روم جلتا رہا، وزیراعلیٰ بانسری بجاتے رہے

خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی نے میڈیا کرکٹ لیگ میں شرکت کی۔ وہ بڑے خوش نظر آئے، بولے کہ "مجھے خوشی ہوئی کہ صحافیوں کے پروگرام میں شرکت کی۔" پھر مائیک پر آ کر جوش میں کہہ دیا کہ بیس سالوں سے بند کمروں میں فیصلے ہو رہے ہیں، ہمیں اعتماد میں نہیں لیا جا رہا۔اب اس بیان نے تو صحافتی محفل کو ہنسی کے سمندر میں غوطے لگانے پر مجبور کر دیا۔ کیونکہ اگر کیلکولیٹر پکڑ کر دیکھا جائے تو 2013 سے 2025 تک یہی پی ٹی آئی ہے جو اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھی ہے۔ اب اگر بیس سال کے فیصلے غلط تھے تو پھر 13 سال کے غلطی نامے پر دستخط کس کے ہیں؟ اے این پی کے سات سال بھی شامل کر لیے جائیں تو باقی تیرہ سال تو اپنے ہی گھر کے ہیں۔ تو حضور والا، آپ کس کے خلاف احتجاج فرما رہے ہیں؟ اپنے ہی باورچی خانے کے شوربے پر تنقید کر رہے ہیں۔

یہی وہ لمحہ ہے جب کسی کو سمجھ نہیں آتا کہ بات طنز ہے، شرارت ہے یا سادگی۔ کیونکہ اگر پہلے والے غلط تھے تو موجودہ کابینہ کے زیادہ تر چہرے وہی پرانے ہیں، صرف کرسیاں اور ٹوپیاں بدل گئی ہیں۔ بات تو سچ ہے مگر افسوس کے ساتھ کہنے والی۔وزیراعلیٰ صاحب فرما رہے تھے کہ ہر عہدے کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ بالکل ٹھیک فرمایا۔ لیکن ان تقاضوں کے لیے کبھی عوامی خدمت بھی ضروری ہوتی ہے۔ عشقِ عمران اپنی جگہ، مگر اس صوبے کے عوام کا عشق بھی کوئی چیز ہے۔ وہی عوام جو اب بھی گیس اور بجلی کے انتظار میں ایسے کھڑے ہیں جیسے امتحان کے نتیجے کا انتظار کر رہے ہوں۔

صاحب نے نیٹ ہائیڈل پرافٹ کا بھی ذکر چھیڑ دیا، جیسے کوئی پرانی لوری ہو۔ ہم نے بچپن میں بھی یہی سنا تھا کہ "بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم ہونے والی ہے۔" آج بھی یہی سنتے ہیں۔ اب نیٹ ہائیڈل پرافٹ بھی اسی لوڈشیڈنگ کی طرح بن چکا ہے—آئے گا، ضرور آئے گا، بس کبھی نہیں آتا۔اے این پی چیختی رہی، کچھ نہیں ملا۔ اب پی ٹی آئی چیخ رہی ہے، کچھ نہیں ملے گا۔ البتہ خوشامدیوں کے قہقہے ضرور ملیں گے جو تالیاں بجا کر کہیں گے، "زبردست سر، آپ نے دل جیت لیا!" ہاں، عوام کا حال؟ وہ جیت گئے یا مر گئے، یہ کسی کو پروا نہیں۔

پھر منظر بدلتا ہے۔ وزیراعلیٰ صاحب میدان میں اترے، بال آیا، اور انہوں نے چھکا مارا۔ مارنے والا کون تھا؟ انہی کی کابینہ کا رکن۔ یعنی سیاست کی طرح یہاں بھی “بال” اپنے ہاتھ میں، “چھکا” بھی اپنے لیے۔سٹیڈیم میں تالیاں بجتی رہیں، باہر صوبہ جلتا رہا۔ کیونکہ اسی وقت وانا کیڈٹ کالج میں دہشتگردوں نے درجنوں طلبہ اور اساتذہ کو یرغمال بنایا ہوا تھا۔ پاک فوج کے جوان جان پر کھیل کر انہیں بازیاب کرانے میں مصروف تھے، اور یہاں وزیراعلیٰ صاحب بانسری بجانے میں۔روم جلتا رہا اور نیرو بانسری بجاتا رہا — یہی مثال آج خیبرپختونخوا کی سیاسی حالت پر فٹ بیٹھتی ہے۔

