علامہ اقبال کے فلسفے میں گلِ لالہ:حریت، خودی اور جمالیات کا استعارہ
ڈاکٹر افضل رضوی---آسٹریلیا
علامہ اقبالؒ کے کلام میں جس طرح فلسفہ خودی بنیادی عنصر ہے اور دیگر تمام فلسفہ ہائے فکر اسی سے ترتیب پاتے اور نکھرتے چلے جاتے ہیں،اسی طرح ان کے ہاں جو مختلف نباتات استعمال ہوئے ہیں،ان میں پھول بھی ہیں اور پھل بھی، درخت بھی ہیں اور شجر بھی، بیج بھی ہیں اور دانے بھی۔ انہوں نے بہت سے پھولوں کو اپنے اشعار کی زینت بنایا اور بعض کو اصطلاحاً، تشبیہاً، استعارۃً استعمال کیا ہے۔ پھولوں میں گلِ لالہ ایسا پھول ہے جو علامہ اقبال کو بے حد پسند ہے اور اس کا ذکر ان کے کلام میں کثرت سے ملتا ہے۔ کہیں وہ اسے سیاسی اصطلاح کے طو ر پر استعمال کرتے ہیں توکہیں اسے ملت اسلامیہ کے لیے استعارۃً استعمال کرتے ہیں۔ کہیں اسے دین کے لیے تو کہیں اپنی فکر ودانش کے اظہار کے لیے استعمال کرتے ہیں۔۔۔۔ |
|
|
ڈاکٹر افضل رضوی---آسٹریلیا
علامہ اقبالؒ کے کلام میں جس طرح فلسفہ خودی بنیادی عنصر ہے اور دیگر تمام فلسفہ ہائے فکر اسی سے ترتیب پاتے اور نکھرتے چلے جاتے ہیں،اسی طرح ان کے ہاں جو مختلف نباتات استعمال ہوئے ہیں،ان میں پھول بھی ہیں اور پھل بھی، درخت بھی ہیں اور شجر بھی، بیج بھی ہیں اور دانے بھی۔ انہوں نے بہت سے پھولوں کو اپنے اشعار کی زینت بنایا اور بعض کو اصطلاحاً، تشبیہاً، استعارۃً استعمال کیا ہے۔ پھولوں میں گلِ لالہ ایسا پھول ہے جو علامہ اقبال کو بے حد پسند ہے اور اس کا ذکر ان کے کلام میں کثرت سے ملتا ہے۔ کہیں وہ اسے سیاسی اصطلاح کے طو ر پر استعمال کرتے ہیں توکہیں اسے ملت اسلامیہ کے لیے استعارۃً استعمال کرتے ہیں۔ کہیں اسے دین کے لیے تو کہیں اپنی فکر ودانش کے اظہار کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
اگر دیکھا جائے تو لالہ ایک یسا پھول ہے جس کا استعمال بیشتر شعرا کے ہاں مل جاتا ہے۔ شعرانے اسے، اس کے سرخ رنگ کی وجہ سے خون سے مشابہ قرار دیا ہے اور اس کا استعمال اکثر شعرا کے ہاں تشبیہہً اور استعارۃً ملتا ہے۔ نیز اس کےمختلف الاقسام مرکبات بھی ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں جیسے:لالہ یک سو، مانندِ لالہ،لالہ تر، لالہ و گل، لالہ زار، گل و لالہ،لالہ صحرا اور برگ ِ لالہ۔ان مرکبات ِ اضافی و عطفی کے استعمال سے اشعار کی معنوی حیثیت بڑھ جاتی ہے۔علامہؒ کے کلام میں یہ مرکبات مختلف تراکیب کی شکل اختیار کرتے ہیں تو اس سے نہ صرف اشعار کی معنوی حیثیت بڑھتی ہے بلکہ ان میں تسلسل، روانی، فکر و فلسفہ اورروشن مستقبل کی نوید بھی سنائی دیتی ہے۔ جس طرح انہوں نے گل کی دو طرح کی تراکیب استعمال کی ہیں اسی طرح لالہ بھی ان کے کلام میں دو مختلف صورتوں میں جلوہ گر ہوتا ہے۔ مثلاََ: داغِ لالہ، تمیزِ لالہ،پردۂ لالہ، چراغِ لالہ، گلِ لالہ،شرابِ لالہ گوں، خفتگانِ لالہ زار، ضمیرِ لالہ، عروسِ لالہ، برگ ہائے لالہ، لولوے لالہ، آبِ لالہ گوں،ساقیئ لالہ فام، سکوتِ لالہ، مئے لالہ فام، داغِ لالہ فشاں، لالہ صحرا، لالہ صحرائی، جگرِ لالہ، قافلہ لالہ، پیرہنِ لالہ، گریبان ِ لالہ،چراغ ِلالہ،فضائے لالہ، فروغ لالہ، شوخیئ لالہ، نصیبِ لالہ،مثالِ لالہ، قبائے لالہ، داغِ لالہ، برگِ لالہ، میانِ لالہ، چراغِ لالہ، شاخِ لالہ، د رِ لا لہ، قافلہ لالہ،،تختہ لالہ، عروسِ لالہ،دلِ لالہ، جگر ِ لالہ، کفِ لالہ، درونِ لالہ، داغِ لالہ،نمودِ لالہ، آتشِ لالہ، ورقِ لالہ، ساحرانِ لالہ، بخونِ لالہ،سر شکِ لالہ،خون ِ لالہ اور لالہئ صحرا،لالہ افسردہ، لالہئ خودرو، لالہئ دک سوز،لالہئ پیکانی، لالہئ آتشیں،لالہئ شعلہ، لالہ ئ خود رو، لالہئ صحرا ستم، لالہئ ناپائدار، لالہئ حمراستے، لالہئ کو،درونِ لالہئ آتش،مزاجِ لالہئ خود رو،لالہئ خورشید، لالہ تشنہ، لالہ من،لالہ احمر، لالہ صبح جیسی خوب صورت تراکیب استعمال کرکے اپنے کلام کو پر کشش اور دل کی گہرائیوں میں اتر جانے والا اور ہمیشہ زندہ رہنے والا کلام بنا دیا ہے۔
علامہؒ کے اردوکلام میں لالہ کا سب پہلا استعمال بانگِ درا کی نظم’دردِ عشق‘ میں ملتا ہے جہاں انہوں نے عشق کو جذبہ ایثار وخدمت کے طور پر پیش کیا ہے۔علامہؒ کی خواہش تھی کہ عشق کی وہ حالت جو قرونِ اولیٰ میں تھی، وہی آج کے دورِ فساد و انتشار میں پھر سے بے دار ہو جائے مگر جب وہ گردو نواع میں دیکھتے تھے تو انہیں تصنع اور بناوٹ کے سوا کچھ دکھائی نہ دیتا تھا۔علامہؒ کہتے ہیں کہ اگر دردِ عشق زمانے کی ناہمواریوں کی وجہ سے الگ تھلگ ہو جائے تو لالے کا پیالہ شرابِ عشق سے محروم ہو جائے اور شبنم کے آنسو پانی کے قطرے بن جائیں۔
خالی شراب ِ عشق سے لالے کا جام ہو
پانی کی بوند گریۂ شبنم کا نام ہو
علامہؒ نے ۱۹۰۵ میں برطانیہ کے لیے رختِ سفرباندھا لیکن اس سے پہلے وہ بانگِ درا کی تصنیف کا کام شروع کر چکے تھے اگرچہ یہ شائع ین کی وطن واپسی کے بعد ہوئی۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ انہوں نے انگلستان جانے سے پہلے پانچ طویل نظمیں انجمن حمایتِ اسلام کے سالانہ جلسوں میں پڑھیں جنہیں بڑی پذیرائی ملی۔ ان میں نالۂ یتیم، یتیم کا خطاب ہلالِ عید سے، اسلامیہ کالج کا خطاب مسلمانانِ پنجاب سے، ابرِ گہر بار یا فریادِ امت اور تصویرِ درد شامل ہیں۔ تاہم جب انہوں نے بانگِ درا شائع کی تو اوّل الذکر چار کو اس میں
