اِنصاف کا خوگر ہے تو محشر کو پرکھ مت

مادہ پرستانہ زندگی کی خوگر دُنیا آج اپنی عقل کے استعمال کے بارے میں سمجھتی ہے کہ اُس نے اِس کا Optimumاستعمال کرلیا ہے اور نتیجتاً زندگی اور کائنات کے بارے میں جو مختلف آراءو نظریات اِس نے قائم کر لیے ہیں، وہ حتمی ہیں اور اِ س سے آگے سوچ کے لیے کوئی مزید Avenuesباقی نہیں رہ گیے ہیں ۔یہی غلط فہمی ہے جو اُسے اِس زندگی کی فلاح سے آگے دیکھنے کا موقع فراہم نہیں کرتی نہ اُسے کوئی اور راستہ یا منزل دکھا پاتی ہے۔ یہ صورتحال اِ س حقیقت کے باوجود بھی ہے کہ اُس نے اپنی عقل کو استعمال کرتے ہوئے اِنسان کی دنیاوی فلاح کا جو بھی تجربہ کیا ہے وہ نامکمل ، غیر تسلی بخش یا ناکام ثابت ہوتا رہا ہے اور فلاح کی اِس کی ہر کوشش ایک ایسی کامیابی پر منتج ہونے میں ناکام رہی ہے جو اُسے حقیقی دنیاوی آسودگی کا احساس عطا کر سکے۔وہ ظلم کو مٹانا چاہتا ہے، ظلم کی کہانیاںبڑھتی جاتی ہیں اور انصاف کی سمت جانے والے سارے راستے مسدود ہو کر رہ جاتے ہیں۔سکون و چین کے حصول کی کوشش کرتا ہے، لیکن اضطراب کے طوفان آتے ہیں اور اُس کے چین کے سارے اثاثوں کو آن کی آن میں بہا لے جاتے ہیں۔ ایسے میں ہم قرآنی آیات میں غوطہ زن ہوکر حقائق کا پتہ لگاتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے انسان نے ابھی اپنی عقل کو کام میں ابھی تک لایا ہی نہیں ہے۔

قرآن الحکیم کی گیارھویں سورة سورئہ ھود کی چھپنویں آیت میں موجودربانی ہدایات کے حوالے سے آئیے ہم ہدایت کی جستجو کریں اور اپنی زندگی کو رب کے احکامات کے تابعِ فرمان بنا لیں۔ آخری رسول حضرت محمدمصطفےٰ صلی اللہ علیہ و سلم کے اسوہ حسنہ کے سانچے میں اپنی زندگی کے شب و روز کو ڈھالنے کی کوشش کاسلسلہ جاری کریں، آمین! :” (وقت کے نبی ؑ نے اپنی قوم سے کہا)بے شک میں نے اللہ پر توکل کیا جو رب ہے میرا بھی اور رب ہے تمہارا بھی۔(کائنات میں)کوئی جاندارایسا نہیں جس کو اُس نے اس کی پیشانی سے جکڑ نہ رکھا ہو۔ بے شک صراط مسقیم ہی میرے رب کا سیدھا راستہ ہے (جو توکل علی اللہ کی منزل کی سمت رہنمائی کرتا ہے )۔ “

اللہ کی مخلوق میں سب سے اشرف.... ظاہر ہے.... انسان ہی ہے اور اِس کا وجہِ شرف اولاً تو وہ دماغ ہے جو اُس کے سر میں موجود ہے جس میں موجود عقل نام کی شے اُس کی بے پناہ قابلتوں اور صلاحیتوں کے مظاہروں میں جھلکتی رہتی ہے ،جس کی مثال کسی دوسری مخلوق میں کہیں نہیں پائی جاتی۔ یہی عقل انسانیت کا اصل جو ہر بھی ہے اور وجہِ فضیلت بھی۔ اپنی عقل وذہانت کے بل پر وہ نت نئے تجربات میں دلچسپی لیتا ہے اور ایک ترقی پذیر مخلوق بن کر زندگی گذارتاہے۔ زمین پر موجود قدرتی وسائل اُس کی ذہانت کو مہمیز عطا کرتے ہیں اور وہ اِن وسائل کو مختلف انداز سے اپنے کام میں لاتا ہے۔ اِن ہی قدرتی وسائل کی خصوصیات اُس کے ذہن کو زرخیز بنانے میں مددگار ثابت ہوتی ہیںاوراِسی زرخیزی کو بروئے کار لا تے ہوئے ایک شے سے ایک بالکل ہی نئی شے کو وہ عالمِ وجودمیں لے آتا ہے۔