سترہویں سارک چوٹی کانفرنس

مالدیپ کے شہر اڈیو میںدوروزہ سترہویں سارک چوٹی کانفرنس 11نومبر کو نئی توقعات کے ساتھ ختم ہوئی۔سات جنوب ایشائی ممالک کی اس علاقائی تعاون کونسل کا قیام دسمبر1885 میں ہوا تھا ۔ اس کے مقاصد میں ممبر ممالک کے درمیان تجارتی، صنعتی، مالیاتی ، ثقافتی اور تعلیمی شعبوں میں تعاون ، آمد و رفت اور رسل رسائل کی سہولتوں میں اضافہ شامل ہے۔اسی کے تحت تجارت کوکفائتی و سہل کرنے کےلئے SAFTA یعنی ’جنوب ایشیائی کھلی تجارت معاہدہ‘ بھی ہوا تھا ،مگر بدقسمتی سے رکن ممالک میں باہمی اعتماد کی کمی ، افسر شاہی کی کوتاہ نظری اور اس سے بڑھ کر سیاسی پارٹیوں میں قومی مفاد سے بڑھ کراپنے ووٹ بنک کی فکرکی بدولت سارک کی مطلوبہ صورت گری ہنوز تشنہ تکمیل ہے۔

اس ناکامی کےلئے ہم خود کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے۔سارک کا سب سے بڑا رکن ملک ہونے کے ناطے ہماری ذمہ داری بھی بڑی تھی کہ سازگار ماحول بنانے کےلئے مسلسل اقدامات کئے جاتے، بد اعتمادی کو اعتماد میں اور منفی انداز فکر کومثبت اقدامات سے بدلتے۔ مگر ہم شطرنج کے کھلاڑی بن کر شہ اور مات کے کھیل میں لگ گئے ۔سفارتی سطح پر پڑوسیوں کا ناطقہ بند کرنے کےلئے الزامات اور جوابی الزامات قومی پالیسی کا حصہ بن گئے۔مجرموں کو اپنے آنگن میں تلاش کرنے کے بجائے دوربین لگاکر پڑوس میں تلاش کرنا ہمارا رویہ بن گیا۔ ہماری خارجہ پالیسی میں بعض عناصر ایسے بھی شامل ر ہے جن سے پڑوس کے چھوٹے ممالک یہ محسوس کرتے رہے کہ ہندستان ان کودبا کر رکھنا چاہتا ہے۔ افسر شاہی کو یہ منفی انداز فکر برطانوی سامراجی نظام سے ورثہ میںملا ہے ۔تہہ در تہہ فیصلہ سازی نظام نے بھی پیچیدگیاں پیدا کیں اور فیصلے موخر ہوتے چلے گئے۔سیاسی اڑنگے بازی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔اپوزیشن نے یہ تہیہ کرلیا ہے کہ حکومت کی ہر پالیسی اور ہراقدام میں کیڑے نکالنے ہیں۔ کھوٹ ہمارے ان پڑوسیوں کا بھی رہا جنہوں نے دہشت گردی کے حربہ سے گریز نہیں کیا۔ اس اعتراف کے ساتھ کہ مسائل کو مفاہمت اور مذاکرات سے ہی حل کیا جاسکتا ہے ،اب جو اقدامات ہورہے ہیںوہ لائق ستائش ہیں مگرسابقہ کوتاہیوں کی بھرپائی کےلئے ان کی رفتارتیز کرنے کی ضرورت ہے۔کسی فریق کی طرف سے ایک طرفہ حل تھوپنے کی کوشش ، ضد ،تعطل اور جمود سے مسائل ختم نہیں ہوتے۔رویہ میںمزید لچک پیدا کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ مسائل کو جرات سے حل کرنا ہی واحد راستہ ہے۔ سبھی سیاسی طاقتوں کو ملک کے بہتر مستقل کےلئے اس کوششوںمیں ساتھ دینا چاہئے ۔

