چین کا "اے آئی پلس" انیشی ایٹو

چین کا "اے آئی پلس" انیشی ایٹو
تحریر: شاہد افراز خان ،بیجنگ

مصنوعی ذہانت ،بلاشبہ آج کی دنیا کا ایک اہم عالمی موضوع ہے، تاہم دنیا کی دوسری بڑی معیشت چین کے لیے بنیادی سوال یہ ہے کہ اس کی اے آئی سے متعلق حکمتِ عملی کس طرح آگے بڑھے گی اور ملک کی آئندہ ترقی کے راستے کو کس طرح نئی جہت دے گی۔ اس کا سراغ چین کے ایک بڑے قومی انیشی ایٹو "اے آئی پلس" میں ملتا ہے۔

2024 کی حکومتی ورک رپورٹ میں متعارف کرایا گیا یہ انیشی ایٹو تیزی سے اہم ترجیح کے طور پر ابھرا ہے۔ حال ہی میں کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی مرکزی کمیٹی کی جانب سے پندرہویں پنج سالہ منصوبے (2026-2030) کی تشکیل کے لیے جاری کردہ سفارشات میں "اے آئی پلس" انیشی ایٹو کو جامع طور پر آگے بڑھانے" کا واضح ذکر کیا گیا، جو اس کی مستقبل کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔

"اے آئی پلس" کی وضاحت

"اے آئی پلس" کا مقصد چین کی معیشت اور معاشرے کے تمام شعبوں میں مصنوعی ذہانت کے وسیع اور گہرے انضمام کو فروغ دینا ہے۔

اس انیشی ایٹو کے تحت پیداوار اور طرزِ زندگی کے طریقۂ کار کو نئے سرے سے تشکیل دینا، پیداواری قوت میں انقلابی تبدیلیاں لانا، سماجی و معاشی ڈھانچوں میں گہرے اثرات پیدا کرنا اور انسان۔مشین تعاون پر مبنی نئی دانشمندانہ معیشت و معاشرے کی تشکیل کو تیز کرنا شامل ہے۔

سفارشات میں مزید وضاحت کی گئی کہ سائنسی تحقیق کے پیراڈائم کی تبدیلی میں اے آئی کو رہنما بنایا جائے، صنعتی ترقی، ثقافتی فروغ، عوامی فلاح و بہبود اور سماجی حکمرانی میں اے آئی کے استعمال کو وسعت دی جائے، اور صنعتی سطح پر اے آئی کے استعمال میں سبقت حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔

دستاویز کے مطابق یہ اقدامات تمام شعبوں میں اے آئی سے مؤثر فائدہ اٹھانے میں مدد دیں گے۔

چین کے لیے اہمیت

چینی حکام کے مطابق، اے آئی ڈیجیٹل معیشت کے دور میں سائنس و ٹیکنالوجی کے نئے انقلاب اور صنعتی تبدیلی کی محرک اسٹریٹجک ٹیکنالوجی ہے۔ اگرچہ چین اے آئی ترقی میں عالمی سطح پر صفِ اوّل میں شمار ہوتا ہے، مگر بنیادی نظریات اور کلیدی ٹیکنالوجیز میں کچھ خلا باقی ہیں۔

ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ "اے آئی پلس" انیشی ایٹو کے ذریعے چین اپنے وسیع صنعتی ڈھانچے، بڑی صارف مارکیٹ اور متنوع عملی اطلاقی منظرناموں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عملی ایپلی کیشنز کے ذریعے اے آئی ٹیکنالوجی کی پیش رفت کو تیز کرے۔

مزید برآں، اے آئی لیبارٹریوں سے نکل کر صنعتوں اور روزمرہ زندگی تک پہنچ چکی ہے، جو نئی ترقیاتی قوت پیدا کر رہی ہے۔ کئی ممالک اے آئی حکمتِ عملیاں متعارف کرا چکے ہیں اور خودکار ڈرائیونگ، انسان نما روبوٹس اور برین ۔کمپیوٹر انٹرفیس جیسے نئے شعبے تشکیل دے رہے ہیں۔

عالمی مسابقت میں شدت کے تناظر میں چین کے لیے ضروری ہے کہ اے آئی کے صنعتی اطلاق میں قیادت حاصل کرے۔ "اے آئی پلس" سے اے آئی مصنوعات و خدمات میں جدت کو فروغ ملے گا اور وسیع پیمانے پر تجارتی استعمال کو تقویت ملے گی۔

چین کے آئندہ اقدامات

اگست میں چین کی ریاستی کونسل کی جانب سے جاری کردہ رہنما اصولوں کے مطابق، چین کا ہدف ہے کہ 2027 تک چھ کلیدی شعبوں میں اے آئی کا جامع اور گہرا انضمام حاصل کیا جائے۔ دانشمندانہ معیشت کی بنیادی صنعتوں میں تیز رفتار ترقی ہو گی اور پبلک گورننس میں اے آئی کا کردار نمایاں حد تک بڑھے گا۔

2030 تک اے آئی چین کی اعلیٰ معیاری ترقی کو مکمل طور پر تقویت دے گی اور دانشمندانہ معیشت قومی ترقی کی اہم محرک بن جائے گی۔ اے آئی ٹیکنالوجی تک عوامی رسائی میں اضافہ ہو گا۔

2035 تک چین مکمل طور پر ذہین معاشی و سماجی ترقی کے نئے مرحلے میں داخل ہو جائے گا، جو اشتراکی جدیدیت کے ہدف کے حصول کے لیے مضبوط بنیاد فراہم کرے گا۔

چین نے گزشتہ برسوں میں اے آئی صلاحیتوں میں نمایاں پیش رفت کی ہے۔ فی الوقت چین عالمی سطح پر اے آئی پیٹنٹس کا تقریباً 60 فیصد رکھتا ہے، جبکہ عملی اطلاق میں متعدد عالمی معیار کے ماڈلز اور 100 سے زیادہ نمایاں ایپلی کیشن منظرنامے تشکیل پا چکے ہیں۔

چین کی یہ ترقی سائنس و ٹیکنالوجی میں جدت کی نئی بلندیاں حاصل کرنے میں مدد دے گی۔ آئندہ پانچ برسوں میں منظرنامہ پر مبنی جدت کے ذریعے ٹیکنالوجی اور صنعت کے درمیان خلا کو کم کیا جا سکے گا اور تحقیق اور مارکیٹ کے مابین مؤثر ربط قائم ہو گا۔

چینی حکام پرامید ہیں کہ، "اے آئی پلس" کی مکمل عمل درآمدگی سے چین میں سائنسی و تکنیکی جدت مزید تیز رفتار ہو گی اور ملک کو ٹیکنالوجی کی عالمی طاقت بنانے میں مرکزی کردار ادا کرے گی۔ 
Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1705 Articles with 975636 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More