شامل نہ کیا۔صرف فریادِ امت کا ایک بند دل کے عنوان سے باقی رکھا،جب کہ موخّرالذکر اس میں شامل کر لی گئی۔اس نظم کے تمہیدی بند میں وہ اپنے پسندیدہ پھول لالہ کا ذکر کچھ اس انداز میں کرتے ہیں:
اٹھائے کچھ ورق لالے نے، کچھ نرگس نے، کچھ گل نے
چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری
علامہؒ اپنے اس سفر کے دوران جب دہلی پہنچے تو مزارِ حضرت نظام الدین اولیا پر ’التجائے مسافر‘ پڑھی۔ پہلے بند کا اختتام فارسی شعر پر کیا،جس کا مفہوم یہ ہے کہ میرا دل اگر سیاہ ہے تو سمجھنا چاہیے کہ تیرے لالہ زار کا داغ ہوں اور اگر خنداں پیشانی ہوں تو تیری بہار کا پھول ہوں۔
اگر سیاہ دلم، داغِ لالہ زارِ توام
وگر کشادہ جبینم، گلِ بہارِ توام
علامہؒ فرقہ بندی اور گروہ بندی کے سخت خلاف تھے اور اسے امتِ مسلمہ کی زبوں حالی کی سب سے بڑی وجہ سمجھتے تھے۔ انہوں نے ہمیشہ اس کی مذمت کی اور اپنے کلام میں بھی جا بجا اپنے خاص انداز میں اس کی مذمت کی ہے۔ بانگِ درا حصہ اوّل کی ایک غزل میں اس مضمون کو بڑی خوب صورتی سے بیان کیا ہے جب کہ نظم ’محبت‘ میں انہوں نے اس کی تین بنیادی خصوصیات بیان کی ہیں اور نظم کے آخری شعرمیں کہا ہے کہ محبت ہی کی بدولت آفتابوں اور ستاروں نے مقامِ ناز حاصل کیا، کلیاں کھل اٹھیں اور لالے نے یہ سب کچھ اپنے سینے میں نقش کر لیا جو دا غ کی صورت میں اب بھی موجود ہے۔ نظم ’کوششِ ناتمام‘ میں علامہؒ نے لالے کو حسنِ مطلق سے تعبیر کیا ہے۔کہتے ہیں کہ وہ حسنِ ازل جو لالے اور گلاب کے پردے میں چھپا ہوا ہے،وہ اس لیے بے قرار ہے کہ اس کا جلوہ عام ہو جائے۔ مجموعی طور پر علامہؒ نے اس نظم میں متحرک رہنے کا درس دیا ہے اور یہ درس درحقیقت ان کے کلام کی اساس ہے کیونکہ وہ مسلمانوں کو متحرک دیکھنے کے خواہاں تھے۔
تمیزِ لالہ و گل سے ہے نالہ بلبل
جہاں میں وا نہ کوئی چشمِ امتیازکرے
خرامِ ناز پایا آفتابوں نے ستاروں نے
چٹک غنچے نے پائی، داغ پائے لالہ زاروں نے
حسن ازل کہ پردۂ لالہ وگل میں ہے نہاں
کہتے ہیں بے قرار ہے جلوۂ عام کے لیے
علامہ ؒ کے کلام کا دوسرا دور ان کے قیامِ یورپ ۱۹۰۵ سے شروع ہوکر۱۹۰۸ یعنی ان کی وطن واپسی تک کا دور ہے۔ قیامِ یورپ کے دوران ان خیالات میں کئی تبدیلیاں آئیں جن کا اظہار انہوں نے نہ صرف نظم میں کیا بلکہ اپنے خطوط میں بھی کیا۔ انہوں نے ۱۹۰۷ میں ایک نظم نما غزل لکھی جس میں اپنے نئے افکار و خیالات کا ذکر کیا۔بقول غلام رسول مہر:
