استاد کو علم و ہدایت کا مینار تھا

حسیب اعجاز عاشر
اُستاد صرف کتاب پڑھانے والا نہیں، نہ ہی وہ صرف نصوص اور فقہی مسائل کا ماہر ہے، بلکہ وہ ایک روحانی والد، ایک ہدایتگر، اور انسانی اخلاق کے عملی نمونے کا مجسمہ ہوتا ہے۔ اسلامی تعلیمات میں استاد کو علم کے بعد بلند ترین مقام عطا کیا گیا ہے، اور یہ مقام محض علمی فضیلت کے لئے نہیں بلکہ اخلاق، تربیت، محبت، صبر اور انسانیت کے پختہ اصولوں کی ترسیل کے لئے بھی ہے۔ حضورِ اکرم ﷺ نے فرمایا:"تم میں سے بہتر وہ ہے جو دوسروں کو علم سکھائے۔" (بخاری)۔علم کا حصول محض ذہنی عمل نہیں بلکہ دل کی پرورش، کردار کی اصلاح اور انسانیت کی تربیت کے لئے ہے۔
افسوس صد افسوس! آج کے معاشرے میں بعض اوقات وہی استاد جو رحمت بن کر آنے کا وعدہ لے کر آئے تھے، زحمت اور ظلم کے سبب بچوں کے لیے خوف کی علامت بن جاتے ہیں۔ راولپنڈی کی تحصیل گوجر خان سے ایک حالیہ واقعہ سامنے آیا جس نے ہر حساس دل کو ہلا کر رکھ دیا۔ ایک نجی اسکول میں ایک چھوٹے بچے کو اُس کے اپنے رشتہ دار استاد نے ڈنڈوں کے ذریعہ بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا۔ چار افراد نے بچے کے ہاتھ پاؤں مضبوطی سے پکڑ رکھے، اور استاد نے مسلسل تشدد کیا۔ بچے کی چیخیں، اس کے رحم کی اپیلیں، اور خوفزدہ مناظر ہر دیکھنے والے کے دل کو لرزا دیتے ہیں۔ پولیس نے ویڈیو کے وائرل ہونے پر کارروائی کرتے ہوئے استاد کو گرفتار کر لیا۔ والدین کا کہنا تھا کہ بچہ سگریٹ پیتا تھا اور اسی وجہ سے سزا دی گئی، مگر اسلام میں سزا کے بھی اصول مقرر ہیں۔
یہ سزا نہیں، یہ ظلم ہے۔ یہ تربیت نہیں، یہ تشدد ہے۔ یہ واقعہ محض ایک اسکول کا نہیں، بلکہ ایک سوچ کا المیہ ہے۔ آج کے معاشرے میں کئی بچے اسکول سے نہیں بلکہ مار سے ڈرتے ہیں۔ کئی معصوم ذہن تشدد کی وجہ سے تعلیم سے نفرت کرنے لگے ہیں، اور وہ اپنے استاد کو احترام کی نگاہ سے نہیں بلکہ خوف کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:"اور اپنے ماتحتوں پر نرمی اختیار کرو۔" (سورہ آل عمران: 159)اور حضورِ اکرم ﷺ نے فرمایا:"رحم کرنے والوں پر رحمٰن رحم فرماتا ہے۔ زمین والوں پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔" (ترمذی)۔ استاد کی اصل ذمہ داری شاگرد کی اصلاح، محبت، اور رہنمائی میں مضمر ہے۔ علم کی ترسیل کا طریقہ تشدد یا خوف نہیں، بلکہ شفقت، نرمی اور صبر ہے۔ استاد کا حقیقی ہدف صرف ذہنی استعداد بڑھانا نہیں، بلکہ اخلاقی تربیت، صبر و تحمل، محبت و ہمدردی اور انسانیت کے اعلیٰ معیار بچوں کے دل و دماغ میں بٹھانا ہے۔استاد کے ذمہ داریاں انتہائی جامع اور اہم ہیں۔ وہ اپنے شاگرد کی عقل کی تربیت کے ساتھ ساتھ دل کی تربیت بھی کرتا ہے۔ وہ بچوں کے سوالات کا جواب صبر و شفقت سے دیتا ہے، ان کے اندر اعتماد پیدا کرتا ہے، اور انہیں زندگی کے اچھے اصول سکھاتا ہے۔ وہ نہ مار کر ڈراتا ہے، نہ خوف کے ذریعے دباؤ ڈالتا ہے، بلکہ محبت، علم اور ہمدردی کے ذریعے رہنمائی کرتا ہے۔
حضورِ اکرم ﷺ نے فرمایا:"اللہ اور اس کے رسول کے بعد سب سے افضل مقام علم والے کا ہے۔" (ابن ماجہ)یہ مقام استاد کو انسانیت کی روشنی بکھیرنے، اخلاقی رہنمائی کرنے اور دلوں میں محبت پیدا کرنے کا مجاز عطا کرتا ہے۔ اگر استاد اس مقام کا ادراک کرے تو وہ ہر شاگرد کے لیے روشنی کا مینار بن سکتا ہے۔ مگر اگر یہ مقام نظرانداز کیا جائے اور تشدد و ظلم کا سہارا لیا جائے تو نہ صرف شاگرد کی تربیت خراب ہوتی ہے بلکہ استاد کی ذات کی عزت بھی معدوم ہو جاتی ہے۔
