ن لیگ کے بعد پیپلزپارٹی مشکل میں

پاکستانی سیاست میں تبدیلی کے آثار نمایاں ہوتے جارہے ہیں، گزشتہ ایک ماہ کا ہی جائزہ لیاجائے تو کافی حد تک صورتحال واضح ہوجاتی ہے۔جہاں ایک طرف کپتان(عمران خان) کو تیسری اور متبادل قوت ثابت کرنے کےلئے بعض قوتیں سرگرم عمل ہیں تو وہیں پر ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو نیچا دکھانے کےلئے بھی کوششیں جاری ہیں۔

بعض قوتوں کا یہ دعویٰ ہے کہ 30 اکتوبر 2011ءکو لاہور میں عمران خان کا تاریخی جلسہ دراصل مسلم لیگ (ن )پر ڈینٹ (کار ی ضرب)تھا۔ جلسے کی اصل حقیقت کیا ہے عمران خان ہی بتا سکتے ہیں لیکن وفاقی وزیر داخلہ عبدالرحمن ملک سمیت کئی لوگوں نے جلسے کے شرکاءکو سوالیہ نشان بنادیا ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ کا دعویٰ ہے کہ ڈنڈے اور جھنڈے عمران خان کے اور بندے کسی اور کے تھے جن کے بارے میں بہت کچھ جانتا ہوں۔ یقیناً یہ جلسہ مسلم لیگ( ن) کےلئے پریشانی کا سبب بھی بنا ہے اس لئے کہ ہوا کا رخ کے دیکھتے ہوئے اب کئی لوگوں نے عمران خان کے ساتھ اپنی امیدیں باندھنا شروع کردی ہیں اور کپتان نے بھی تبدیلی تبدیلی کے نعروں کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر پرانے چہروں کو ہی ہیوی ویٹ قرار دے کر اپنی پارٹی کو مضبوط بنانے کی کوشش شروع کردی ہے۔

اس حوالے سے 11نومبر2011ءکو آئی بی کے سابق سربراہ مسعود شریف خٹک کی تحریک انصاف میں شمولیت ہے۔ ایک طرف عمران خان نئے اور صاف شفاف چہروں کی بات کرتے ہیں دوسری طرف مسعود شریف خٹک جیسے لوگوں کی شمولیت نے عمران خان کے ماضی کی طرح اس دعویٰ کو بھی مشکوک بنادیا ہے۔ مسعود شریف خٹک ماضی میں نہ صرف پیپلز پارٹی کا بھرپور حصہ رہے بلکہ انتخابات میں حصہ بھی لیا اور شکست سے دوچار بھی ہوئے۔2002ءکے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کے حلقہNA-15ضلع کرک سے پی پی پی پی کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لیا17712ووٹ لیکردوسرے نمبر پر رہے اسی حلقے سے عمران خان نے بھی الیکشن لڑا ان کو9972 ووٹ ملے جبکہ جیت ایم ایم اے کے مولانا شاہ عبدالعزیز کے حصے میں آئی جن کو31325 ووٹ ملے، یہ نشست2008ءمیں بھی ایم ایم اے کے حصے میں آئی تاہم دوسری پوزیشن ن لیگ کو ملی ۔ مسعود شریف خٹک کا ماضی نہ صرف سیاست بلکہ ملازمت کے دوران بھی سوالیہ نشان رہاہے، بے نظیر بھٹو کی وفاداری میں ججوں اور سیاستدانوں کے فون ٹیپ کرنے سمیت دیگر کئی الزامات کا بھی ان کو سامنا کرنا پڑا ہے جن میں سے فون ٹیپ الزام کوانہوں نے عدالت میں قبول بھی کیا اور آج بھی کررہے ہیں۔ جو شخص اپنی ملازمت کے دوران اپنے فرض اور حلف کی پاسداری نہ کرسکے وہ مستقبل میں قوم کے ساتھ کئے گئے وعدوں کو کیسے پورا کرسکتا ہے۔ مسلم لیگ(ن)،پیپلزپارٹی ،مسلم لیگ(ق )،عوامی نیشنل پارٹی اور دیگر جماعتوں کے کئی آزمودہ اورمایوس چہرے بھی عمران خان کی طرف بڑھتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جن کو عمران خان ہیوی ویٹ قرار دے رہے ہیں۔ لگتا ہے کہ کپتان کے باقی یہی ہیوی ویٹ میاں اظہر اور مسعود شریف خٹک کی طرح ہونگے اور ہیوی ویٹ ہی عمران خان کی ناکامی کا سبب بنیں گے۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ عمران خان کومسلم لیگ(ن)کے لئے مشکل بناکر پیش کرنے کی کوشش کی گئی بلکہ 1997ءکے عام انتخابات میں بھی اسی طرح کی پوزیشن کا سامنا تھا۔ وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت کا خاتمہ ہوا اور الیکشن میں پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کو نیچا دکھانے کےلئے عمران خان کو بھرپور انداز میں سامنے لایا گیا۔ الیکشن کے نتائج سامنے آنے پر عمران خان کا وجود کہیں نظر نہیں آیا اور مسلم لیگ( ن) دو تہائی سے زیادہ اکثریت کے ساتھ الیکشن میں کامیاب ہوئی۔لیگی ذرائع کے مطابق1997ءکے الیکشن سے قبل جب عمران خان کی سرگرمیاں اور مہم زوروں پر تھیں مسلم لیگ (ن) کے بعض رہنماﺅں نے تحریک انصاف کے بعض رہنماﺅں سے رابطہ کرکے اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنے کی دعوت دی اور دو درجن کے قریب قومی اسمبلی کی نشستیں دینے پر آمادگی ظاہر کی جبکہ عمران خان کے ساتھیوں نے اس وقت ایک تہائی سے زائد نشستوں کا مطالبہ کیا جس کو نواز شریف نے اپنے حقیقی کشمیری پن کا مظاہرہ کرکے تسلیم نہیں کیا۔ نتیجہ وہی آیا کہ تحریک انصاف کا الیکشن کی فہرست میں دور دور تک کہیں نام ونشان تک نہیں تھا۔ تحریک انصاف کےلئے الیکشن کا سب سے بہترین دور 2002ءکے انتخاب تھا جب ملک میں عمران خان کا فیورٹ آمر پرویز مشرف اقتدار میں تھے۔ ملک کے متعدد انتخابی حلقوں سے عمران خان نے الیکشن میں حصہ لیا۔ ایک اپنی نشست اور کرک سے صوبائی اسمبلی کی ایک سیٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے اور ملک بھر سے ان کی پارٹی کو ملنے والے ووٹوں کی مجموعی تعداد 1 لاکھ 60 ہزار686 رہی۔ اس بہترین دور میں بھی عمران خان کو ملنے والے ووٹ کل کاسٹ ووٹ کا0.62 فیصد تھے۔ لگتا یہی ہے کہ اب کی مرتبہ کچھ قوتوں کی حمایت سے عمران خان اور ان کی جماعت کے بعض ساتھی کچھ زیادہ ہی خوش فہمی میں مبتلا ہیں۔

جو لوگ تحریک انصاف کو اس خوش فہمی میں مبتلا کررہے ہیں ان کا مقصد عمران خان کو وزارت عظمیٰ تک پہنچانایا تبدیلی لانا نہیں بلکہ میاں برادران کو اس دوڑ سے دور رکھنا ہے جس کو دیکھتے ہوئے صدر زرداری اور دیگر ن لیگ مخالف قوتیں شادیانے بجا رہی تھیں لیکن جن لوگوں نے ن لیگ کے لئے عمران خان کی شکل میں پھندا تیار کیا انہوں نے ہی زرداری کےلئے بھی شاہ محمود قریشی اور ذوالفقار مرزا کی شکل میں بھرپور پھندا تیار کیا ہوا ہے جس کا کچھ اظہار نومبر میں ہونے والا ۔ باخبر ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی کے چار درجن سے زائد موجودہ ارکان قومی وصوبائی اسمبلی جبکہ درجنوں سرگرم عام رہنما صدر زرداری کی موجودہ پالیسیوں سے نہ صرف نالاں ہیں بلکہ وہ ا ن کو ملک وپارٹی تباہ کرنے کی سازش قرار دے رہے ہیں۔ نومبر کی تاریخ جوں جوں آتے بڑھتی جارہی ہے، یہ رہنما متحد ومنظم ہونے کےلئے کوشاں دکھائی دیتے ہیں۔ اس حوالے سے سابق وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کی سرگرمیوں کو بڑی اہمیت دی جارہی ہے۔ شاہ محمود قریشی اس لئے بھی زیادہ اہم ہیں کہ مذہبی حوالے سے وہ پنجاب اور سندھ کے ایک درجن سے زائد اضلاع میں بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ سندھ کا ضلع تھرپارکر، عمرکوٹ، میرپورخاص، سانگھڑ،بدین،شکار پور،سکھر،جیکب آباد سمیت دیگر اضلاع میں ان کے مریدین کی کثیر تعداد موجود ہے اور اس وقت بھی ان کے متعدد مرید قومی وصوبائی اسمبلی میں موجود ہیں۔ ذرائع کے مطابق شاہ محمود قریشی اب پہلی مرتبہ بھرپور اپنی قوت کا مظاہرہ کریں گے جس کےلئے انہوں نے 27نومبر 2011ءکی تاریخ مقرر کی ہے اور یہ دن جہاں پیپلزپارٹی کے ناراض اور مایوس کارکنوں اور پیپلزپارٹی مخالف قوتوں کے لئے خوشی کا پیغام لیکر آرہا ہے وہیں پر پیپلزپارٹی اور صدر زرداری کے لئے سخت پیغام بھی ہے، شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ وہ اس دن پنجاب اور سندھ کی سرحد پر نہ صرف اپنی بھرپور قوت کا مظاہرہ کریں گے بلکہ اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ بھی اسی مقام پر کریں گے۔ انہوں نے پیپلز پارٹی میں اپنی واپسی کو ناممکن قرار دے کرزرداری کو سرخ جھنڈی دکھادی لیکن مسلم لیگ( ن) اور تحریک انصاف کےلئے اپنا آپشن کھلا رکھا ہے۔ ان کے قریبی دوست احباب کا کہنا ہے کہ ان کا زیادہ جھکاﺅ مسلم لیگ( ن) کی طرف ہے کیونکہ تحریک انصاف میں وہ اپنے آپ کو فٹ محسوس نہیں کررہے جبکہ یہ تاریخ بھی بڑی تلخ ہے کہ عمران خان کے ساتھ جن 8 لوگوں نے تحریک انصاف کی بنیاد رکھی آج ان میںسے ایک بھی تحریک میں نہیں۔ معراج محمد خان جیسے تحریکی رہنما بھی عمران خان کے ساتھ زیادہ دیر نہیں چل سکے۔ اس حوالے سے بعض رہنماﺅں کا کہنا ہے کہ اس میں سب سے بڑی رکاوٹ تنظیم کے اندر بھی عمران خان کی تنہا پرواز کی کوشش ہے۔ وہ ہمیشہ عام قیادت کونہ صرف نظر انداز کرتے ہیں بلکہ اپنے فیصلے مسلط کرنے کی بھرپور کوشش کرتے اور یہ کہ عمران خان اپنے کارکنوں اور رہنماﺅں کی موقع کی مناسبت سے حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے ان کے اچھے کاموں پر بھی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ اس ضمن میں کراچی کے ایک اہم رہنما کی تحریک انصاف میں شمولیت اور پھر اس سے علیحدگی کو بھی واضح ثبوت قرار دیا جارہا ہے ۔

