سیاسی ماحول میں گرمی، اللہ خیر کرے

پاکستان کا سیاسی ماحول پہلے ہی کچھ کم گرم نہ تھا کہ ایسے میں سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے استعفیٰ نے اس حدت میں مزید شدت پیدا کردی ہے۔ شاہ محمود قریشی کے استعفیٰ کے ساتھ ہی عمران خان نے بیان داغ دیا کہ موصوف 27 نومبر کو گھوٹکی کے جلسہ عام میں تحریک انصاف میں شمولیت کا علان کریں گے جبکہ شاہ محمود قریشی نے اس بات کی تائید یا تردید کرنے سے انکار کرتے ہوئے صرف اتنا کہا کہ وہ اپنے آئندہ لائحہ عمل کا اعلان 27 نومبر کو گھوٹکی میں کریں گے۔ میرا خیال ہے کہ عمران خان کو ان کے PTI میں شامل ہونے کی خبر کو ”بریک“ کرنے میں اتنی جلدی نہیں کرنی چاہئے تھی اور اگر قریشی صاحب خود یہ خبر بریک کرتے تو شائد تحریک انصاف کے لئے زیادہ فائدہ مندہوتی، خیر عمران خان نے بھی ہوا میں تو نہیں چھوڑی ہوگی لیکن اگر آخری لمحات میں قریشی صاحب کو مسلم لیگ (ن) سے زیادہ فائدہ ملنے کی توقع پیدا ہوگئی تو وہ یقینا اپنے فائدے کی بات ہی سوچیں گے۔

شاہ محمود قریشی نے استعفٰی کی پریس کانفرنس میں باقی اپوزیشن کو بھی ملک ”بچانے“ اور استعفٰی دینے کی دعوت دی ہے۔ مسلم لیگ (ن) بھی گذشتہ کچھ عرصہ سے عوام میں متحرک ہے اور گو زرداری گو کے نعرے بلند کررہی ہے۔ ایم کیو ایم فی الحال دوبارہ حکومت کے مزے لوٹنے میں اور زیادہ سے زیادہ ”پانے“ کے چکر میں ہے جبکہ بچی کھچی قاف لیگ وفاقی حکومت میں چند وزارتوں اور آئندہ الیکشن میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا لالی پاپ منہ میں دبائے ہوئے ہے، ایک ”بڑا“ اور ”قومی“ اہمیت کا حامل کام وہ البتہ مونس الٰہی کی رہائی اور اکاﺅنٹس کی بحالی کی صورت میں کراچکی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے علاوہ باقی تقریباً تمام جماعتیں الیکشن کا انعقاد اپنے وقت پر دیکھنا چاہتی ہیں، مسلم لیگ (ن) کی جلدی کی وجوہات میں سرفہرست سینٹ کا الیکشن نظر آرہا ہے۔ تحریک انصاف کو یقینا ابھی مزید وقت کی ضرورت ہے تاکہ وہ تیاری کرسکے اور بقول عمران خان مزید ”ہیوی ویٹ“ سیاستدان جلد PTI میں شامل ہوں گے۔ جماعت اسلامی بھی اس حکومت سے تنگ تو ہے لیکن کسی جلدی میں نظر نہیں آتی، وہ تیل اور تیل کی دھار دیکھ رہے ہیں، عید تک تو کھالوں کا معاملہ تھا، اب شائد وہ بھی ہاتھ پاﺅں مارنا شروع کردیں، کیونکہ اپنی کوئی ”ورتھ“ دکھائیں گے تو کسی ”بارگیننگ“ پوزیشن میں آپائیں گے اور پارلیمنٹ میں جا پائیں گے۔

کچھ لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ایک بار پھر پنڈی میں ”ڈرائی کلیننگ“ کا کام زور و شور سے شروع ہوچکا ہے اور تینوں بڑی جماعتوں کے پہلے سے کچھ ”مسٹر ہائے کلینز“ کو مزید ”کلین“ کرکے تحریک انصاف میں شامل کروایا جارہا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے سامنے 30اکتوبر کا جلسہ ایک ”جن“بن کر کھڑا ہے جس کے سحر سے وہ کوشش کے باوجود ابھی تک نکل نہیں پارہے، ایک بات جو حقیقت ہے کہ اس طرح کے ایک جلسے سے انتخابی سیاست میں بہت زیادہ فرق نہیں پڑ سکتا جب تک کہ اس میں ایک تسلسل نہ ہو اور نعروں کے مطابق پالیسیاں تشکیل نہ دی جائیں لیکن اس کے باوجود ایک نامعلوم خوف اور باری چھن جانے کا وسوسہ بہرحال موجود ہے جو مسلم لیگ (ن) کے قائدین سے لے کر کارکنان اور ہمدرد کالم نویسوں کوبے چین کئے رکھتا ہے۔ عمران خان کی سوچ اپنی جگہ کہ پاکستان کے الیکشنز میں امیدوار سویڈن سے تو درآمد نہیں کئے جاسکتے لیکن ایک سوال بہرحال اپنی جگہ موجود ہے کہ وہ لوگ جو پچھلے پندرہ سال سے ان کی سیاست کا ایندھن بنے ہوئے ہیں ان کو سائیڈ لائن کرکے اگر الیکشن انہی لوگوں کو لڑایا جائے گا جو ہر جماعت کا مزا چکھ چکے ہیں تو کس طرح کی تبدیلی آئے گی؟جن کے خاندان قیام پاکستان سے پہلے سے اس خطے میں سیاست کررہے ہیں اور جن میں سے کچھ کے بڑے انگریز کے خاص مقربین اور وفاداروں میں شامل تھے، جن لوگوں کو بے شمار مواقع دستیاب تھے کہ وہ اس ملک اور یہاں کے عوام کے لئے کچھ کرسکیں، وہ اب کیا تیر مار لیں گے، کیا کل کو وہ عمران خان کو ”کپتان“ مان لیں گے؟ میرا خیال ہے شائد ایسا نہ ہوسکے، اس طریقے سے تو تحریک انصاف بھی اسی کام میں مشغول ہوجائے گی جس میں باقی جماعتیں مشغول ہیں، جب آپ کے ساتھ چلنے والے اپنے ذاتی ایجنڈے لے کر آئے ہوں گے تو وہ تو آپکی ٹانگیں کھینچیں گے، وہ تبدیلی ہونے دے ہی نہیں سکتے، کیونکہ تبدیلی کا مطلب ان کی موت ہوگا اور جیتے جی کوئی مرنا چاہتا ہے کیا؟عمران خان اور ان کی جماعت کو دوبارہ سے سر جوڑ کر بیٹھنے اور سوچنے کی ضرورت ہے ورنہ یار لوگ اسٹیبلشمنٹ کی ٹیم کا نعرہ پہلے سے بھی زیادہ آواز میں لگائیں گے۔