’یہ غزل جیسا کہ اقبال نے خود لکھا ہے مارچ ۱۹۰۷ میں کہی تھی اور غالباً اسی مہینے کے مخزن میں چھپ گئی تھی۔ ان کے فکر و نظر میں جو انقلاب ولایت پہنچتے ہی شروع ہوا تھا، وہ کوئی ڈیڑھ برس میں آخری منزل پر پہنچا۔۔۔۔اگر ان کی تعلیمات کا ابتدائی نقشہ دیکھنا ہو جو بعد ازاں دنیا بھر کے لیے خاص جذب و کشش کا مرجع بنے تو وہ یہی غزل یا نظم ہے۔‘ ذرا غور کیجیے کہ ایک ایسی غزل جو علامہ ؒ کی تعلیمات کی ابتدا ہے اس میں بھی انہوں نے لالے کو فراموش نہیں کیا اور اس کے سرخ رنگ اور سیاہ داغ سے اپنے مافی الضمیر کے بیان میں بھرپورکام لیا ہے۔ کہتے ہیں کہ باغ میں لالہ ہر خاص و عام کو اپنا داغ دکھا رہاہے حالانکہ وہ اس بات سے بحوبی آگاہ ہے کہ ایسا کرنے سے دوسرے اسے دل جلا سمجھیں گے لیکن اسے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کیونکہ وہ ایسا کرکے دکھ اور درد کا غماز اور عکاس بننا چاہتا ہے۔
نظم ’بلادِ اسلامیہ‘ کے دوسرے بند میں علامہ ؒ نے لالہ کو تہذیبِ حجاز کی علامت کے طور پرپیش کیا ہے اور شکوہ میں انہیں ان لالوں کی تلاش ہے جن کے دل میں تڑپ اور سینے میں محبت کے داغ ہوں۔
چمن میں لالہ دکھاتا پھرتا ہے داغ اپنا کلی کلی کو
یہ جانتا ہے کہ اس دکھاوے سے دل جلوں میں شمار ہو گا
یہ چمن وہ ہے کہ تھا جس کے لیے سامانِ ناز
لالہٗ صحرا جسے کہتے ہیں تہذیبِ حجاز
اس گلستاں میں مگر دیکھنے والے ہی نہیں
داغ جو سینے میں رکھتے ہوں وہ لالے ہی نہیں
نظم ’بزمِ انجم‘ کا آغاز ہی لالے کے خوب صور ت استعمال سے کیا گیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے درج ذیل شعر
سورج نے جاتے جاتے شام سیہ قبا کو :
طشت افق سے لے کر لالے کے پھول مارے
علامہؒ لالہ کوجب لالہ صحرائی کہتے ہیں تو ان کے سامنے پوری تہذیبِ حجاز ہوتی ہے۔وہی تہذیب جو سادگی اور پا کیزگی کی منہ بولتی تصویر تھی اور جس کے نشانات صحرا اور مرغزار پیش کرتے تھے۔چنانچہ انہیں لالہ میں اورتہذیبِ حجاز میں بہت سی ا قدارِ مشترک نظر آتی ہیں جیسے، صحرائی مکین کوئی مستقل وطن نہیں رکھتے اسی طرح لالہ بھی ہر جگہ نشو و نما پانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔نظم ’شمع اور شاعر‘ میں شاعر کہتا ہے:
در جہاں مثل چراغ لالہ صحرا ستم
نے نصیب محفلے، نے قسمتِ کاشانہ
جواب میں شمع کہتی ہے:
یوں تو روشن ہے، مگر سوز دروں رکھتا نہیں
شعلہ ہے مثل چراغ لالہ صحرا ترا
بات کسی ثبوت کی محتاج نہیں کہ حکیم الامت حضرت علامہ اقبالؒ ایک سچے عاشقِ رسولﷺ تھے اور انہو ں نے اپنے کلام میں جا بجا اپنی اس محبت کا اظہار کیا ہے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ پیغمبرِ اسلام ﷺکی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر ہی امتِ مسلمہ زبوں حالی اور پریشانیوں سے نجات حاصل کر سکتی ہے۔ نظم ’حضور رسالت مآب میں‘ لالے کااستعاراتی استعمال ملاحظہ ہو
