افغان ٹرانزٹ تجارت: اہمیت اور خطرات
(haseeb ejaz aashir, Lahore)
حسیب اعجاز عاشرؔ سرحد کے دونوں جانب بستی پختون کمیونٹیز ہر لفظی تصادم یا تجارتی رکاوٹ سے براہِ راست متاثر ہوتی ہیں۔ ان کے بازار، کاروبار اور معاش کے ذرائع ایک لمحے میں جمود کا شکار ہو سکتے ہیں۔ آج یہی موضوع زیر غور ہے کہ جو بظاہر محض تجارت یا سرحدی راہداری کی بات لگتا ہے، مگر حقیقت میں پاکستان اور افغانستان کے مستقبل پر گہرے اور دیرپا اثرات رکھتا ہے: افغانستان کی ٹرانزٹ تجارت بذریعہ پاکستان۔ سنہ 1965 میں طے پانے والا جسے 2010 میں ازسر نو تجدیدشدہ تجارتی معاہدہ، دونوں ممالک کے درمیان ایک مضبوط اقتصادی ربط کا مظہر رہا ہے لیکن پچھلے چند برسوں میں اس تجارتی حجم میں نمایاں کمی دیکھی گئی ہے۔ مالی سال 2023 میں یہ حجم 6.5 ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا تھا 2024 میں گھٹ کر 2.3 ارب اور 2025 میں صرف ایک ارب ڈالر تک رہ گیا۔ یہ کمی صرف اعداد و شمار نہیں، بلکہ اقتصادی نبض کی کمزوری اور پختون کمیونٹیز کی زندگیوں پر براہِ راست اثر انداز ہورہی ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے: کیا پاکستان اپنی دو طرفہ تجارت افغانستان کے ساتھ بند کر سکتا ہے؟ اور کیا ٹرانزٹ تجارت بھی روکی جا سکتی ہے؟ بین الاقوامی قوانین کے نقطہ نظر سے جواب پیچیدہ ہے۔ افغانستان کے ساتھ ٹرانزٹ تجارت کا معاہدہ جنیوا کنونشن اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے قواعد و ضوابط کے تحت ہے۔ بین الاقوامی قوانین کے مطابق، پاکستان افغانستان کی تجارتی راہداری بند نہیں کر سکتا۔بعض ماہرین کے مطابق جنگ یا شدت پسندی کے حالات میں یہ معاہدے کم اثر انداز ہوتے ہیں اور قومی مفاد کی ترجیح بعض مواقع پر عالمی قوانین پر مقدم ہو سکتی ہے۔ یہ امر بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ افغانستان ساحل سمندر سے بہت دور ہے اِ س تناظر میں پانی تک رسائی کیلئے پاکستان کا راستہ سب سے قلیل فاصلہ اور مؤثر ترین ذریعہ ہے۔ اگر یہ راستہ بند ہو جائے تو افغانستان کو ایرانی بندرگاہوں، مثلاً چاہ بہار اور بندر عباس، پر انحصار کرنا پڑے گا، جو نہ صرف طویل بلکہ مہنگا بھی ہے مگر محبت اور لڑائی میں سب جائز ہو تو افغانستان کو اِس آپشن پر جانا ناممکن نہیں۔ایک اور اہم حقیقت یہ ہے کہ اگر پاکستان کے راستے سے تجارت بند ہو جائے تو افغانستان کی ضروریات ایران یا بھارت کے ذریعے پوری ہوں گی، جس سے پاکستان کا مارکیٹ شیئر کم ہو جائے گا۔ ایران اور بھارت اس خلا کو پر کرنے کی کوشش کریں گے، اور طویل مدت میں پاکستان کے لیے مارکیٹ میں دوبارہ قدم جما پانا مشکل ہو جائے گا۔ اقتصادی ماہرین بھی یہی کہتے ہیں کہ سب سے زیادہ نقصان پاکستان ہے۔ افغانستان پاکستانی مصنوعات کا بڑا صارف ہے، روزانہ تقریباً 300 ٹرک چمن بارڈر سے روانہ ہوتے ہیں۔ ان مصنوعات میں چاول، سبزیاں، پھل، ادویات، سیمنٹ، لکڑی، پلاسٹک، موٹر سائیکل، ٹریکٹر، شوگر پروڈکٹس اور ربڑ شامل ہیں۔ بالمقابل، افغانستان سے پاکستان آنے والی اشیا محدود ہیں، جیسے خشک میوہ جات، بعض پھل اور کوئلہ۔ حکومتی عہدیداروں کے مطابق بھی، تجارت کی بندش دونوں ممالک کے لیے نقصان دہ ہوگی، مگر قومی سلامتی اور تحفظ اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ اکثر کی یہی رائے غالب ہے کہ برآمدات کا نقصان شدت پسندی اور دہشت گردی کے سبب ہونے والے نقصانات کے مقابلے میں کم ہو سکتا ہے۔بہرحال ہر فیصلہ نازک توازن کا متقاضی ہے، اور حکومت کو اقتصادی، سیاسی اور انسانی پہلوؤں کو مدنظر رکھنا ہوگا۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان یہ تجارتی راہداری صرف اشیاء کی نقل و حمل کا ذریعہ نہیں، بلکہ دونوں ممالک کے تعلقات کی بقا اور پختون کمیونٹیز کے استحکام کی ضمانت بھی ہے۔ لہٰذا، ٹرانزٹ تجارت کی بندش نہ صرف اقتصادی نقصان کا سبب بنے گی، بلکہ سماجی، سیاسی اور انسانی سطح پر بھی گہرے اثرات مرتب کرے گی۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعاون اور باہمی احترام کی بحالی آج سے زیادہ ضروری کبھی نہیں رہی۔
Haseeb Ejaz Aashir | 03344076757 |