بات ہورہی تھی ملک میں سیاسی گرما گرمی کی، ہر جماعت اور ہر لیڈر اپنے اور اپنی جماعت کے ایجنڈے کو لے کر چل رہے ہیں جس میں یقینا آئندہ الیکشن جیتنا سب سے اہم ٹاسک ہے، الیکشن جیتنے کی کوشش کرنا اور اس کے لئے دستیاب وسائل سے کام لینا کوئی بری بات نہیں اگر اس کے بعد پاکستان اور یہاں کے عوام کی فلاح و بہبود مدنظر ہو، اگر اس ملک کو اغیار کی غلامی سے نکالنے کی بات ہو، اگر یہاں سے غربت، مہنگائی، لاقانونیت، دہشت گردی۔ بیروزگاری اور اقربا پروری جیسی لعنتوں کو ختم کرنا مقصد ہو، لیکن یہ انتہائی افسوسناک بات ہے کہ نعرے تو کچھ اور لگائے جائیں، عوام کو باغ تو سبز سبز دکھائے جائیں، ان کے مسائل کا رونا رویا جائے، ان کی محرومیوں کو ”ایکسپلائٹ“ تو کیا جائے لیکن صرف اقتدار کے حصول کے لئے اس کے بعد پھر انہی آقاﺅں کی ڈکٹیشن پر اس ملک کے عوام کو پیروں تلے روندا جائے اور ان کی روح تک کو تڑپا کر رکھ دیا جائے، ان کو خودکشیوں پر مجبور کردیا جائے! سیاسی گرمی کو بڑھانے میں یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ پہلے اسی طرح کے عمل سے مشرف کو یہاں سے بھگایا گیا لیکن اس کے بعد کیا ہوا؟کفن چور کا بیٹا اس سے بھی دو ہاتھ آگے ہی نکلتا ہے، عربی کی کہاوت کے مطابق جب ایک کفن چور مرنے لگا تو اس نے اپنے بیٹے کو بلایا اور کہا کہ میں نے ساری عمر کفن چوری کئے ہیں اور دنیا مجھ پر تھوکتی رہی، گالیاں دیتی رہی، تم کوئی ایسا کام کرنا کہ لوگ مجھے اچھے نام سے یاد کریں۔ بیٹے نے کہا، والد صاحب آپ تسلی سے فوت ہوجائیں اور فکر بالکل نہ کریں، چنانچہ باپ کی وفات کے بعد اس کے بیٹے نے یہ کام شروع کیا کہ مردوں کے کفن چوری کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی بیحرمتی بھی کرنے لگا، لوگوں نے جب یہ دیکھا تو وہ چلا اٹھے، اللہ پہلے ”لعنتی“ پر اپنی رحمت کرے وہ کم از کم ہمارے مردوں کی بیحرمتی اور بے توقیری تو نہیں کرتا تھا....! اس لئے خدارا، اگر سب جماعتیں اس حکومت اور زرداری کو گھر بھیجنے کے ایجنڈے پر متفق ہو بھی جائیں تو اس سے اگلا ”سیٹ اپ“پہلے طے کرلیں تاکہ اب کی بار کفن چور کا پوتا نہ آجائے، وہ کسی کو اپنے باپ دادا کو گالی تو نہیں نکالنے دے گا نا! آخر میں ایک چھوٹا سا لطیفہ جو ایس ایم ایس کی شکل میں گردش کررہا ہے۔ کسی نے صدر سے کہا ” تم برے کام مت کرو ورنہ اللہ کا عذاب نازل ہوگا“ جواب آیا ”برے کام تو پہلے والا کرگیا ہے، میں تو اللہ کا عذاب ہوں“ .... اللہ ہمیں مزید عذابوں سے بچائے، اللہ خیر کرے.... آمین۔
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 222579 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.