سیاست سے پاک ،صحافیوں کا ملاپ، پاک بھارت۔۔

حالیہ دنوں میں بھارت سے آئے ہوئے صحافیوں کے ایک وفد نے کراچی پریس کلب اور حیدرآباد پریس کلب کا دورہ کیا، اس دورے کا اصل مقصد دونوں ممالک کے صحافتی تعلقات کو دوستانہ ماحول میں پروان چڑھانا مقصود تھا، پاکستان اور بھارت کے مابین یہ پہلا اتفاق ہے کہ خالصتاً صحافتی بنیادوں پر ایک دوسرے ممالک کے صحافیوں نے اپنے پروفیشنلز تعلقات کو بہتر انداز میں استوار کرنے کیلئے ایک مثبت قدم اٹھایا جس کا بھارت اور پاکستان کی جمہوری حکومتوں کا بھرپور تعاون رہالیکن ممبئی پریس کلب کے عہدیداروں کو صرف کراچی اور حیدرآباد کا ویزا جاری کیا گیا تھا اسی لیئے یہ وفد لاہور کی مشہور جگہوں جس میں مینار پاکستان، بادشاہی مسجد ، شالیمار باغ جیسی عظیم تاریخی مقامات سے محروم رہ گئے جس کا بر ملا وفد نے اظہار بھی کیا۔۔۔اس وفود کا اصل مقصد بھارتی اور پاکستانی صحافیوں کے دو طرفہ تنازعات کو ختم کرنا اور مسائل کے حل کے لیے ممبئی ، کراچی سمیت دونوں ملکوں کے صحافیوں کے روابط میں اضافے اور تجارتی وفود کی طرز پر آسان ویزہ پالیسی کے اجراءپر زور دیا گیا تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کی فضا کو کم کیاجاسکے ۔ اگر پاک بھارت دوستی نہیں ہوئی تو ایشیا ءاندھیروں سے نہیں نکل سکے گا۔۔کراچی پریس کلب کی دعوت پر ممبئی پریس کلب کے صحافیوں کا 22رکنی وفدپیر کو 7روزہ دورے پرکراچی پہنچا جہاں صحافیوں کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔ کراچی پریس کلب میں عوام کے درمیان رابطے میں سارک کے کردار پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ممبئی پریس کلب کے چیئرمین پرکاش اکولکرنے کہا کہ کراچی اور ممبئی فاصلوں کے اعتبار سے اتنے بھی دور نہیں ہیں لیکن ہمارے دل ایک ہیں ، کراچی اور ممبئی ایک جیسے شہر ہیں یہاں کی لاءاینڈ آرڈر کی صورتحال ہو یا تجارتی اور معاشی صورتحال ان میں کوئی فرق نہیں، ممبئی اور کراچی میرے اور آپ کے نہیں بلکہ ہمارے شہر ہیں ۔ بارڈر کے دونوں اطراف ایک سی زندگی رواں دواں ہے، ہمارے دکھ سکھ بھی ایک سے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ تو علم تھا کہ ہمیں کراچی میں محبت ملے گی لیکن یہاں آکر ہمیں جتنا پیار اور محبت ملی اس کا ہمیں اندازہ ہی نہیں تھا اور ہم یہ سوچ ہی نہیں سکتے کہ صحافیوں کا اتنا پرتپاک استقبال بھی ہو سکتا ہے ۔۔۔ کراچی پریس کلب کے صدر طاہر حسن نے کہا کہ ممبئی اور کراچی کے صحافیوں کے درمیان رابطے کی یہ کوششیں گزشتہ 4سال سے جاری تھیں اور بھارتی صحافیوں کے دورے کے لیے پاکستانی حکومت نے بھی بہت تعاون کیا ہے ۔ جتن وسائی نے کہا کہ پاکستانی میڈیا تیزی کے ساتھ ترقی کر رہا ہے اور ہم یہ قبول کرتے ہیں کہ پاکستانی صحافی مشکل حالات میں اپنا بہترین صحافتی کردار ادا کر رہے ہیں انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت میں صرف 2صحافیوں کو کوریج کی اجازت ہے جو گزشتہ سالوں میں کبھی 4ہوا کرتی تھی لیکن ہمارا دونوں ملکوں سے یہ مطالبہ ہے کہ صحافیوں کی تعدادبڑھا کر کم از کم 10کی جائے اور دونوں اطراف کے صحافیوں کے لیے یکساں ویزہ پالیسی مرتب کی جائے۔شمیم الرحمن نے کہا کہ دونوں اطراف کے صحافیوں کو غربت کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اس وقت دونوں ملکوں کے 40کروڑ عوام بھوک سے مر رہی ہے ۔۔ پاکستانی صحافی غازی صلاح الدین کا کہنا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کا رشتہ عجیب و غریب ہے یہ ایک دوسرے کے دوست اور دشمن بھی ہیں۔ پاک بھارت دوستی میں کتنی ہی رکاوٹیںحائل ہوجائیں اور کتنا ہی وقت درکار ہوان دونوں ملکوں کی دوستی یقینی ہے اگر پاک بھارت دوستی نہیں ہوئی تو ایشیاءان اندھیروں سے نہیں نکل سکے گا، لیکن پاک بھارت دوستی کی راہ میں رکاوٹ اسٹبلشمنٹ ایجنٹ کمزورہوچکے ہیں ۔۔۔سیمینار میں شریک پاک بھارت صحافیوں کا کہنا تھا کہ اسٹبلشمنٹ نہیں چاہتی کہ ہم ایک ہوں اور دونوں ملکوں کے درمیان فاصلے کم ہوں۔ ۔سینٹرل ایشیائی اور دنیا کے دیگر ممالک ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں اور وہاں کوئی ویزہ پالیسی نہیں ۔ پوری دنیا سکھ چین سے ہے بس ایک ہم ہیں جو ہمیشہ حالت جنگ میں رہتے ہیں اور ایک دوسرے کو گھور گھور کر زندگی گزارتے ہیں ۔۔۔اس موقع پر کراچی پریس کلب کے سیکریٹری موسیٰ کلیم سمیت گورننگ باڈی اور کراچی پریس کلب کے ممبران بھی موجود تھے ۔۔اس موقع پر کراچی پریس کلب کے سینئر اراکین و عہدیداران نے ممبئی سے آئے ہوئے مہمان صحافیوں کو یادگاری شیلڈزپیش کیں۔۔جبکہ ممبئی پریس کلب کو کراچی پریس کلب کا نشان بھی پیش کیا گیا ۔ممبئی پریس کلب کی جانب سے بھی سوینئر کراچی پریس کلب کو پیش کیا گیا ۔اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے پرکاش اکولکر نے کہا کہ دونوں ممالک کے عوام امن کے خواہاں ہیں، مجھے یہاں آکر معلوم ہوا۔جو ہندی میں بھارت میں بولتا ہوں وہی یہاں اردو ہے ۔اس موقع پر انہوں نے کراچی پریس کلب کے ممبران کو ممبئی آنے کی دعوت دی۔کراچی پریس کلب کے سینئر رکن مقصود یوسفی نے کہا ہے کہ آج میڈیا کی تاریخ کایادگار دن ہے ۔اور پاکستانی اور بھارتی صحافت میں نئے باب کا آغاز ہوگا۔اس تقریب میں شرکت سے یہ احساس بیدار ہوا کہ دونوں ممالک کی عوام ایک دوسرے سے بے حد محبت اور روابط کی خواں ہے مگر دونوں ممالک کی سیاست و اسٹیبلشمنٹ کو گوارہ نہیں!! یوں تو دونوں ممالک کے سیاستدان ذاتی مفادات کیلئے ایک دوسرے سے شیر و شکر رہتے ہیں مگر اپنی عوام کے جذبات و احساسات کا احساس تک نہیں ، پاک بھارت کے تعلقات نہ صرف دونوں ممالک کی فلاح کیلئے سود مند ہے بلکہ خطے کے امن و سلامتی کیلئے بھی اشد ضروری ہے ۔۔۔۔ ایک اندازے کے مطابق پاک بھارت کی افواج پر نوے فیصد قومی خذانے کا بجٹ صرف کیا جاتا ہے جس کی قیمت دونوں ممالک کی عوام بھوک ،مفلسی، غربت اور تکلیف کی شکل میں ادا کرتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ دونوں ممالک کی عوام کو جینے کیلئے بنیادی سہولتیں تک میسر نہیں اور یہ دنیا میں سب سے پیچھے رہ گئی ہیں جبکہ ان ممالک کے سیاستدان لوٹ کھسوٹ میں مصروف ہیں اور اپنی دولت سوئس بینک میں جمع کراتے چلے آرہے ہیں ۔ ۔۔ اگر دونوں ممالک کے عوامی تعلقات بڑھتے رہے تو ممکن ہے دونوں ممالک اپنی اپنی ترقی میں ایک دوسرے کیلئے بہتر معاون بھی ثابت ہوں ۔۔۔دونوں ممالک کو کئی شعبوں میں ایک دوسرے سے بہتر تعلقات کیلئے وفود کا تبادلہ کرنا چاہیئے۔
جاوید صدیقی
About the Author: جاوید صدیقی Read More Articles by جاوید صدیقی : 310 Articles with 246089 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.