خیبر پختونخوا میں جنس بنیاد تشدد… اعداد بھی بول رہے ہیں اور خاموشی بھی


خیبر پختونخوا میں جنس کی بنیاد پر تشدد کوئی نظری بحث نہیں رہا، یہ اب ایک ایسا تلخ عہد ہے جس کے ثبوت رپورٹوں، عدالتوں، اسپتالوں، پولیس ڈیسکوں اور قبرستانوں تک میں ملتے ہیں۔ لیکن اصل کرب یہ نہیں کہ تشدد بڑھ رہا ہے، اصل کرب یہ ہے کہ انصاف کم ہو رہا ہے۔ اعداد سامنے ہیں، مگر انصاف کہیں دکھائی نہیں دیتا۔

تازہ جائزوں میں بتایا گیا کہ گزشتہ سال ملک میں جنس کی بنیاد پر تشدد کے 32 ہزار سے زائد کیس سامنے آئے جن میں خیبر پختونخوا کے واقعات تین ہزار تین سو ستانوے تک پہنچے۔ یہ تعداد صرف وہ ہے جو رپورٹ ہوئی۔ صوبے میں دو سو اٹھاون ریپ کے کیس سامنے آئے، مگر سزا صرف ایک کیس میں ہوئی۔ اغوا کے نو سو تینتالیس کیس رپورٹ ہوئے، مگر سزا پھر بھی ایک۔ غیرت کے نام پر قتل کے ایک سو چونتیس واقعات سامنے آئے، مگر سزا صرف دو مرتبہ ہوئی۔ گھریلو تشدد کے چار سو چھیالیس کیس درج ہوئے، مگر ایک بھی سزا نہیں ہو سکی۔
یہ اعداد محض اعداد نہیں۔ یہ چیخیں ہیں جو کاغذ پر لکھی گئیں، مگر عدالت تک چیخ بن کر نہیں پہنچ سکیں۔ پولیس کے پاس رپورٹ ہونے والے ہر واقعے کے پیچھے ایک زندگی، ایک خوف، ایک خاندان اور ایک اجتماعی شرمندگی موجود ہے۔ لیکن نظام کے لیے یہ صرف فائلیں ہیں جو دھول جمع کرتی رہتی ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیم کی رپورٹ نے ایک اور پہلو کھولا۔ پولیس کے پاس ایک سال میں ریپ کے دو سو ترانوے کیس آئے، اجتماعی زیادتی کے چار کیس اور غیرت کے نام پر ایک سو ستائیس واقعات۔ میڈیا کی نگرانی میں کم از کم بیس گھریلو تشدد کی خبریں اور بہتر جنسی تشدد کے کیس سامنے آئے۔ یہ وہ واقعات ہیں جن تک میڈیا پہنچ سکا۔ وہ واقعات جو گھر کی دیواروں، قبیلے کی انا اور معاشرتی چپ کے نیچے دفن رہے، وہ اس سے کہیں زیادہ ہیں۔

اسی سال بچوں کے خلاف تشدد کے گیارہ سو دو کیس بھی رپورٹ ہوئے۔ تین سو چھیاسٹھ جنسی زیادتی کے، ترانوے اغوا کے، اور چار سو چھبیس کیس ایسے تھے جن میں بچوں کو مزدوری، استحصال اور غیر انسانی حالات میں رکھا گیا۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ تشدد صرف عورت پر نہیں ہوتا، یہ بچوں تک اتر رہا ہے، نسلوں تک منتقل ہو رہا ہے۔

یہاں سوال اٹھتا ہے کہ متاثرہ رپورٹ کیوں نہیں کرتے؟ جواب سادہ بھی ہے اور تلخ بھی۔ عورت اگر شکایت کرے تو گھر ٹوٹنے کا طعنہ ملتا ہے۔ گاو¿ں میں عزت کا خوف مسلط کر دیا جاتا ہے۔ ثبوت اکھٹا کرنا مشکل ہے۔ میڈیکل سہولت دور ہے۔ عدالت تک پہنچنے میں پیسہ، وقت، گواہ اور برداشت چاہیے۔ اور آخر میں اگر ملزم چھوٹ جائے، تو اسے طاقت ملتی ہے اور متاثرہ دوبارہ خوف میں چلی جاتی ہے۔ یہ انہی حالات کا نتیجہ ہے کہ لوگ خاموشی کو انصاف سے بہتر سمجھتے ہیں۔