اس خطے میں ہماراکلیدی حریف چین تصور کیا جاتا ہے۔ اگرہم چین سے اپناموازنہ کریں، تو صاف نظرآتاہے کہ اقتصادی نمو کےلئے جس طرح کی حکمت عملی اس نے اختیار کی اورجو ترجیحات قائم کیں اور جس پھرتی کے ساتھ معاہدے کئے اور تندہی سے ان کو نافذ کیا،ہم نہیں کرسکے۔ اب صورت یہ ہے کہ ہمارے گرد چین نے ایک ہالہ سا ڈال لیا ہے جو مسلسل وسیع اورمستحکم ہورہا ہے۔شمال میں نیپال،مشرق میں بنگلہ دیش (ہند چینی خطہ برما ، تھائی لینڈ وغیرہ اور آسیان ممالک) ، جنوب میں سری لنکا اورمغرب میں پاکستان اور اب افغانستان اور ایران کے ساتھ اس کے صنعتی و تجارتی رشتے مستحکم ہورہے ہیں ۔ مالدیپ میں بھی سرگرمیاں بڑھی ہے۔ جبکہ ہند کے ساتھ ان ممالک کے رشتوں میں نمو کم اور جمود زیادہ نظر آتا ہے۔اعتماد کا فقدان عام ہے اور برف ہے کہ پگھلنے کا نام ہی نہیں لیتی۔ ماضی کے تنازعات کا تاریک سایہ مستقبل کے امکانات پر پڑ رہا ہے جو ہٹنے کا نام ہی نہیں لیتا۔یہ صورتحال اس بات کی متقاضی تھی اور ہے کہ ہندستان اپنے خطے کے ممالک کے ساتھ ’لو اور دو‘ کے اصول پر معاملات طے کرے اور اعتماد کی فضا سازی میں بڑھ چڑھ کراپنا کردار ادا کرے تاکہ سارک کے تصور کو معنویت عطا ہو۔کیا ہے وہ تصور؟ وہ تصور یہ ہے کہ جس طرح یورپی ممالک میں بلا روک ٹوک ایک ملک سے دوسرے ملک آنے جانے اور تجارت کی آسانی ہے، اسی طرح سارک خطہ میں بھی سفر اور تجارت کےلئے دروازے کھل جائیں۔ جس طرح حیدرآباد کی گرم گرم حلیم چند گھنٹوں میں دہلی پہنچ جاتی ہے، اسی طرح ڈھاکہ، کراچی، کابل، کٹھمنڈو ، کولمبواور تہران بھی پہنچ جائے۔ وغیرہ۔

