اوپن لیٹر برائے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا


موضوع: رائٹ ٹو انفارمیشن کمیشن کی ناکامی اور سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے سنگین سوالات

محترم وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا،

آپ کی حکومت نے 2013 میں جو رائٹ ٹو انفارمیشن قانون منظور کیا تھا، اسے میں ہمیشہ ایک تاریخی قدم سمجھتا رہا ہوں۔ 2016 میں جب میں نے ایشین کالج آف جرنلزم، چنائی میں اپنی پروفیشنل ٹریننگ کے دوران سارک ممالک کے طلبہ کے سامنے پاکستان کی مثال دی تھی، تو یہی قانون میری دلیل تھا۔
مجھے 2024 میں اسی قانون کے تحت سب سے زیادہ درخواستیں جمع کرانے پر ایوارڈ بھی ملا۔ افسوس کی بات ہے کہ آج وہی قانون بیوروکریسی کے رویے کی وجہ سے بے اثر ہو چکا ہے۔

میں 2020 سے سپورٹس اور یوتھ کے شعبے پر تحقیقاتی رپورٹنگ کر رہا ہوں۔ 2023 سے اب تک میں نے مختلف اوقات میں کئی درخواستیں دائر کیں، مگر کبھی ریکارڈ غائب کر دیا گیا، کبھی درخواستیں بغیر وجہ کے ڈسپوز کر دی گئیں، اور کبھی کمیشن عملدرآمد نہ ہونے کے بہانے بناتا رہا۔ قانون کہتا ہے ساٹھ دن میں کارروائی لازم ہے، مگر یہاں یا ارکان پورے نہیں ہوتے یا چیف کمشنر موجود نہیں ہوتا۔ نتیجہ یہ کہ کوئی محکمہ جوابدہ نہیں۔

20 نومبر کو کمیشن نے مجھے طلب کیا۔ پی آئی او صرف چند درخواستوں کا جزوی جواب دے کر یہ کہہ کر چلے گئے کہ باقی ریکارڈ “موجود نہیں”۔ کمشنر صاحب نے اس پر مستزاد یہ سوال اٹھایا کہ میں ایک ہی ڈیپارٹمنٹ کے پیچھے کیوں ہوں۔ جب انہیں بتایا کہ یہ معلومات عوام تک خبروں اور رپورٹس کے ذریعے پہنچتی ہیں تو ان کا جواب تھا کہ اگر خبر چھپ بھی جائے تو کیا ہو جائے گا، آپ ہائیکورٹ جائیں۔
یہ رویہ نہ صرف غیرپیشہ ورانہ تھا بلکہ قانون کی روح کے بھی خلاف ہے۔

صورتحال یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ اب میں رائٹ ٹو انفارمیشن کمیشن کو لکھنے کے بجائے براہ راست عدالت جانے پر مجبور ہوں۔ کمیشن، جو ایک عوامی ادارہ ہے، اپنا اعتماد کھو چکا ہے۔

معاملہ یہاں ختم نہیں ہوتا۔ سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے پی آئی او نے سیشن کے دوران مجھے بتایا کہ ڈی جی سپورٹس میرے خلاف عدالت جانے والے ہیں، اور ایک ذریعے کے مطابق مجھے یہ پیغام بھی دیا گیا کہ “ہمارا بندہ عدالت میں ہے، تم سے نمٹ لیں گے۔”
یہ رویہ ایک تحقیقاتی صحافی کے ساتھ نہیں ہونا چاہیے۔

میرا "قصور" صرف یہ ہے کہ میں سوال کرتا ہوں:

• 38 کروڑ کا ٹارٹن ٹریک 68 کروڑ تک کیسے گیا؟ اور اب پی سی ون کیوں چھپایا جا رہا ہے؟
• ڈیپارٹمنٹ کی 21 گاڑیاں کہاں ہیں؟
• 2022 میں خریدے گئے دس کمپیوٹر کسی دفتر میں کیوں موجود نہیں؟
• وی آئی پی ہاسٹل میں برسوں سے قابض افسران مفت بجلی اور گیس کیوں لے رہے ہیں؟
• چالیس لاکھ میں بننے والی کلائمبنگ وال ایک کروڑ میں کیسے بنی؟
• اوپن ائیر جم کا اصل خرچہ کیا ہے؟

یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب دینا ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے۔

محترم وزیر اعلیٰ،
اگر ایک صحافی کو معلومات پوچھنے پر اس طرح کے رویے کا سامنا کرنا پڑے تو عام شہری کے ساتھ کیا سلوک ہوگا؟ رائٹ ٹو انفارمیشن کا قانون عوام نے نہیں، ریاست نے دیا تھا۔ اسی ریاست کا فرض ہے کہ اسے فعال اور مؤثر رکھے۔

والسلام
مُسَرّت اللہ جان
تحقیقاتی صحافی
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 858 Articles with 697221 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More