(سورۃ النساء: 29)

نبی کریم ﷺ نے سخت انداز میں فرمایا’’ جس نے خود کو کسی چیز سے ہلاک کیا، وہ قیامت کے دن اسی سے عذاب دیا جائے گا۔(صحیح بخاری، حدیث: 5778))

یعنی جو زہر پی کر مرا وہ جہنم میں ہمیشہ زہر پیتا رہے گا، اور جو ہتھیار سے خود کو زخمی کر کے مرا وہ ہتھیار جہنم میں اپنے ہاتھ میں لیے رہے گا۔

اسلام کا پیغام صاف ہے: زندگی اللہ کی عطا ہے، اور اسے ختم کرنے کا اختیار صرف اسی کے پاس ہے۔مایوسی شیطان کا جال ہے، جبکہ ایمان اُمید کی روشنی ہے۔لہٰذا جو دل شکستہ ہو، وہ یاد رکھے کہ ربِ کریم “یئس” (مایوسی) نہیں بلکہ “رجاء” (امید) چاہتا ہے۔نماز، دعا، اور توبہ ہر اندھیرے کو روشنی میں بدل سکتی ہے۔زندگی، جتنی مشکل ہو، پھر بھی اللہ کے قریب جانے کا دروازہ ہے۔اور وہ دروازہ کبھی بند نہیں ہوتا۔
DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 429 Articles with 675292 views i am scholar.serve the humainbeing... View More