کچھ مثبت قدم ضرور لیے گئے۔ پولیس نے چند شہروں میں ایسے ڈیسک قائم کیے جہاں خواتین نسبتاً تحفظ کے ساتھ رپورٹ کر سکیں۔ کچھ اہلکاروں کو تربیت دی گئی۔ کچھ پالیسی دستاویزات تیار ہوئیں۔ لیکن یہ کوششیں محدود ہیں اور پورے صوبے کے مسئلے کے مقابلے میں بہت چھوٹی۔اصل خرابی چار جگہوں پر ہے۔ پہلی، رپورٹنگ کا خوف۔ دوسری، تفتیش کا غیر مو¿ثر ہونا۔ تیسری، عدالتوں کی سست روی۔ چوتھی، سزا نہ ہونے کی روایت۔ جب مجرم کو معلوم ہو کہ سزا نہیں ملنی، تو جرم کم نہیں ہوتا، بڑھتا ہے۔

معاشی انحصار بھی بڑا مسئلہ ہے۔ گھریلو تشدد کا شکار عورت شکایت کیسے کرے جب اسے معلوم ہو کہ گھر چھوڑنے کے بعد روٹی، رہائش اور بچوں کی پرورش کا کوئی راستہ نہیں؟ صوبے کے چند تربیتی مراکز کافی نہیں، جب تک معاشی اختیار عام عورت تک نہیں پہنچے گا، وہ تشدد سے نکل کر کھڑی نہیں ہو سکے گی۔ایک اور پہلو جسے اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ تیسری جنس کے افراد بھی اسی طرح تشدد کا شکار ہوتے ہیں۔ ان کے خلاف حملے، دھمکیاں اور قتل کے کیس سامنے آئے، مگر ان کے لئے تو رپورٹنگ کا راستہ بھی مزید تنگ ہے۔

حل کیا ہے؟ سب سے پہلے، ہر ضلع میں کیسز کا باقاعدہ اور کھلا ریکارڈ ہونا چاہیے تاکہ مسئلہ چھپ نہ سکے۔ دوسرے، پولیس اسٹیشنوں میں تربیت یافتہ عملہ ہونا چاہیے جو متاثرہ کی تذلیل نہ کرے۔ تیسرے، میڈیکل، قانونی اور نفسیاتی مدد ایک ہی جگہ دستیاب ہو تاکہ متاثرہ نظام کے دھکے نہ کھائے۔ چوتھے، کمیونٹی اور مسجد سطح پر شعور بیدار ہو تاکہ تشدد کو روایت نہ کہا جا سکے۔ پانچویں اور سب سے اہم، سزا یقینی ہو۔ خیبر پختونخوا ایک ایسا خطہ ہے جہاں روایت مضبوط ہے، لیکن ظلم کو روایت کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ ایک معاشرہ اسی وقت مہذب ہوتا ہے جب کمزور محفوظ ہو۔ آج حالت یہ ہے کہ اعداد چیخ رہے ہیں، مگر ردعمل خاموش ہے۔ اگر یہ خاموشی برقرار رہی تو آنے والے سالوں کے اعداد اس سے بھی زیادہ بھیانک ہوں گے۔ یہ مسئلہ عورت کا نہیں، معاشرے کا ہے۔ اور معاشرہ تب بدلتا ہے جب وہ اپنے عیبوں کو دیکھنے کا حوصلہ رکھتا ہو۔ اگر ہم یہ حوصلہ نہ جٹا سکے تو تشدد ہماری آئندہ نسلوں کی تقدیر بن جائے گا، اور یہ وہ میراث ہے جو کوئی قوم اپنے بچوں کو نہیں دیتی۔

#gbv #kpk #kp #pakistan #musarratullahjan #female #rape #torture

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 863 Articles with 698977 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More