گوکہ چند کلو گوشت اور کچھ ہڈیوں اور چند لیٹر خون کا بنا ہوا یہ اِبنِ آدم بہ ظاہر کس قدر کمزور دکھائی دیتا ہے لیکن اپنی عقل کے بل بوتے پر یہ نہایت ہی محدودجسمانی قوت کا مالک انسان ایسی ایسی غیرمحدودقوتوں کی حامل مشینوں کو معرضِ وجود میں لاتا ہے کہ جنہیں دیکھ کر خود عقل ہی حیران رہ جاتی ہے۔ اُس کی زندگی کی رفتار میں یک بہ یک حیرت انگیز اِضافہ ہو جاتا ہے۔اُس کے ایجاد کردہ تیزی سے گھومنے والے پہیے اُسے پلک جھپکتے ہی ایک مقام سے دوسرے مقام پر لے جاتے ہیں، پرندوں کی طرح وہ فضاﺅں میں اُڑنے لگتا ہے، آبی مخلوق کی طرح ٹھانٹیں مارتے ہوئے سمندرکے سینے کو چیرتے ہوئے یہ بعافیت گزر جاتا ہے۔یعنی تیز رفتار سواریاں اُس کے دو پیروں کے کچھ ایسے معاون و مددگاربن جاتے ہیں کہ پھر اِن دو پیروں کے لیے سوائے آرام کے کچھ اور کام باقی نہیں رہ جاتا ، کیوں کہ اُس کی نقل و حرکت کا سارا کام اُس کی ایجاد کردہ سواریاں انجام دینے لگتی ہیں۔پھر اِس کی تیز رفتاریوں کا یہ سفر یہیں رُک نہیں جاتا۔یہ برقی لہروں پر سوار ہوکر اپنے پیغامات کو آن کی آن میں جہاں چاہے پہنچانے لگتا ہے،جیسے اِس کے ذہن کو پر لگ گئے ہوں۔اِس کا حیرت انگیزمواصلاتی نظام اِس کی دُنیا کو ایک دیہات کی شکل دے دیتا ہے اورپھر کرہ ارض پر فاصلہ نام کی کوئی شے باقی نہیں رہتی، کیونکہ اِس کے فاصلے برقی سگنلس کے ذریعہ پل بھر میں سمٹ جاتے ہیں۔یہ سب اِنسانی دماغ کے کرشمے ہیں،جہاں اُس کی عقل کی حکمرانی ہوتی ہے۔

ثانیاً، خالقِ انسان نے اُسے ایک اوربیش قیمت نعمت بھی بخشی ہے،یعنی استدلال اور منطق Logic & Reasonکی قوت۔ اس کے شعور کی بیداری کا راز اِسی قوت میں پنہاں ہوتا ہے۔ احساسات کا سارا سسٹم اِسی قوت کے بل پر جاری رہتا ہے۔ بھلے اور برے کی تمیز، خطرات و عافیت کا احساس، خاندان کی ادارہ سازی، معاشرے کی تشکیل،شہروں، علاقوں،ملکوں کی اساس پر اپنی نسلوں کی مثبت خطوط پرتربیت و بقا کی سبیلیں، اپنی دینی، علمی، اخلاقی و مادی وراثت کی آنے والی نسلوں تک بہ حفاظت منتقلی وغیرہ اِسی قوت کی مرہونِ منت ہوتے ہیں۔دیگر مخلوقات کے مقابلے میں یہی اِس کے شرف،امتیاز اور فوقیت کا سبب ثابت ہوتے ہیں۔اِن ہی سب خصوصیات نے اسے دیگر مخلوقات سے کہیں زیادہ ممتازبھی بنایا ہے اور فائق تربھی۔اپنی اور اپنے جیسے انسانوں کی دماغی ،جسمانی و نفسانی صحت کے لئے بھی ہر دور میں اس نے ایسی سائنسی ایجادات کیں، جن کے ذریعے جسم کی راحت میں اضافہ،صحت میں بہتری اور علم میں بڑھوتری ہوتی رہے جس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔چنانچہ خالق و مالکِ کائنات نے الکتاب کی ستراویں سورة بنی اسرائیل کی سترویں آیت میں ارشاد فرمایا:”درحقیقت ہم نے بنی آدم کی بڑی تکریم کی( Dignify اور Upgrade کیا)اور ہم نے برّ و بحر میں(اِس کی نقل و حمل میں معاون و مددگارسواریوں پر)سوار کروا دیا اورطیبات پر مشتمل رزق بخشا اور جن مخلوقات کو ہم نے فضیلت کے ساتھ خلق کیا ، اُن میں سے بھی اکثر یت پر (بنی آدم ہی کو)فضیلت دی۔“