آج کے بعض اسکولوں میں بچوں کی تربیت کا یہ المیہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ کئی معصوم ذہن خوف، مار اور تشدد کی وجہ سے تعلیم سے متنفر ہو گئے ہیں۔ یہ تعلیم کی روح کے منافی ہے۔ قرآن و سنت ہمیں یہی سبق دیتے ہیں کہ تعلیم کا مقصد دلوں میں روشنی ڈالنا اور انسانیت کے اعلیٰ اصول سکھانا ہے، نہ کہ خوف اور تشدد کے ذریعہ نفرت پیدا کرنا۔
ایک استاد کی سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ شاگرد کے دل میں علم، اعتماد، اور اخلاق کی روشنی ڈالے۔ یہ ذمہ داری صرف نصابی تعلیم سے مکمل نہیں ہوتی بلکہ یہ کردار سازی، صبر، محبت اور انسانی اصولوں کی تربیت کے ذریعے مکمل ہوتی ہے۔ استاد کی یہ ذمہ داری اتنی عظیم ہے کہ اس کی ہدایت اور محبت شاگرد کے دل میں ہمیشہ کے لیے نقش ہو جاتی ہے۔معاشرتی طور پر بھی یہ لازم ہے کہ اسکول، والدین اور معاشرہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ استاد نہ صرف علم کی ترسیل کرے بلکہ اخلاقی رہنمائی اور محبت کے ذریعے بچوں کی اصلاح کرے۔ استاد وہ نہیں جو ڈنڈا لے کر ڈراتا ہے، بلکہ وہ ہے جو علم اور محبت کے چراغ سے دلوں کو روشن کرتا ہے۔
حقیقی تربیت وہ ہے جو دلوں میں اعتماد، احترام، محبت اور انسانیت پیدا کرے۔ قرآن و سنت میں واضح ہے کہ علم، تربیت اور اصلاح تشدد کے ذریعے نہیں بلکہ شفقت، رحم اور ہمدردی کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔ اگر یہ اصول ہمارے اسکولوں، اداروں، اور معاشرتی تربیتی نظام میں نافذ ہوں تو ہر بچہ اسکول کو خوف کی جگہ نہیں بلکہ علم، محبت اور خوشی کا مقام سمجھے گا۔ استاد محض ایک علمی مشین نہیں، بلکہ وہ انسانی اخلاق، ہمدردی، محبت اور صبر کی عملی مثال ہے۔ استاد کی تعلیم شاگرد کے دل میں روشنی ڈالتی ہے، اور اس روشنی سے معاشرہ علم، اخلاق اور انسانیت میں ترقی کرتا ہے۔
اگر ہم استاد کے مقام اور ذمہ داریوں کا ادراک کریں، تو ہر بچہ اپنے استاد کو نہ صرف عزت کی نگاہ سے دیکھے گا بلکہ اسے اپنی زندگی کا سب سے خوبصورت چراغ سمجھے گا۔ اسی طرح استاد نہ صرف شاگرد کے ذہن کی روشنی بلکہ دل کی روشنی بھی بکھیرے گا، اور ہر نسل علم، محبت اور انسانیت کے روشن مینار کے ساتھ پروان چڑھے گی۔ استاد کی عظمت اس کے علم، اخلاق، محبت اور ہمدردی میں مضمر ہے۔ جو استاد خوف اور تشدد سے تعلیم دیتا ہے، وہ شاگرد کے دل میں علم کی روشنی نہیں بلکہ نفرت اور درد بکھیرتا ہے۔ استاد کا اصل مقصد اصلاح، محبت اور دلوں میں روشنی پیدا کرنا ہے۔ اگر یہ اصول ہمارے اسکولوں، اداروں اور معاشرت میں نافذ ہوں، تو ہر بچہ اپنے استاد کو اپنی زندگی کا سب سے قیمتی چراغ سمجھے گا، اور معاشرہ علم و اخلاق میں ترقی کی منازل طے کرے گا۔
Haseeb Ejaz Aashir
03344076757
Haseeb Ejaz Aashir
About the Author: Haseeb Ejaz Aashir Read More Articles by Haseeb Ejaz Aashir: 139 Articles with 156954 views https://www.linkedin.com/in/haseebejazaashir.. View More