قربانی

اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو خوشی کے دو مواقع عیدین کی صورت میں عطا کیے ہیں۔ دونوں عیدوں کے موقع پر اللہ تعالیٰ پہلے اپنے بندوں سے قربانی کا طلبگار ہوتاہے تاکہ وہ پرہیز گار بن سکیں۔ عیدالفطر سے پہلے پورے مہینے کے روزے ایمان والوں پر فرض کردئے گئے تاکہ وہ صرف اللہ کے احکامات کے تحت ان حلال چیزوں سے بھی خاص اوقات میں پرہیز کریں جن کو اللہ نے ہی ہم پر حلال کیا ہے اور ان پابندیوں کے بعد اللہ تعالیٰ نے خوشی کا بھرپور موقع عنائت فرمایا، عیدالاضحیٰ کے موقع پر ہم حلال جانوروں کی قربانی کرتے ہیںجن کے بارے میں اللہ کے آخری نبی اور رسول حضرت محمد ﷺ نے مسلمانوں کو بتا دیا۔ ہم عیدالاضحیٰ کے موقع پر عظیم الشان قربانی کی روائت کو دہراتے ہیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اللہ کے حکم پر ذبح کرنے کے حکم کو بلا چون و چرا مان کر کی تھی، اللہ تعالیٰ کو اپنے احکامات کی پاسداری میں حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کی تابعداری اتنی پسند آئی کہ رہتی دنیا تک اس کو مثال بنا دیا اور ہم آج بھی انہیں دو پیغمبروں کی سنت کو اپنا کر اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش و سعی کرتے ہیں۔ حضرت ابراہیم ؑنے صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی قربت اور خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اپنے فرزند کی قربانی کا اللہ کا حکم بخوشی قبول کیا جبکہ فرزند عظیم حضرت اسماعیل ؑ نے بھی اپنی رضامندی ظاہر کرتے ہوئے مہر تصدیق ثبت کردی۔

آج اگر ہم دیکھیں تو کیا ہم اللہ کی راہ میں صرف جانور قربان کرکے اس کی خوشنودی حاصل کرسکتے ہیں، ایسی قربانی جس میں دکھاوا بھی ہو، جس میں دنیا داری بھی ہو، جس کے حصول کے لئے حلال اور حرام کی کوئی تمیز بھی روا نہ رکھی جاتی ہو، کیا ایسی قربانی ہمیں اللہ کی خوشنودی اور اس کی قربت دلوا سکتی ہے، کیا ہم اللہ کے مقرب بندے بن سکتے ہیں؟ کیا ہم اپنی خواہشات اور حلال و حرام میں تمیز کئے بغیر قربانی کی روح تک پہنچ سکتے ہیں؟ آج اگر صرف پاکستان کے حالات پر ایک نظر دوڑائیں تو یہ محسوس نہیں ہوتا کہ قوم کا ہر فرد اپنی خواہشات کاا سیر بن کر رہ گیا ہے، وہ لوگ جو اپنی انا کی قربانی نہ دے سکتے ہوں، جن کو نہ حلال و حرام کا کوئی احساس ہو، جن کے نزدیک انسانی جان کی کوئی حرمت نہ ہو، جن کے نزدیک اللہ تعالیٰ کے احکامات کی کوئی وقعت نہ ہو، جو اس کے نبی آخر الزمان ﷺ سے محبت کے صرف زبانی دعوے کرتے ہوں اور عمل کی کبھی کوشش ہی نہ کرتے ہوں، کیا محض جانور قربان کردینے سے وہ اللہ کا قرب حاصل کرسکیں گے، کیا ہم اپنے پڑوسی کے حقوق کے بارے میں سوچتے ہیں کہ وہ کن حالات سے گذر رہا ہے، اس کے بچوں کو دو وقت چھوڑ ایک وقت کا کھانا بھی نصیب ہوا یا نہیں؟ کیا ہم اپنے رشتے داروں کا کسی بھی حوالے سے خیال رکھ پاتے ہیں؟ کیا انسانیت نام کی کوئی جنس یہاں موجود ہے؟ پوری دنیا میں اگر ان کا کوئی تہوار آجائے تو وہاں ضروریات زندگی کی اشیاءکی قیمتیں کم کردی جاتی ہیں جبکہ ہمارے یہاں وہی دن پورے سال کی کمائی کے لئے مخصوص ہیں، ہندوستان جیسا ملک حاجیوں کو سبسڈی دیتا ہے، رمضان اور عیدین کے موقع پر مسلمانوں کے لئے قیمتیں کم کردی جاتی ہیں اور یہاں پر الٹی گنگا بہائی جاتی ہے، لوگ غربت اور بیروزگاری کی وجہ سے خودکشیاں کرنے پر مجبور ہورہے ہیں جبکہ ہمارے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو عید قرباں کے موقع پر لاکھوں کے اونٹ، بیل اور بکرے ہفتہ ہفتہ پہلے اپنے گھروں کے باہر باندھ دیتے ہیں اور لوگ دور دور سے ان کا دیدار کرنے آتے ہیں، کیا ہمارے معاشرے کے تضادات اللہ کو پسند آسکتے ہیں؟

