زمرہ جات : ہمارا معاشرہ،
سیاسیات
محترم قارئین صدائے مسلم ، آپ نے اپنی زندگی میں دنیا کے عظیم لوگوں کی
سوانح کا مطالعہ ضرور کیا ہوگا، یہ عظیم لوگ ہم جیسے عام انسان ہی تو ہوتے
ہیں جو اپنی ہمت و حوصلے کے بل بوتے پر دنیا میں ایسا انقلاب برپا کرتے ہے
کہ تاریخ انہیں امر بنا دیتی ہے اور وہ آنے والے انسانوں کی زندگی کے لئے
عملی نمونہ بن جاتے ہیں، ایسے لوگ ہر معاشرے ‘ہر ملک‘ ہر رنگ و نسل میں
موجود ہوتے ہیں، بعض ان میں گمنامی کی زندگی گزارتے اور دارفانی سے کوچ کر
جاتے ہیں تو بعض کو تاریخ اپنی آغوش میں لے لیتی ہے۔ آج میں نے ایک ایسی ہی
معروف شخصیت کی گمنام سوانح حیات پیش کرنے کا ارادہ کیا ہے۔
آج سے تقریباً 95سال قبل یعنی 20ستمبر 1916 ء کولاہور کے ایک نواحی گاؤں
میں ایک نہایت غریب گھرانے میں ایک بچہ پیدا ہوا۔ چار بہن بھائیوں میں یہ
سب سے چھوٹا تھا۔پورا گاؤں ان پڑھ مگر اسے پڑھنے کا بیحد شوق تھا۔اس کے
گاؤں میں سکول نہ تھا‘لہٰذایہ ڈیرھ میل دور دوسرے گاؤں پڑھنے جاتا۔ راستے
میں ایک برساتی نالے میں اسے گزرنا پڑتا۔ چھٹی جماعت پاس کرنے کے بعد وہ
8میل دور دوسرے گاؤں میں تعلیم حاصل کرنے جاتا۔اس نے مڈل کا امتحان امتیازی
نمبروں سے پاس کیا اور وظیفہ حاصل کیا۔ مزید تعلیم حاصل کرنے لاہور آیا۔
یہاں اس نے سنٹرل ماڈل سکول میں، (جو کہ اس وقت کا نمبر 1سکول تھا) میں
داخلہ لیا۔ اس کا گاؤں شہر سے 13کلومیٹر دور تھا۔غریب کی وجہ اسے اپنی
تعلیم رکھنا مشکل تھی، مگر اس نے مشکل حالات کے سامنے ہتھیار نہ پھینکے
بلکہ ان حالات کے مقابلہ کی ٹھانی۔ اس نے تہیہ کیا کہ وہ گاؤں سے دودھ کرکے
شہر میں بیچے گااور اپنی تعلیم جاری رکھے گا۔چنانچہ وہ صبح منہ اندھیرے
اذان سے پہلے اٹھتا ،مختلف گھروں سے دودھ اکٹھا کرتا، ڈرم کو ریڑھے پر لاد
کر شہر پہنچتا۔ شہر میں وہ نواب مظفر قزلباش کی حویلی اورکچھ دکانداروں کو
دودھ فروخت کرتا ‘مسجد میں جاکر کپڑے بدلتا اور سکول چلا جاتا، کالج کے
زمانہ تک وہ اسی طرح دودھ بیچتا اور اپنی تعلیم حاصل کرتا رہا۔ اس نے غربت
کے باوجود کبھی دودھ میں پانی نہیں ملایا۔
بچپن میں اس کے پاس سکول کے جوتے نہ تھے ۔ سکول کے لئے بوٹ بہت ضروری
تھے۔جیسے تیسے کر کے اس نے کچھ پیسے جمع کرکے اپنے لیے جوتے خریدے۔ اب
مسئلہ یہ تھا کہ اگر وہ گاؤں میں بھی جوتے پہنتا تو وہ جلد گھس جاتے،
چنانچہ وہ گاؤں سے والد کی دیسی جوتی پہن کر آتا اور شہر میں جہاں دودھ کا
برتن رکھتا وہاں اپنے بوٹ کپڑے میں لپیٹ کر رکھ دیتا، اور اپنے سکول کے
جوتے پہن کے سکول چلا جاتا، بقول معروف کلام نگار جاوید چوہدری ہے والد
سارا دن اور بیٹا ساری رات ننگے پاؤں پھرتا۔ 1935 ء میں اس نے میٹرک میں
نمایاں پوزیشن حاصل کی اور پھر اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور میں داخلہ
لیا،اب وہ اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لئے گاؤں سے ریڑھے میں دودھ
لاتا اور شہر میں فروحت کردیتا
س کام میں کبھی اس نے عار محسوس نہ کی ۔ فرسٹ ائیر میں اس کے پاس کوٹ نہ
تھااور کلاس میں کوٹ پہننا لازمی تھا۔ چنانچہ اسے کلاس سے نکال کر غیر
حاضری لگا دی جاتی ۔ لگاتار غیر حاضری سے اس کا نام خارج ہو گیا۔ انجمن کو
اس معاملہ کا علم ہوا تو اس نے اس ذہین طالبعلم کی مدد کی۔ اس نوجوان کو
پڑھنے کابہت شوق تھا۔1939 ء میں اس نے بی۔اے آنر کیا ۔ یہ اپنے علاقہ میں