اب سنیے، وزیراعلیٰ نے فرمایا کہ "پارلیمنٹرینز اور بیوروکریسی کا کرکٹ میچ بھی کرائیں گے۔" جناب، میچ کرائیں، ضرور کرائیں، بلکہ پچ بھی بنیے، امپائر بھی بنیے، لیکن عوامی وسائل کو پچ مت بنائیں۔اگر یہ سلسلہ چل نکلا تو پھر ہر دفتر میں یہی سنا جائے گا کہ صاحب آج میچ کھیلنے گئے ہیں، کل واپسی پر فائل دیکھیں گے۔ اداروں کے مسائل، کھلاڑیوں کے حقوق، اور کھیلوں کے فنڈز سب تماشہ بن جائیں گے۔ سیاست کو کھیل سمجھنا آسان ہے، لیکن کھیل کو سیاست بنانا خطرناک ہے۔

ویسے وزیراعلیٰ صاحب کو بند کمروں کے فیصلوں کا بڑا غصہ ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کراچی کے رہائشی ایک کک باکسر کو بیس لاکھ روپے کی گرانٹ کس کھاتے میں ملی؟ کیا اس لیے کہ وہ “آفریدی” ہیں؟ اگر یہی بند کمروں کے فیصلے نہیں تو پھر کیا ہیں؟ خدارا، ان کمروں سے باہر آئیں۔ صوبے میں ایسا ٹیلنٹ موجود ہے جو کسی کا رشتہ دار نہیں، مگر حق دار ہے۔ صوبہ مسائل کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے۔ پشاور میں بجلی کا حال یہ ہے کہ ہر تین گھنٹے بعد روشنی جاتی ہے، جیسے پولیو کے قطرے پلانے کا شیڈول ہو۔ گیس صبح دوائی کی طرح آتی ہے، دوپہر کو ختم، شام کو پھر تھوڑی سی امید۔

مہنگائی نے سفید پوشوں کو توڑ دیا ہے۔ چوری، ڈکیتی، قتل، ہر جرم میں اضافہ۔ نوجوان ہاتھوں میں ڈگریاں لیے دربدر، اور حکمران ہاتھوں میں بیٹ لیے میدان میں۔ اب بات اعتماد کی۔ وزیراعلیٰ صاحب فرماتے ہیں کہ ہمیں اعتماد میں نہیں لیا جاتا۔ صاحب، ایک بات سن لیجیے۔ بچہ جب ضد کر کے پوٹی کر دیتا ہے تو ماں کبھی ڈانٹتی ہے، کبھی صاف کرتی ہے، مگر پوچھتی نہیں کہ “بیٹے، اجازت ہے؟”ماں کو پتہ ہوتا ہے کہ بچے کے لیے کیا بہتر ہے۔

یہی حال صوبے کا ہے — عوام ماں کی طرح ہیں، سب کچھ برداشت کر لیتے ہیں، مگر جب صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا ہے تو پھر کوئی سیاستدان محفوظ نہیں رہتا۔ اس لیے سیاست ضرور کریں، کھیل بھی کھیلیں، لیکن عوام کے نصیبوں سے مت کھیلیں۔ آپ کا عشقِ عمران اپنی جگہ، مگر عوام کی بے بسی بھی ایک حقیقت ہے۔ اب بھی وقت ہے، بند کمروں کے فیصلوں کو کھلے میدانوں میں لائیں۔ کرکٹ کھیلنے سے پہلے، عوام کے دکھ درد کو سمجھنے کی پریکٹس کریں۔ کیونکہ اگر حالات یہی رہے، تو آنے والے وقت میں صحافی نہیں، تاریخ خود “کمنٹری” کرے گی —

کہ جب خیبرپختونخوا جل رہا تھا، اس کا وزیراعلیٰ چھکا مار کر خوشی میں ٹک ٹاک بنا رہا تھا۔

#KP #PTIGovernment #SohailAfridi #MediaCricketLeague #PoliticalComedy
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 848 Articles with 692159 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More