آئیے ، ”دماغ “ کے حوالے سے مزید کچھ حقائق پر غور کیا جائے:انسانی تاریخ گواہ ہے کہ اِس کی حیرت انگیزا ور کبھی نہ رُکنے والی ترقی میں اس کے دماغ اور اسکی فکر ونظر(عقل) کااِنتہائی اہم رول رہاہے۔کلام اللہ میں انسانوں کو باربار یہ دعوت دی گئی ہے کہ وہ اپنی عقل کااستعمال کرتے رہیں۔سچ پوچھا جائے تو عقل کے استعمال میں انسان کے دماغ اور اسکی کارگزاریوں کا بڑا حصہ رہا ہے۔میڈیکل سائنس کے ماہرین اِنسانی دماغ کی متنوع کارگزاریوں کی مزید دریافت میں مسلسل لگے ہوئے ہیں۔Neurologyکے ماہرین اپنی تمام تربے مثال کامیابیوں کے با وصف اِس اعتراف پر مجبور ہیں کہ اِنسانی دماغ اور اِس کے جملہ کاموں کی جتنی اور جیسی کچھ تفصیل اُن کے ہاتھ آئی ہے، وہ بہ مشکل ۲ فیصد سے زیادہ نہیں ،یعنی اِس علم کی 98 فیصد تفصیلات راز ہائے سربستہ ہیں اور دبیز پردوں تلے دبے پڑے ہیں۔ساڑھے چودہ سو سال پہلے نازل ہونے والی کتابِ ہدایت کی اکتالیسویں سورة حم السجدہ کی آیت ترپن میں کتنی بلیغ باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں:”(اِنسانوں کو)آفاق و انفس Space and Innerselfمیں ہم عنقریب ہماری نشانیاں Signs and Symbolsدکھا ئیں گے ،یہاں تک کہ وہ (نہایت واضح الفاظ میں یہ حقیقت) وا شگاف کر دے گا کہ وہی الحق ہے(سچائی کی وہی لازوال معراج ہے ،اُسی کی تخلیق شدہ ہر شے برحق ہے، اُسی کے کمالات بے مثال سچائی پر مبنی ہیں)۔کیا یہ کافی نہیں کہ( خود) تیرا رب ہی ہر شے(کی تخلیقی وقوع پذیری اور کمال و ماہیت ) کا(برموقع وبر محل) گواہ ہے۔“

مٹی سے انسانی تخلیق کی اِبتدا، والدہ کے شکم میں اِس کے ارتقاءکے مختلف منہاج و مدارج، ایک مقررہ مدت کے بعد نحیف و ناتواں بچے کی شکل میں حضرت انساں کادنیا میں ورود،پھر اِس کے کاسہ سر میں موجود دماغ کا حیرت انگیز استعمال،نتیجتاً حیرت انگیز کارناموں کی ایک نہ ختم ہونے والی قطار،پھر بڑھاپے کے مراحل میں اِس کا داخلہ اور موت کے دروازے سے ہوتے ہوئے اُس کا اِس دُنیا کو خیر باد کہنا، کیا یہ سب حقائق ایسے ہیں کہ جن کے انکار کی کسی میں جرات ہو؟زندگی کی اِس ساری رنگا رنگی میں دماغ کے Optimumاستعمال کے ذریعہ دنیاوی نعمتو ں کی دریافت، تزئین اور ان سے متمتع ہونا، کیا اِس با ت کا واضح ثبوت نہیں کہ انسانی دماغ ایک ایسی اعلیٰ مگر پیچیدہ ترین مشین ہے جسے خود انسان کے پیدا کرنے والے نے ڈیزائین کیا ہے۔!!نہایت بے ساختگی کے ساتھ ایک باشعور انسانی ضمیر کے پکار اُٹھنے کے لیے کہ ”میرا خالقِ واحد بے مثال ہے۔ لاشریک ہے“ ، کیا یہ حقائق کافی نہیں؟ سچی بات تو یہ ہے کہ ایک حساس دل نہ صرف اپنے معبود برحق کی معرفت سے سرشار ہوجائے گا اور رب جلیل کی رحمتوں کے حصول کی خواہش اُس کے دل کو اپنی آماجگاہ بنالے گی بلکہ وہ ساتھ ہی اپنے رب کی کسی پہلو سے ناراضی پر کبھی راضی نہیں ہوگا۔