ملاوٹ، کم تولنا اور کم ماپنا ہمارہ طرئہ امتیاز بن چکا ہے، وہ گناہ جن کے ارتکاب پر کوئی قوم اللہ کے عذاب کا شکار ہوجایا کرتی تھی اور اسے صفحہءہستی سے مٹا دیا جاتا ہے، وہ سارے گناہ و جرائم ہم میں بدرجہء اتم موجود ہیں اور ہم پھر بھی اللہ سے یہ گلہ کرتے ہیں کہ وہ ہماری دعاﺅں کو نہ سنتا ہے اور نہ شرف قبولیت بخشتا ہے۔ جھوٹ ہم اتنے تواتر سے بولتے ہیں کہ شائد کسی قوم نے نہ بولا ہو، اپنی آنکھ کے شہتیر ہمیں نظر نہیں آتے اور دوسروں کے تنکوں پر ہم آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں، جو اللہ لوگ ہیں، وہ اپنی خانقاہوں سے باہر نہیں آتے، رہبانیت اختیار کئے بیٹھے ہیں اور جو دنیا دار ہیں انہیں نہ دین کی کوئی پرواہ نہ مذہب کی اور نہ انسانیت کی۔ رشوت اور ملاوٹ کے خلاف کوئی بات ہی نہیں کرتا جیسے ان جرائم کی کوئی حیثیت ہی نہ ہو، ہمارا مذہب ہمیں سکھاتا ہے کہ رشوت لینے والا اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں، ملاوٹ کرنے والے کا امت مسلمہ سے کوئی تعلق نہیں جبکہ ہم یہ دونوں کام بڑے فخر سے انجام دیتے ہیں۔ سود، جس کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیدیا، اس سود کے بغیر ہمارا کوئی کاروبار نہیں ہوتا، زکواة کو ہم ایک ٹیکس سمجھتے ہیں اور اس کی ادائیگی کی کوئی اہمیت ہی نہیں سمجھتے، علمائے کرام جن پر اس قوم کی بہت بڑی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، انہوں نے مذہب کو بھی کاروبار کی شکل دیدی ہے، مساجد پر لاکھوں کروڑوں روپے لگا دئے جاتے ہیں لیکن لوگوں کی ایمانیات صرف فرقہ پرستی تک رہ گئی ہیں، اخلاقیات نام کی کوئی چیز نہ تو پڑھائی جاتی ہے نہ سکھائی جاتی ہے، اللہ اوراس کے رسول ﷺ کے احکامات کو جوں کا توں ماننے کے بجائے اپنے فرقہ اور اپنے بڑوں کی عینک سے دیکھے جاتے ہیں، کفر کے فتوے جاری کرنا ایک مشغلہ بن چکا ہے جس میں سبھی مشغول ہیں، خالص اللہ اور اس کے رسول کی بات کی جائے تو اکثر لوگوں کے سینے ویسے ہی سکڑ جاتے ہیں!

