چپ رہنا بھی ایک احتجاج ہے
(Ali Abbas Kazmi, Roopwal, Chakwal)
✍🏻 : علی عباس کاظمی(روپوال،چکوال) 28اکتوبر 2025ء دنیا بظاہر ایک سادہ سی جگہ لگتی ہے مگر ہر انسان کے اندر ایک اور دنیا آباد ہوتی ہے خیالات، یادوں، خوفوں اور سوالوں کی دنیا۔ یہی وہ جہان ہے جہاں کبھی خاموشی شور بن جاتی ہے اور کبھی خیال ایک طوفان کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ یہ وہ کیفیت ہے جسے ہم "اوور تھنکنگ" کہتے ہیں، یعنی وہ عمل جب سوچنا انسان کے لیے علاج نہیں بلکہ عذاب بن جائے۔یہ رویہ دیکھنے میں عام لگتا ہے، لیکن حقیقت میں یہ ذہنی تھکن کی علامت ہے۔انسان کا دماغ جب کسی خیال میں الجھتا ہے تو وہ بار بار اُسی منظر، اُسی لفظ اور اُسی یاد کو دہراتا ہے، گویا کوئی اندر بیٹھا تماشائی اس تکرار سے لطف اٹھا رہا ہو۔ اوور تھنکنگ کا شکار شخص اپنے ماضی کی گلیوں میں بھٹکتا رہتا ہے، کبھی پچھتاوے کی راکھ میں سکون تلاش کرتا ہے اور کبھی آنے والے کل کے اندیشوں میں کھو جاتا ہے۔ وہ حال میں موجود ہوتے ہوئے بھی حال میں نہیں جیتا۔ اوور تھنکنگ کا المیہ یہ ہے کہ یہ انسان کو "اگر" اور "کاش" کے دائرے میں قید کر دیتی ہے۔ یہ دو لفظ کسی زنجیر کی طرح سوچ کے گرد لپٹ جاتے ہیں۔انسان آج کے لمحے کو محسوس نہیں کر پاتا اور ماضی یا مستقبل کی فکر میں گھِرا رہتا ہے۔زیادہ سوچنے والے کو لوگ کمزور سمجھتے ہیں، مگر حقیقت میں اوور تھنکر جذباتی انسان کی علامت ہے۔کسی کی خاموشی میں چھپے درد کو، کسی لفظ کے پیچھے چھپی نیت کو، اور کسی نگاہ میں چھلکتی بے رُخی کو وہ فوراً پہچان لیتا ہے۔ اگر لوگ اس کے دل کے نازک جذبات کو سمجھیں تو یہ حساسیت اس کی سمجھداری میں بدل سکتی ہے۔بدقسمتی سےمعاشرہ اسے کمزور جان کر الگ کر دیتا ہےاور وہ اپنی ہی سوچوں کے قید خانے میں قیدی بن جاتا ہے۔ ۔ ۔ خاموش، مگر چیختا ہوا۔ سائنس کے مطابق جب کوئی شخص زیادہ سوچتا ہے تو اس کا دماغ حقیقت اور خیال میں فرق کرنا بھول جاتا ہے۔ جب وہ کسی خوفناک بات کا تصور کرتا ہے، تو جسم اسی طرح ردِعمل دیتا ہے جیسے کوئی اصل خطرہ سامنے ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اوور تھنکر کے لیے ایک عام جملہ، ایک چھوٹی سی بات یا ہلکا سا اختلاف بھی دل ہلا دینے والا بن جاتا ہے۔وہ چھوٹی بات پر بھی گھبرا جاتا ہے، کیونکہ اس کا دماغ فوراً کسی برے انجام کا تصور بنا لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگ اکثر تھکن، بے چینی اور نیند کی کمی کا شکار رہتے ہیں۔ زیادہ سوچنے سے ان کے جسم میں دباؤ والے ہارمونز (جیسے کارٹیسول) بڑھ جاتے ہیں، جس سے ذہنی اور جسمانی تھکن دونوں اکٹھی ہو جاتی ہیں۔ اوور تھنکر کی زندگی کا سب سے مشکل پہلو یہ ہے کہ وہ اپنے خیالات سے بھاگ نہیں سکتا۔ وہ خود سے لڑتا ہے، خود کو سمجھاتا ہے مگر دماغ کا شور رکنے کا نام نہیں لیتا۔ لوگ اسے مشورہ دیتے ہیں، "اتنا مت سوچو"، "خود کو مصروف رکھو"مگر یہ جملے اس کے لیے کسی علاج سے زیادہ اذیت بن جاتے ہیں، کیونکہ سوچ کو بند کرنا کسی مشین کا سوئچ آف کرنے جیسا نہیں۔ اوور تھنکر کو نصیحت نہیں چاہیے۔ ۔ ۔احساسِ موجودگی چاہیے۔ وہ یہ جاننا چاہتا ہے کہ کوئی ہے جو اسے سمجھتا ہے، جو اسے بغیر جج کیے سننے کو تیار ہے۔ کبھی کبھی کسی کے لیے سکون کسی مشورے میں نہیں، بلکہ ایک خاموش "میں ہوں نا" میں چھپا ہوتا ہے۔انسان اپنے ماضی کی غلطیوں، اپنی کہی ہوئی باتوں اور کیے گئے فیصلوں کا بوجھ اٹھائے پھرتا ہے۔ وہ خود کو معاف نہیں کر پاتا، اسی لیے اس کے اندر کا شور کبھی تھمتا نہیں۔ مگر سکون تب آتا ہے جب انسان خود سے صلح کر لیتا ہے۔ یہ مان لیتا ہے کہ وہ کامل نہیں، اور زندگی کا حسن اسی میں ہے کہ ہم تجربات سے سیکھیں چاہے وہ غلطیاں ہی کیوں نہ ہوں۔ آخر وہی تو جیتے ہیں جو کوشش کرتے ہیں، جو گرتے ہیں، سنبھلتے ہیں، اور آگے بڑھ جاتے ہیں۔جو ماضی کے زخموں کو سینے سے لگائے رکھتا ہے، وہ حال کے لمس سے محروم ہو جاتا ہے — اور یوں زندگی اپنی خوشبو کھو بیٹھتی ہے۔ دراصل اوور تھنکر کے لیے سب سے بڑا سکون یہ احساس ہے کہ وہ جیسا ہے، ویسا ہی ٹھیک ہے۔ ۔ ۔ نہ کم، نہ زیادہ۔۔ جب انسان خود کو جیسا ہے ویسا تسلیم کر لیتا ہے، تو دماغ کا شور رفتہ رفتہ کم ہونے لگتا ہے۔ وہ سمجھنے لگتا ہے کہ اس کی سوچ دشمن نہیں، بلکہ اس کی اندرونی گفتگو ہے جسے سننے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔رشتوں میں اوور تھنکنگ ایک خاموش قاتل بن جاتی ہے۔ کبھی کبھی غصے میں کہے گئے الفاظ، کانوں سے زیادہ دل میں اُتر جاتے ہیں۔ ایسے دِلوں کے لیے لفظ تلوار سے زیادہ زخم دے جاتے ہیں۔اگر ہم چاہیں تو اپنے رویے سے کسی کے ذہنی طوفان کو روک سکتے ہیں۔ ایک نرم لہجہ، ایک صبر بھرا جواب یا ایک سمجھدار خاموشی ،یہ وہ چھوٹی چیزیں ہیں جو کسی کے ذہن کو سکون دے سکتی ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ ذہنی کیفیتوں کو سنجیدگی سے نہیں لیتا۔ ہم جسمانی بیماری کے لیے دوڑتے ہیں مگر ذہنی زخم کو مذاق سمجھ لیتے ہیں۔ کسی کی حساسیت کو “ڈرامہ” کہہ دینا دراصل اس کے اندر کے شور پر تیل ڈالنے کے مترادف ہے۔ وہ شخص اور زیادہ خود پر شک کرنے لگتا ہے، اس کا اعتماد ٹوٹ جاتا ہے اور اس کا ذہن اندھیرے میں گم ہو جاتا ہے۔ ہر ذہنی کیفیت کا علاج الفاظ سے نہیں ہوتا، کبھی کبھی علاج خاموشی میں چھپا ہوتا ہے، کسی کے پاس بیٹھ کر اسے سننے میں۔اوور تھنکنگ سے نجات کا راستہ مشوروں سے نہیں،محبت، سمجھ اور صبرسے نکلتا ہے۔ جب انسان کو احساس ہو کہ وہ اکیلا نہیں، کوئی ہے جو اس کے ساتھ ہے تو دماغ کا شور کم ہونے لگتا ہے۔ اور یہی وہ لمحہ ہے جب زندگی ایک بار پھر سانس لینے لگتی ہے۔ حقیقت اتنی سی ہے کہ جو لوگ زیادہ سوچتے ہیں، وہ زیادہ محسوس بھی کرتے ہیں۔ان کے اندر درد گہرا ہوتا ہے، جو دکھائی نہیں دیتا لیکن حقیقت میں موجود ہوتا ہے۔۔ وہ کمزور نہیں، بلکہ وہ لوگ ہیں جو ہر دن اپنی سوچوں کے طوفان سے لڑ کر جیتنے کی کوشش کرتے ہیں۔ان کے لیے نرم رویہ، سنجیدہ گفتگو اور سمجھداری سب سے بڑی دوا ہیں۔کبھی کبھی آپ کی ایک نرم بات کسی کے ذہن کے شور کو خاموش کر دیتی ہےاور آپ کا ایک پرسکون لمس کسی کے اندر کی قیامت ٹال دیتا ہے۔ یہی اصل انسانیت ہے کہ آپ لفظوں سے نہیں،احساس سے شفا دیں۔
|
|
Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.