سائنس کا سفر جاری ہے، خلاءاور خود انسانی اندروں کے رازوں کو آشکارا کرنے کا سلسلہ جاری ہے، ہر دریافت یہ کہنے پر مجبور کرتی ہے کہ اِس قدر کامل نظام سوائے خدائے بزرگ و برتر کے کسی کا ہو ہی نہیں سکتا ۔ انسانی دماغ کو دیکھیے، شایداِس پیچیدہ مشین کی ہمہ جہت کارکردگیوں کے پیش نظر اِس کے تحفظ کا خصوصی انتظام ضروری تھا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ خالقِ دماغ نے اِسے ایک مضبوط Cover فراہم کر دیا ہے، جسے ہم کاسہ سر Skullکہتے ہیں۔سر کا یہ کاسہ کس قدر خوبصورت گولائی لیے ہوئے ہے اور کس قدر مضبوط ہے۔ اِس کی مضبوط ہڈی انسان کے لاش بن جانے کے بعد بھی برسوں حیرت انگیز طور پر محفوظ رہتی ہے۔ گیند نما کاسہ سرمیں انسان کا نازک دماغ تمام بیرونی خطرات سے محفوظ ر ہتاہے۔اِس کو ذہن میں رکھتے ہوئے ، ابتداءمیں حوالہ دی گئیں آیات کو ذرا ایک باراورملاحظہ فرمالیں، جن میں انسانی چہرے کی” پیشانی“( یا جبین )کا بطور ِ خاص ذکر موجود ہے۔یہی پیشانی ہے جس کے پیچھےPre Frontal Corlex ہو تا ہے جو میڈیکل سائنس کی ایک اصطلاح ہے۔PCF دماغ کے بالکل سامنے کا حصہ ہوتاہے جیسے یہ دماغ کا قائد ہو۔ اِ س کی یہ قائدانہ پوزیشن حقیقت میں فیصلہ کن پوزیشن ہوتی ہے اور جسم کے دیگر اعضاءکے لیے یہیں سے حتمی فیصلوں کا اجراءہوتا ہے۔تجربات سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ پیشانی کے فوری پیچھے دماغ کے ابتدائی حصے ہی سے ، صحیح اور غلط ، اچھے اور برے کے سارے فیصلے صادر ہوتے ہیں۔دور اندیشی، معاشرتی رویہ، سماجی رکھ رکھاﺅکے سارے اُمور یہیں سے طے ہوتے ہیں۔کسی پسند کے فیصلے، جذباتی ہو کہ نفسیاتی، عام ذہانت والے ہوں کہ جنسی، الغرض سارے اُمورپر کنٹرول کا معاملہ، دماغ کے اِسی حصے سے ہوتا ہے۔ شخصیت کا عکس ہو کہ انسانی کردار کا کوئی اورDimension، اِسی PCFکے ذریعہ حتمی شکل اختیار کر لیتا ہے۔پی سی ایف کو جسم کے ہر حصے سے اطلاعات فراہم ہوتی رہتی ہیں اور اِسی میں زیر استعمال یاداشت مستقلاً کام کرتی رہتی ہے۔انسان اپنے اہداف اور منزلیں یہیں سے طے کر لیتا ہے۔انسانی ضمیر کی روح اور انتر آتما کی دماغی بنیادیں یا Neurological Basis بھی پیشانی کے پیچھے اِسی دماغ میں موجود ہوتی ہیں۔ انتہائی حیرت کی بات ہے کہ، مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے افراد، نشہ باز لوگ اور شر پسند عناصر کے دماغ کے ابتدائی حصے اور بقیہ حصوں میں بہت کمزور Interconnection پائے جانے کی تحقیق بھی سامنے آئی ہے۔تحقیق نے یہ حیرت ناک حقیقت بھی دنیاکے سامنے پیش کی ہے کہ جن افراد کے دماغ کے دیگر حصے PCFسے مضبوط طور پر مربوط نہیں ہوتے ،وہ اِن کی مجرمانہ ذہنیت ، نشہ بازی اور شرپسندی جیسے مکروہات کا سبب بنتے ہیں۔