تاہم یہ بات یقینی ہے کہ شاہ محمود قریشی پیپلز پارٹی کےلئے سندھ میں ڈینٹ (کاری ضرب)ثابت ہورہے ہیں اور کچھ یہی صورتحال سندھ کے سابق وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا کی بھی ہیں جس نے پیپلز پارٹی کے مختلف وزراءپر بھرپور الزامات کی بھر مار کرکے پیپلز پارٹی کو مشکل میں لا کھڑا کردیا ہے جبکہ ان وزراءکی جانب سے جوابی حملوں نے صدر زرداری کی شخصیت کو بھی سوالیہ نشانہ بنادیا ہے کیونکہ ماضی میںذوالفقار مرزا کی اصل پہچان صدر آصف علی زرداری کے قریبی دوست کی ہے۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ سندھ میں سابق وزیر اعلیٰ سندھ ڈاکٹرارباب غلام رحیم سمیت مسلم لیگ( ق) اور پیپلز پارٹی کے دو درجن کے قریب ارکان قومی وصوبائی اسمبلی اور ممبران سینیٹ کی حمایت مستقبل قریب میں شاہ محمود قریشی کو حاصل ہوگی جبکہ پیپلز پارٹی کی شیرازی برادری سمیت اتنے ہی ارکان صوبائی اسمبلی اور نصف درجن کے قریب ارکان قومی اسمبلی کی حمایت ذوالفقار مرزا کو حاصل ہوگی۔ اس طرح مجموعی طور پر پیپلز پارٹی سندھ میں مشکلات کا شکار ہوسکتی ہے اور سندھ ہی کو پیپلز پارٹی کا سب سے مضبوط گڑھ سمجھا جارہا ہے۔ اگرچہ کچھ قوتیں ذوالفقار مرزا کو راضی کرنے کےلئے کوشاں ہے لیکن لگتا ہے کہ بھرپور الزامات اور جوابی حملوں کے بعد ایسا ممکن نہیں ہوگا۔لگتا یہی ہے کہ صدر زرداری نے بھی مشکلات کو محسوس کیا ہے اور اب سندھ میں توجہ دینے کی کوشش کررہے ہیں۔

دوسری جانب پیپلز پارٹی اور اتحادی جماعتوں نے سندھ میں بلدیاتی نظام کے حوالے سے اپنی ناکام حکمت عملی کے ذریعے بلدیاتی اداروں کو بچوں کا کھیل بنادیا۔ گزشتہ چار ماہ کے دوران چار مرتبہ بلدیاتی نظام تبدیل اور چار ہی مرتبہ اضلاع کی حدود میں رد وبدل ہوچکا ہے۔ پانچویں مرتبہ تبدیلی اور ردوبدل کےلئے کوششیں جاری ہیں۔ ذرائع کے مطابق ایوب خان کے بنیادی جمہوری ادارے(بی ڈی سسٹم)، صدر جنرل(ر) ضیاءالحق کے بلدیاتی نظام1979ءاورپرویز مشرف کے بلدیاتی نظام 2001ءکی مختلف شقوں کا جمع کرکے سندھ میں ایک نیا بلدیاتی نظام لانے کےلئے کوششیں کی جارہی ہیں جس کو سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2011ءکا نام دیا جارہا ہے۔ اس حوالے سے یکم محرم1433ھ سے پہلے اور عاشورہ کے فوراً بعد سندھ اسمبلی کا اہم اجلاس طلب کرنے کےلئے کوششیں جاری ہیں تاہم مجموعی طور پر بلدیاتی نظام نے دونوں بڑی اتحادی جماعتوں کی ساکھ کو نقصان پہنچادیا ہے۔ اس نظام نے پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ مخالف قوتوں کو مضبوط اور منظم ہونے کا موقع فراہم کردیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ جوابی کاروائی کرکے اپنی پوزیشن کوکس حد تک مستحکم ومضبوط بناتی ہے۔
Abdul Jabbar Nasir
About the Author: Abdul Jabbar Nasir Read More Articles by Abdul Jabbar Nasir: 136 Articles with 106813 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.