ہزاروں لالہ و گل ہیں ریاض ہستی می:
وفا کی جس میں ہو بو وہ کلی نہیں ملتی
علامہؒ کی شہرہ آفاق نظموں میں سے ’شکوہ‘ او ر ’جوابِ شکوہ‘ اپنے بیان اور زورِ بیان کے حوالے سے خاص مقام رکھتی ہیں کہ ان میں علامہؒ نے امتِ مسلمہ کی بے بسی اور لاچارگی کی تصویر کشی کچھ اس انداز سے کی ہے کہ ہر کس و ناکس آنسو بہائے بنا نہیں رہتا۔ ’جوابِ شکوہ‘کے آٹھویں بند میں لالہ کا استعمال نہایت دلکش و دلفریب ہے۔ نظم ’شاعر‘ میں کہتے ہیں کہ نغمہ پیدا کرنے والی ندی بہار کے مے خانے سے سرخ شراب پی کر پہاڑ سے وادیوں میں آتی ہے یعنی موسمِ بہار میں جب پہاڑوں پر بارش ہوتی ہے تو ندیاں اور نالے پانی سے بھر جاتے ہیں۔ علامہ کہتے ہیں کہ بارش کا یہ پانی ندیاں نغمے الاپتی ہوئی لے کروادیوں میں داخل ہوتی ہیں اور انہیں سر سبز و شاداب کر دیتی ہیں۔اس خوبصورت تبدیلی پر نہ صرف انسان بلکہ چرند پرند سبھی خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ علامہ کو مناظرِ فطرت کی تصویر کشی میں بڑا ملکہ حاصل ہے،چنانچہ درج ذیل شعران کے اس فن کا منہ بولتا ثبوت ہے؛
وہ بھی دن تھے کہ یہی مایہ رعنائی تھا
نازشِ موسمِ گلِ لالہ صحرائی تھا!
جوئے سرود آفریں آتی ہے کوہسار سے
پی کے شرابِ لالہ گوں مے کدۂ بہارسے
علامہؒ نے نہ صرف نظم کی مروجہ اقسام میں اپنے خیالات کا اظہار کیا بلکہ ہیت کے نئے تجربات بھی کیے۔ ان کی والدہ ماجدہ کا انتقال ۵۱۹۱ میں ہوا،اس موقع پر انہوں نے جو مرثیہ کہا وہ مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ نظم ’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘ میں انہوں نے لالہ کو زورِ بیان کے لیے استعمال کیا ہے اور اس سے میرے اس موقف کو تقویت ملتی ہے کہ لالہ علامہؒ کا انتہائی پسندیدہ پھول ہے جسے وہ کسی بھی اہم موقع پر نظر انداز نہیں کرتے۔
سینہ چاک اس گلستاں میں لالہ وگل ہیں تو کیا؟
نالہ وفریاد پر مجبور ہیں تو کیا؟
اسی نظم کے بارھویں بند میں رات کے بعد صبح کا منظر پیش کرتے ہوئے لالہ افسردہ اور خفتگانِ لالہ کی خوب صورت تراکیب استعمال کی ہیں:
پردۂ مشرق سے جس دم جلوہ گر ہوتی ہے صبح
داغ شب کا دامنِ آفاق سے دھوتی ہے صبح
لالہ افسردہ کو آتش قبا کرتی ہے یہ
بے زباں طائر کو سر مست نوا کرتی ہے یہ
سینۂ بلبل کے زنداں سے سرودِ آزاد ہے
سینکڑوں نغموں سے باد صبح دم آباد ہے
خفتگان لالہ زار کو ہسار و رودبار
ہوتے ہیں آخر عروسِ زندگی سے ہمکنار
یہ اگرآئین ہستی ہےکہ ہوہرشام صبح
مرقدِ انساں کی شب کا کیوں نہ ہو انجام صبح؟
جاری ہے،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
|