تحقیق یہ بھی کہتی ہے کہ PCFاپنے دیگر حصوں سے غیر مربوط رہ کر انسان سے شرپسندی ہی کے کام جیسے جھوٹ بولنا، بات کو مکاری کاروپ دینا، حقائق کو توڑنا مروڑنا ،سیاسی داﺅ پیچ، بہتان تراشی ، غرض کہ ایسے سارے منفی کاموں کی بھر پور ذمہ دار بن جاتی ہے۔یہ خالقِ کائنات کے کمالات نہیں تو اور کیا ہے کہ اُس نے سائنسی سوچ کو ایک رُخ عطا کرنے کے اِشارے صدیوں قبل انسان کو عطا کر دیے تھے۔سائنس کو خبر بھی نہیں کہ آج سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے کتاب اللہ نے جب یہ خبر دی تھی کہ انسانوں کے کرتوتوں کا حساب اِس کی پیشانی کو پکڑ کرلیا جائے گا، تو اِس کے مفہوم کے Dimensionsکیا تھے ؟ دراصل پیشانی ہی وہ مقام ہے جس سے متصل PCFمیں انسانی اعمال اور احساسات ، نیتوں اور ارادوں کے سارے راز اور منصوبوں اور سازشوں کے تمام نقشہ جات کے ڈاٹا جمع ر ہتے ہیں۔کس کی مجال کہ کوئی اپنے رب سے کچھ چھپا سکے۔جھوٹ بولتے بنے گی نہ بات بناتے۔ کوئی ڈپلومیسی کی بات خود کو قابلِ قبول بنانے کی صلاحیت کھو چکی ہوگی۔کلام اللہ کی چھیانویں سورة العلق کی پندرویں اور سولھویں آیت ہم سے کہتی ہے:” ہر گز نہیں(کہ چھوڑ دیا جائے گا کاذب اور خاطی کو) ۔اگر وہ( کذب و خطا سے) باز نہ آئے تو ہم ضرور اُس کی پیشانی (کو پکڑ کر)اُسے گھسیٹیں گے ۔(ہاں یہی)کاذب و خطا کار پیشانی۔“

بر سبیل تذکرہ یہ بھی عرض کرتے چلیں کہ PCFکے علاوہ دماغ کے دو اور حصے ہوتے ہیں۔ایک Right Hemisphereاور دوسراLeft Hemisphere۔

دایاں حصہ تصورات وتصویری مواد، جذبات و احساسات جیسے اُمور کی نگرانی کرتا ہے جبکہ بایاں حصہ الفاظ ، نطق و بیان، منطق و معقولیت جیسے اُمور سے منسلک رہتا ہے۔چونکہ دماغ کے یہ سارے حصے باہمی طور پر ایک دوسرے سے مربوط ہو تے ہیں ، چنانچہ مختلف مقامات سے آنے والے غیر مربوط فیصلے PCFکے ذریعہ حتمی شکل اختیار کرکے دماغ کے مختلف حصوں کا ایک مشترکہ فیصلہ بن جاتے ہیں اوربرقی لہروں کی شکل میںانسانی سراپا سے ظاہر ہونے لگتے ہیں۔انہیں Voltage کے پیمانے سے بھی ناپاجاسکتا ہے۔انسان کی پیدائش سے لے کر اس کی موت تک اس کا دماغ ہر لمحہ مصروف کاررہتاہے۔ حالت نیند ہو کہ حالت بیہوشی دماغ بہرحال کا م کرتا رہتاہے، لیکن یہ بات ضرور ہے کہ اس کی رفتار میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کمی واقع ہونے لگتی ہے۔انسانی مخلوق کی فطرت کا یہ خاصہ ہے کہ وہ ہمہ وقت انسان کو کچھ نہ کچھ سےکھنے کے عمل میں مصروف رکھتی ہے۔یہ شرف صرف اور صرف انسان کو حاصل ہے کہ زندگی کا ایک ایک لمحہ وہ سیکھنے میں گزارتاہے۔کمپیوٹر کی زبان میں اگر کہا جائے تو انسانی ذہن وہ میموری کارڈ ہے جو واقعات ، حالات، تجربات اور واردات سے جڑے انفارمیشن کے ڈاٹا کو اپنے اندر اسٹور کرکے کسی فائل یا فولڈر میں جمع کرتا رہتا ہے اور جب ضرورت درپیش ہوتی ہے تو کسی بھی معلومات کو اِس ذخیرے سے طلب کر سکتا ہے۔ایک انتہائی اہم نکتہ نوٹ کیا جائے کہ سیکھنے کا عمل ایک مسلسل عمل ہے اور عمل کے اِس تسلسل میں انسان کوئی نیا کام سیکھتے ہوئے جس ردّعمل کا مظاہرہ کرتا ہے وہ اپنے پچھلے ردّعمل سے بہترثابت ہوتا چلا جاتا ہے،سیکھتے سیکھتے آج وہ جو ریسپانس دیتا ہے وہی ریسپانس کل زیادہ ترقی یافتہ بن جاتا ہے۔ یعنی مستقبل کے رد عمل ماضی کے ردّعمل سے بہتر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ یہی انسانی ترقیات کا اصل راز ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ پیدائش سے پہلے ہی وہ سیکھنے کے عمل میں مصروف ہو جاتاہے۔