الیکٹرونک ویسٹ، ماحول کی تباہی

انسان پہلے جنگلوں اور غاروں میں رہتا تھا پھر اس نے ترقی کرتے ہوئے جنگلات کو کاٹا اور وہاں مٹی کے گھر بنا دیئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے انسان پہلے غاروں سے مٹی اور پتھر سے بنے گھروں اور پھر محلوں میں رہنے لگا۔ پھر مزید ترقی ہوئی جہاں انسان مٹی کے برتن استعمال کرتا تھا وہاں سونے اور چاندی کے برتن استعمال ہونے لگے، پانی کے ذخیرے کے لئے ڈیمز تعمیر ہوئے اور روشنی کے لئے توانائی (بجلی، تیل، گیس، کوئلہ) سے بجلی تیار کی۔ پھرانسان نے اس بجلی کو استعمال میں لانے کے لئے ٹی وی، وی سی آر، فریج، ریڈیو، گیزر، ہیٹر، استری اور کمپیوٹر اور دیگر تیار کئے جن کا استعمال آج کل روز مرہ زندگی میں عام ہے۔ انسان نے یہ سب چیزیں تو بنا ڈالیں لیکن اس کی نظر اس جانب راغب نہیں ہوئی کہ ان آلات کی ایجادات کے ماحول پرکیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ آج ان آلات کا استعمال تو ہو رہا ہے مگر ان آلات کو استعمال کے بعد ضائع کرنا مشکل ہو گیا ہے کیونکہ ان کو ضائع کرنے سے جو گیسز خارج ہوتی ہیں وہ ماحول پر سخت منفی اثرات مرتب کرتی ہیں۔

مغربی ممالک کے لوگ اور سائنسدان اس بات کو جلد سمجھ گئے چنانچہ انھوں نے برقی آلات کی ضائع شدہ اشیاءکو جنوبی ایشیاءکے ممالک جیسے پاکستان، بھارت، سری لنکا، بنگلہ دیش اور چین کو فروخت کرنا شروع کر دیا، اس طرح مغربی ممالک ماحول کی بربادی سے بھی بچ جاتے ہیں اور ان کو اس برقی کوڑے کے بدلے کچھ پیسے بھی مل جاتے ہیں۔

پاکستان ہر سال لاکھوں من برقی کوڑا جس میں کمپیوٹر ، مانیٹر ، کی بورڈ ،موبائل فون ،ٹی وی ، ریفریجریٹرز اور دیگر اشیاءشامل ہیں مغربی ممالک سے درآمد کرتا ہے۔ اس کوڑے سے نکلنے والی سونا اور چاندی جیسی قیمتی دھاتوں کے لالچ میں مقامی تاجر نقصانات سے بے خبر اس کی درآمد میں ہر سال اضافہ کرتے چلے جا رہے ہیں جس سے ماحول کی بربادی و تباہی ہو رہی ہے۔ امریکہ میں 2001ء میں تقریباً چار کروڑ کمپیوٹر متروک ہوئے جو دس گنا کم قیمت پر پاکستان ، بھارت اور چین کو فروخت کیے گئے اور ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ میں اب ہر سال کروڑ سے زائد کمپیوٹر متروک ہو جاتے ہیں جن میں سے دو تہائی ایشیاءمیں برآمد کر دیئے جاتے ہیں۔ سرکاری ادارے اس الیکٹرونک کوڑے سے ہونے والی تباہیوں کے تدارک کیلئے کوئی مناسب اقدامات نہیں کر رہے۔