سیاستدانوں کو دیکھیںتو ان کے نزدیک ان کی جماعت اور اس سے بھی بڑھ کر ان کے خاندانوں کی اہمیت ہے، عام آدمی، عام کارکن کسی گنتی میں ہی نہیں، ایک دوسرے پر اس طرح کے گھناﺅنے الزامات لگائے جاتے ہیں کہ سن کر روح تک کانپ جاتی ہے جبکہ اس سے اگلے ہی روز ان کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنے اور بھائی بھائی بننے کی باتیں ہورہی ہوتی ہیں، اپنی جیبیں بھرنے کے لئے غریب عوام کو روزانہ کروڑوں کے ٹیکے لگائے جاتے ہیں، کوئی سوئس اکاﺅنٹ میں اربوں ڈالر رکھتا ہے، کسی کی سپین میں جائیدادیں ہیں، کوئی ہندوستان میں شوگر ملوں کا مالک ہے، کسی کے فرانس میں محل ہیں، کوئی لندن میں پراپرٹی کے کاروبار میں مشغول ہے اور وہاں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کررہا ہے ، ان کی جائیدادیں اس ملک میں نہیں، ان کا سرمایہ اس ملک میں نہیں، ان کی اولادیں اس ملک میں نہیں تو ان کی ہمدردیاں اس ملک کے ساتھ کیسے ہوسکتی ہیں، وہ کیسے بیرونی سرمایہ کاروں کو یہاں سرمایہ لگانے کی ترغیب دے سکتے ہیں، کیا ان کے پاس ایک بھی اخلاقی گراﺅنڈ موجود ہے جس کی بناءپر وہ پوری دنیا میں سے کسی کو بھی پاکستان میں سرمایہ کاری پر راغب کرسکیں جب تک کہ وہ پہلے اپنا سرمایہ یہاں واپس نہ لائیں اور سرمایہ بھی وہ جو یہاں سے لوٹا گیا ہو، غریب عوام کا خون چوس کر، ان پر زندگیاں حرام کرکے اور ان پر ٹیکسوں کی بھرمار کرکے؟

مختصراً یہ کہ زندگی کا کوئی بھی شعبہ ایسا نہیں جہاں پر ہم اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کو اپنی خواہشات پر مقدم رکھتے ہوں، ایسے میں ہماری دکھاوے والی یا مجبوری والی قربانی ہمیں کیا فائدہ دے سکتی ہے، ہمیں اللہ کے کتنا قریب کرسکتی ہے؟ اگر واقعتا ہم اللہ تعالیٰ کو خوش کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ہرجگہ اس کے احکامات کی پاسداری کرنا ہوگی، اپنی ذاتی خواہشات اور نفس کی قربانی دینا ہوگی، ہمیں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت پر غیر متزلزل یقین رکھ کر صرف اور صرف اس کے لئے کوشش کرنا ہوگی، ہمیں ہرمعاملے میں قربانی کے لئے تیار رہنا ہوگا۔ اگر ہم اپنی خواہشات پر قابو پانے میں کامیاب ہوجائیں، اگر ہم صرف اللہ کو رب سمجھنے لگ جائیں، اگر اللہ وحدہ لاشریک کو اپنی زندگیوں کا مالک سمجھنا شروع کرکے اپنی زندگیوں کو اس کے مطابق ڈھال لیں تو یقینا نہ تو امریکہ کی جرات ہوگی کہ وہ ہمیں آنکھیں دکھا سکے اور روزانہ ہمارے معصوم شہریوں کو ڈرون حملوں میں شہید کرسکے، نہ بھارت، اسرائیل سمیت کوئی اور ملک ہمارے خلاف کچھ کرسکے گا، ہمیں حقیقی معنوں میں قربانی دینا ہوگی جس کا حکم اللہ کی ذات نے ہمیں دیا ہے اور ایسی صورت میں ہم نہ صرف اس کا قرب حاصل کرسکیں گے، اس کی خوشنودی حاصل کرسکیں گے بلکہ دنیا بھی ہمارے قدموں میں ہوگی!
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 222431 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.