مثلاًاس کا ذہن والدہ کے دماغ سے براہ راست متعلق ہوتا ہے، والدہ کے خیالات و جذبات کو اخذ کرکے وہ خود اپنی فائلیں بنانے لگتا ہے اور معلومات کی اپنی فائلیں بغل میں دبائے وہ دنیا میں قدم رکھتا ہے۔ بہ ظاہر روتا ہوا آتا ہے ، چیختا چلاتا نظر آتا ہے لیکن حقیقتاً ترسیل کے یہ اُس کے اپنے طریقے ہوتے ہیں جو اُس کی والدہ تک پہنچ جاتے ہیں۔ پھر پیدائش کے بعد بھی سیکھنے کا عمل جاری رکھتا ہے، مسلسل معلومات کا ذخیرہ جمع کرنے میں مصروف ہوجاتا ہے ۔ظاہر ہے ماں کی کوکھ کی محدود دنیا سے نکل کر ایک کائنات میں قدم رکھنا اُس کے دماغ کی صلاحیتوں میں یک بہ یک اِضافے کا باعث بنتا ہے۔وہ عمل جو شکم مادر میں شروع ہوا تھا وہ اُس کی آخری سانس تک جاری رہتا ہے۔بچپن میں وہ کھیلتا ہے تو اُسے رویوں ، ٹیم ورک، سماجی تعاون، تنازعات کے حل جیسے اُمور کے کئی اسباق سیکھنے کو ملتے ہیں۔اپنی خاندانی زندگی، رشتوں کی پہچان، اِن کی قدرو قیمت اورتعلقات کی عظمت جیسی خصوصیات سے واقفیت کا ایک پروسس ہوتا ہے جس سے وہ گزرتا رہتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نہ جانے جذبات و احساسات ، تجربات اور اکتسابات کے کیسے کیسے اور کتنے کچھ نقوش ہوتے ہوں گے جو اُس کے دماغ پر مرتسم ہوتے ہیں۔یہی ذخیرہ معلومات ہے جو اُسے خود اعتمادی کے ساتھ زندگی کی اگلی منزلوں کی ذمہ داریاں لینے کا حوصلہ عطا کرتا ہے۔سماجی ذمہ داریاں، لین دین سے جُڑے اُمور، کسی کمی کے سلسلے میںفکرمندی اور توجہ،دوسروں کی مدد اور ضرورت کے وقت کام آنا، تنازعات کے حل کا ملکہ، اسکول، گھر ، ماحول ، غرض کہ زندگی کی کسی بھی منزل پر کارآمد فیصلے کرنے لگتا ہے۔نوعمری کے کمزور فیصلے، ادھیڑ عمری میں مضبوط اور پختہ تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔عمر کے آخری مراحل میں گو کہ جسمانی اعضاءجواب دینے لگتے ہیں لیکن سیکھنے کا عمل کبھی رکتا نہیں۔

کتنا بڑا احسان ہے رب تعالیٰ کاکہ اُس نے انسان کو اِس کے متذکرہ ذخیرہ¿ معلومات کی اچھائی یا برائی کی تمیز جیسی نعمتِ عظیم عطا کی۔وہ مفید چیزیں اسٹور کر سکتا ہے اور ضرر رساں چیزوں کو ہٹا سکتا ہے۔چھیاہترویں سورة کی تیسری آیت میں ہے:”بے شک ہم نے ہدایت دی اُسے(ایک ایسی) سبیل کی(جو اُسے اپنی زندگی میںشکر اور کفر کے دو مختلف رویوں کی پہچان کرا دیتی ہے) چاہے تو( فرما برداری کے حوالے سے) شاکر بن کر رہے یا (نافرمان بندہ بن کر) ناشکری کی راہ اختیار کر لے۔“