اگرچہ پاکستان میں بھی ایسے قوانین موجود ہیں کے جس کے تحت کوئی ایسا اسکریپ ملک میں داخل نہیں ہو سکتا جو انتہائی خطرناک اور عوام کی صحت کیلئے مضر ہو مگر بعض اداروں کے کچھ اہلکاروں کی وجہ سے اس کی درآمد باآسانی ہو رہی ہے۔ لاہور کے علاوہ دیگر تمام شہروں میں یہ کوڑا جگہ جگہ نظر آتا ہے جس کو بعض پلاسٹک کا کام کر نے والے افراد خرید کر اسے پگھلاتے ہیں تاکہ اس سے متعدد دھاتین جیسے ینیم ، بیریلیم ، ویناڈینیم ،یوٹیریم اور سیلینیم تیار کرتے ہیں۔ یہ لوگ اسے اپنی فیکٹریوں جو زیادہ تر بند روڈ ،شفیق آباد ،ملتان روڈ ، فیروز پور روڈ ،شاہدہ اور فیروز والہ میں واقع ہیں لے جاتے ہیں جبکہ بعض افراد نے ایسی لیبارٹریاں فیصل ٹاﺅن اور دیگر شہری علاقوں میں بھی بنائی ہوئی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق صرف لاہور کے گردونواح میں ہر ماہ 25 سے 30 ٹن پلاسٹک نکالا جاتا ہے اور بتدریج اس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے جس سے آلودگی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر یہ صورت حال ایسی ہی رہی تو آئندہ دس سالوں کے بعد تمام خطہ آلودہ ہو جائے گا اور قوم کاہر فرد کسی نہ کسی بیماری میں مبتلا ہو جائے گا۔ ایک رپورٹ کے مطابق 27 کلو کمپیوٹر کے کوڑے میں سے پلاسٹک چھ اعشاریہ دو چھ کلو، لیڈایک اعشاریہ سات دوکلو،سیلیکاچھ اعشاریہ آٹھ کلو، ایلمونیم تین اعشاریہ آٹھ چھ کلو، لوہا پانچ اعشاریہ آٹھ پانچ کلو، تانبہ ایک اعشاریہ نو ایک کلو، نکل صفر اعشاریہ دو تین کلو، زنک صفر اعشاریہ چھ کلو، ٹن صفر اعشاریہ دو سات کلوگرام نکلتی ہے جبکہ سونا، چاندی، آرسینک، مرکری، انڈیم، یٹریم، ٹیٹا نیم، کوبالٹ، کرومیم، کیڈ میم، سیلینیم، بیریلیم،ٹیٹا لم، وینا ڈیم اور ایروپیم کی بھی خاصی مقدار نکلتی ہے۔ کمپیوٹر کو پگھلانے کے نتیجے میں نکلنے والی میتھین گیسز ماحول کے لئے سخت نقصان دہ ہیں۔

ڈاکٹرز اور ماہرین کا کہنا ہے کہ جب اس کوڑے کو تیزاب اور پوٹاشیم سائینائیڈ سے پگھلایا جاتا ہے تو انتہائی مہلک گیسز خارج ہوتی ہیں، جو کہ گلے، سانس، پھیپھڑے، سینے اور کینسر جیسی مہلک اور ناقابل علاج بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پلاسٹک کی فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدور اور ملازمین اکثریت بیماریوں میں مبتلا رہتے ہیں۔

گوجرانوالہ کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ اسکریپ کا ان کے شہرمیں سب سے زیادہ کام ہوتا ہے جبکہ شیخوپورہ روڈ پر بڑی بڑی فیکٹریاں دن رات زہریلا دھواں اگلتی رہتی ہیں اور متعدد بار شکایات کرنے کے باوجود ان کی روک تھام کے لئے کوئی اقدامات نہیں کئے گئے۔ ری سائیکلنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ان زہریلی گیسز سے انسانوں کے علاوہ حیوانات، پرندے اور دریائی مخلوق بھی متاثر ہورہے ہیں۔ زہریلی گیسز کے اخراج کو کم کرنے کے لئے کمپیوٹر کے کوڑے اور دیگر کی درآمد کو روکنے اور سخت قانون بنانے کی ضرورت ہے۔

ہمارے ملک کے کسٹم ملازمین اپنی ذمہ داریوں کو خوب سمجھتے ہیں اور وہ ملک میں غیر قانونی اشیاءکی درآمد کو روکنے کے لئے بھرپور کوشش کر رہے ہیں مگر کسٹم کے نظام کو مزید سخت کرنے کی ضرورت ہے تاکہ لالچی کاروباری طبقہ ایسے برقی آلات کو درآمد نہ کرسکے جو ماحول کی خرابی کا باعث بن رہے ہیں۔ وزارت ماحولیات کو چاہیئے کہ وہ ملک میں پلاسٹک پگھلانے والی ان فیکٹریوں کے خلاف کارروائی کر کے ان کے لائسنس ختم کر دے تاکہ ملک میں ذیریلی گیسز کی اخراج اور بیماریوںپر قابو پایا جا سکے۔
Syed Muhammad Abid
About the Author: Syed Muhammad Abid Read More Articles by Syed Muhammad Abid: 52 Articles with 71863 views I m From Weekly Technologytimes News Paper.. View More