واحد گریجویٹ تھا۔ اس دوران وہ جان چکا تھا کہ دنیا میں کوئی بھی کام آسانی
سے سرانجام نہیں دیا جا سکتا۔ کامیابیوں اور بہترین کامیابیوں کے لیے ان
تھک محنت اور تگ و دو لازمی عنصر ہے۔
معاشی دباؤ کے تحت بی۔اے کے بعد اس نے باٹا پور کمپنی میں کلرک کی نوکر ی
کر لی۔ چونکہ اس کا مقصد اور گول لاء یعنی قانون پڑھنا تھا لہٰذا کچھ عرصہ
بعد کلرکی چھوڑ کر قانون کی تعلیم حاصل اور 1946ء میں ایل ایل بی کا امتحان
پاس کر لیا۔1950ء سے باقاعدہ پریکٹس شروع کر دی۔ اس پر خدمت خلق اور آگے
پڑھنے کا بھوت سوار تھا۔ اس نے لوگوں کی مدد سے اپنے علاقے میں کئی تعلیمی
ادارے قائم کیے۔ اسی جذبہ کے تحت 1965میں مغربی پاکستان اسمبلی کا الیکشن
لڑا اور کامیاب ہوا۔ پیپلز پارٹی کے روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے سے متاثر
ہو کر اس میں شامل ہو گیا۔1970میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر ایم ۔این۔اے منتخب
ہو ااور نواب مظفر قزلباش کے بھائی کو ، جن کے گھر یہ دودھ بیچا کرتا تھا،
شکست دی۔ 1971ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی پہلی کابینہ میں وزیر خوراک اور
پسماندہ علاقہ جات بنا۔1972ء کو پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کا وزیر
اعلیٰ بنا۔وزارت اعلیٰ کے دوران میں اکثر رکشے میں سفر کرتا۔اپنے گورنر
غلام مصطفی کھر کے ساتھ نبھا نہ ہونے کی وجہ سے استعفیٰ دے کر ایک مثا ل
قائم کی ۔1973ء میں اقوام متحدہ میں پاکستانی وفد کی قیادت کی۔
1973ء میں سے وفاقی وزیر قانون و پارلیمانی امور کا قلمدان سونپا
گیا۔1976میں اسے وفاقی وزیر بلدیات و دیہی مقرر کیا گیا۔ دودفعہ سپیکر قومی
اسمبلی بنا اور 4سال تک انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی کا ریکٹر رہا۔ ایک
مفلس و قلاش ان پڑھ کسان کا بیٹا جس نے کامیابی کا ایک لمبا اور کھٹن سفر
اپنے دودھ پیچنے سے شروع کیا اور آخرکارپاکستان کا وزیراعظم بنا۔یہ پاکستان
کامنفرد وزیر اعظم تھا جو ساری عمر لاہور میں لکشمی مینشن میں کرائے کے
مکان میں رہا۔جس کے دروازے پر کوئی دربان نہ تھا، جس کا جنازہ اسی کرائے کے
گھر سے اٹھا، جو لوٹ کھسوٹ سے دور رہا، جس کی بیوی اس کے وزارت عظمیٰ کے
دوران رکشوں اور ویگنوں میں دھکے کھاتی پھرتی۔
میرے قارئین اور ہم وطنوں! ملک معراج خالد تاریخ کی ایک عہد ساز شخصیت
تھے،آپ 23جون2003کو اس دار فانی سے رخصت ہوئے۔ ان کے ہم سے رخصت ہوتے
آج8سال ہوئے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ تاریخ ایسے افراد کو 800سالوں تک
بھی یاد رکھتی ہے ، یہ کسی کے ساتھ بے ایمانی نہیں کرتی اس کے سینے میں
ایسی لاتعداد شخصیتیں ہیں جنہوں نے اپنا مقصد حیات انسانیت کی فلاح و بہبود
کے لئے وقف کیا، جنہوں نے اپنے قومی مفاد کو ذاتی مفاد پر ترجیح دی، جنہوں
نے قوم پر ایک احسان کیا ، قومی دولت لوٹنے کے بجائے انہیں واپس لٹایا۔ آج
تاریخ پھراس موڑ پہ ہے جہاں اسے ایسے باہمت و محب وطن رہنما کی ضرورت ہے۔
شاعر نے کیا خوب کہا
اپنی کوتاہی سے تقدیر کو بدنام نہ کر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عزم کو ہمت تو مقدر بھی
بدل دیتے ہیں
قارئین آپ ہمارے مضامین صدائے مسلم ڈاٹ بلاگ سپاٹ پر بھی ملاحظہ کر سکتے
ہیں۔
www.sadaemuslim.blogspot.com |