بھلے برے کی اِس تمیز کے شعور کے ساتھ بھلائی اُس کی زندگی کا مقصد بن جائے اوراُس کے ذخیرہ معلومات سے اُس کا انفارمیشن تمیز و تفریق کی چھلنی سے چھن کر قلم سے ربط جوڑ لے توجو شے وجود میں آئے گی وہ” علم“ یا” تعلیم “کہلائے گی، ایسا علم اور ایسی تعلیم یا Educationجو اعلیٰ قدروں کی حامل ہوگی اور انسان کو ایک تربیت یافتہ، مہذب ، بااخلاق و باکردار پیکر میں ڈھال کر دم لے گی۔علم کی نعمت سے انسان کو نوازنے والے خالقِ علم نے الکتاب کی پہلی وحی کو علم و تعلیم کے لیے وقف کرتے ہوئے انسانوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ حقیقی علم وہ ہے جوانسانوں کو اپنے ر ب کی معرفت بخشے اور یہ اُسی وقت ممکن ہے جب علم تابعِ فرمانِ اِلٰہی بن جائے اور اِس کی علامت یہ ہے کہ یہ علم دنیا کے لیے نفع بخش ثابت ہو اور ساری انسانیت اِس کی فیض رسانیوں سے یکساں طور پر متمتع ہو سکے۔اگر علم انسان کو نفع پہنچانے میں ناکام ہے اور انسانیت کی فلاح سے محروم ہوگیا ہے بلکہ انسانوں کی زندگیوں کے لیے خطرہ بن گیا ہے، تو سمجھ لیجیے کہ یہ علم تابعِ فرمانِ اِلٰہی نہیں ہے بلکہ تابعِ شیطان الرجیم ہے جس میں اپنے رب کو پہچاننے کی صلاحیت نہیں ہے۔یہ صورتحال اُسی وقت پیدا ہوتی ہے جب علم اخلاقی اقدار سے تہی دامن ہو جاتا ہے اور تعلیم کے مقصد ہی کو مار دیتاہے۔کتاب اللہ کی چھیانویں سورة کی پہلی تا چھٹویں آیتوں میں فرمایا:”آپ پڑھیے!(اورپڑھنا جاری رکھیے ) اپنے رب کے نام سے جس نے(ہر شے کی ) تخلیق کی(ابتداءکی)۔انسان کی تخلیق( اُس نے) علق Germ Cellسے کی، آپ بس پڑھتے جائیں( اور پڑھنا جاری رکھیں)اورآپ کا رب ( وہی پروقار ربِّ) اکرم ہے،جس نے (انسانوں کو) قلم کے ذریعہ علم کی دولت سے سرفراز کیا۔ایسے علم سے انسان کو نوازاجس کی اُسے خبر تک نہیں تھی۔“علم اور تعلیم کو قلم سے جوڑنے کا ایک اور قرینہ ہمیں اڑسٹھویں سورة”القلم“ کی پہلی آیت میں بھی ملتا ہے جہاں قلم کے ذریعہ اِنسانی علوم کی ترقی کی ترغیب ملتی ہے۔ اِس کو سمجھنے کے لیے اِس آیت کے بلیغ مفہوم کو اِس کی ترجمانی میں پھیلانے کی کوشش کی گئی ہے:”(حرفِ)”ن“(پر اور اِس کی خوبصورت گولائی پر غور کیا جائے) اور قسم ہے القلم کی(یا عصرِ حاضر کے Key Boardکی) اور(مختلف علوم سے متعلق اُ ن تحریروں کی) جو وہ (قلم تھامے ہوئے یا کی بورڈ کو اپنی انگلیوں کی مدد سے) سطر در سطر (وجود میں لا رہے ہیں اورصفحہ قرطاس پر خوبصورت اور حکیمانہ ترتیب کے ساتھ منتقل کرتے چلے جارہے ہیں، تاکہ مستقبل کی نسلوں کے لیے خیالات و تجربات اورتحقیقی و علمی سرمایہ پوری حفاظت کے ساتھ منتقل ہو سکے۔)“

افسوس کہ انسان خدا پرستانہ علم کو بھلا کر اپنے اِن ہی سائنسی اور غیر سائنسی علوم کا انسانیت کی تعمیر کے بجائے تخریب کے لئے بیجا استعمال کر رہا ہے۔پھر اپنی اس تخریب کو تعمیر کے لبادے میں لپیٹنے میںمصروف ہے۔ غلط بیانی و غلط کاری میں اُسکی عقل اُس کا ساتھ د یتی ہے، و ہ اپنی قوتِ بیان و اِظہار کے ذریعے ، جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کرنے میں بہ ظاہر کامیاب ہے۔لیکن انسان کے ذہن میں یہ حقیقت مستحضر رہنی چاہیے کہ وہ انسانوں کو دھوکہ دے سکتا ہے، قانون کو دھوکہ دے سکتا ہے،یہاں تک کہ خود اپنے ضمیر کو بھی دھوکا دے سکتا ہے مگر اپنے رب کو وہ ہر گز دھوکہ نہیں دے سکتا۔ جیسا کہ عرض کیا گیا،اس کا رب اس کی پیشانی کے اسی حصے سے اس کی اُن چالاکیوں اور مکاریوں کا ڈاٹا بر آمد کر لے گا اور مواخذہ کرے گا۔ سفید کو سیاہ اور سیاہ کو سفید بنانے کی اُس کی تدبیروں کا سارا ریکارڈ یہاں موجود ہوگا۔چھیا سیویں سورة کی نویں اور دسویں آیات میں رب تعالےٰ نے واضح الفاظ میںیاد دہانی کرائی ہے کہ:”اُس دن جب اُس کے اسرار پر سے پردے اُٹھ جائیں گے(اور اُس کے سارے راز، تمام بھید ظاہر کیے جائیں گے)،تو اس کے پاس کوئی قوتِ (مدافعت) نہیں ہوگی اور نہ کوئی اُس کی نصرت ہی کو موجود ہوگا۔“کیونکہ اس کی پیشانی اور اِس سے متصل دماغ کا یہ حصہ کام کرنا بند کردے گا۔ ظاہر ہے اس کے وہ اعضائے رئیسہ جنہیں اس کے رب نے ایک بہترین اور مضبوط خول Coveringعطا کر رکھا تھا، اُس کے مواخذہ کے لیے اُسی خول سے یہ سب اعضاءباہر نکل آئیں گے تو کہاں سے وہ اپنی مدافعت کی قوت مجتمع کرسکے گا اور کیوں کر کوئی اُس کا مددگار بننے کی جرات کر سکے گا۔ سویں سورة کی دسویں آیت میں بھی ارشاد فرمایا:”اور(قیامت کے دن) جو کچھ(راز ہائے پوشیدہ وہ اپنے) صدور میں(چھپائے رکھتا ) تھا اُسے حاصل( کرکے اُن رازوں کو Expose) کیا جائے گا ۔“اِن بے پناہ وارننگوں کو ملاحظہ کرنے کے بعد ہمارے جسم پر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور مضبوط پسلیوں کے درمیان جو دل ہے اور کاسہ سر کی مضبوط ہڈی میں بند بہ ظاہر محفوظ دماغ اِن حقائق سے دہل نہیں جائے توپھر اور کیا ہو؟ہماری لیاقتیں، ہماری قابلیتیں، ہماری صلاحیتیں، ہماری دانشوریاں، ہماری ڈپلومیسیاںجو خدا کی خوشنودی کے لیے استعمال میں لانے کے لیے دنیا میں عطا کی گئی تھیں وہ وہاں کسی کے کچھ کام نہیں آئیں گے۔ حدیث شریف میں موجود اِس جامع دُعا میں آپ سب شریک ہو جائیں:اَللّٰہُمَ اَرِنَا الحَقَّ حَقًّا وَّارزُقنَا اِتِّبَاعَہ وَاَرِنَا البَاطِلَ بَاطِلاً وَّارزُقنَا اِجتِنَابَہ اَللّٰہُمَّ اَرِنَا الاَشیَآئَ کَمَا ھِیَ ۔” اے اللہ! حق ہمیں حق ہی دکھائیے اور ہمیں اس کے اتباع کی توفیق عنایت کیجئے اورباطل ہمیں باطل ہی دکھائی دے اور ہمیں اس سے اجتناب کی توفیق عطا کیجئے۔ اے اللہ!ہمیں اشیائ( اور معاملات )ویسے ہی دکھائی دےں جیسے کہ وہ فی الواقع ہیں۔ “

کوئی ہے بندہ خدا جو اپنے دماغ کی بار بار صفائی کا ارادہ رکھتا ہو،جسے اپنے اہداف کو صحیح رُخ دینے کی فکر ہو،جسے طہارتِ فکر و نظر کا خیال ہو،جسے اپنے کردار سے منافقت کو دور کرنے کا خیال ستاتا ہو،جس کو گفتار کے فساد سے بچنے کی آرزو ہو،جسے سچ کی قدر اور اِس پر عمل پیرا ہونے کی آس ستاتی ہو، جسے اپنے دامن کو اپنے اشکِ ندامت سے دھونے کی تمنا بے قرار کرتی ہو؟ہمارا رب ہم سب لاپروا ہ لوگوں کی مدد فرمائے جن پر اپنی مختصر سی بے ثبات زندگی کی حقیقت نہ جانے کیوں آشکارا نہیں ہوتی،کہ جنہیں آخرت کے ہو لناک مواخذے سے بچنے کا کبھی خیال چھو کر بھی نہیں گزرتا۔؟
Azeez Belgaumi
About the Author: Azeez Belgaumi Read More Articles by Azeez Belgaumi: 77 Articles with 83323 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.