باہمی اعتماد سازی کی اس اہمیت کی وجہ سے ہی زیر تبصرہ سارک کانفرنس کے دوران عالمی میڈیا اور رکن ممالک کی توجہ ہند اور پاکستان کے لیڈروںپر رہی۔ وزیر اعظم ہند ڈاکٹر من موہن سنگھ اور وزیر اعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی کو بھی یہ احساس تھا، اسی لئے انہوں نے ملاقات کےلئے کانفرنس کے افتتاح سے قبل کا وقت چنا اورملاقات کے بعد بڑا ہی خوشگوار اور مثبت پیغام دیا، جس کی گونج میزبان صدر محمد نشید کے افتتاحی خطبے میں، سربراہان کے خطابات میں اور اختتامی اعلانیہ میں سنی جاسکتی ہے۔ اس ملاقات کے بعد ڈاکٹر سنگھ نے مسٹر گیلانی کو ’امن پسندانسان‘ (man of peace) قرار دیا، جس کا جوا ب مسٹر گیلانی نے بھی گرمجوشی کے ساتھ دیا۔ خوشی کی بات یہ ہے ان کوششوں کی نہ صرف برصغیر میںبلکہ عالمی سطح پر تائید ہوئی۔ امریکا اور چین نے برملا خیر مقدم کیا۔ پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر نواز شریف نے بھی تائید کی۔ اخبارات نے حوصلہ افزا تبصرے لکھے۔ ہندستان میں سنگھی نظریہ برداروں کے علاوہ سبھی طبقات نے اطمینان ظاہر کیا۔ سنگھیوں کا دل چاہتا ہے پاکستان کو ناک رگڑنے پر مجبورکیا جائے۔اسی جوش میں وہ اس وقت ہو ش کھو بیٹھے تھے جب پارلیمنٹ پر دہشت گردانہ حملے کے بعد دس ماہ تک سرحد پر فوج کو تعینات رکھاگیا تھا جس پر اربوں روپیہ ضائع ہوا۔ بھاجپا لیڈر جسونت سنگھ، ترن وجے اور شاہنواز حسین اعتماد سازی کی مساعی پر نکتہ چینی کرتے ہوئے یہ بھول گئے کہ این ڈی اے حکومت کی اس جارحانہ روش کا نتیجہ کیا نکلا تھا؟ بدلتی ہوئی دنیا کی نئی فضا ان کو راس نہیں آتی،وہ ماضی کی تاریکیوں میںملک کو دھکیلنا چاہتے ہیں۔ سرحد پرفوج لگاکر کشیدگی پیدا کرنے کے بجائے ہونا یہ چاہئے تھا کہ مرکزی وزیر داخلہ کی حیثیت سے اپنی ناکامی پر آڈوانی جی کابینہ سے استعفا دیتے اورسیاست سے سنیاس لے کر پرائشچت کےلئے کسی پہاڑ پر چلے جاتے۔ مگر وہ تو الٹا وزیر اعظم کی کرسی کی آس میںسرگرداں ہیں۔ جو شخص نائب وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کی حیثیت سے ناکام رہا ،اس کو یہ گمان کیسے ہوگیا کہ وہ وزیراعظم کے منصب کےلئے اہل ترین فرد ہے؟ بہر حال سنگھیوں کی نکتہ چینی کو نظرا نداز کرکے ہند ستان نے بشمول پاکستان تمام سارک ممالک کو تجارت میں مزید ترجیحات دینے کا اعلان کردیا ہے۔پاکستان اور بنگلہ دیش نے بھی بین ملکی تجارت میںمتعدد اشیاءپر کسٹم کم کرنے یا ختم کرنے کااعلان کردیا ہے جس سے’ سافٹا ‘کے نفاذ میں پیش رفت ہوگی۔ پاکستان نے ہند کو اصولاً ’انتہائی مراعات یافتہ ملک‘ (MFN) کا درجہ دینے کا اعلان پہلے ہی کردیا ہے۔ جس وقت یہ سطور لکھی جارہی ہیں نئی دہلی میںدونوں ممالک کے وزارت تجارت کے اعلا افسران سرحد پر مزید سہولتوں اورمجوزہ رعایتوں کے نفاذ کے ضابطوں پر مذاکرات میں مصروف ہیں۔ امید ہے کہ افسرشاہی کی اڑنگے بازی اورزیادہ نفع کمانے کےلئے مال کی مقدار اور معیار میںڈنڈی ماری نہیں ہوئی اور کسٹم کے جھمیلوں میںمال بارڈر پر پڑے رہنے کے بجائے ،سرعت کے ساتھ آتا جاتا رہا توباہم اعتماد کی فضا مزیدسازگار ہوگی اور عوام کا بھلا ہوگا۔دختران ملت کی رہنما سیدہ اندرابی آسیہ نے بجا کہا ہے اس سے فائدہ زیادہ پاکستانی عوام کا ہوگا۔ اس کالم نگار نے فروری میں اپنے ایک مضمون’اعتماد سازی کےلئے سیاست نہیں تجارت کیجئے‘میں اسی پہلو پر زور دیا تھا جس کی اب عملی صورت گری ہوتی نظرآرہی ہے۔

یو پی اے سرکار نے بنگلہ دیش کے ساتھ دیرینہ تنازعات بڑی حد تک حل کرلئے ہیں۔ میانمار اور نیپال کے ساتھ بھی سازگاری بڑھی ہے۔ افغانستان کے ساتھ رشتوں کو نئی جلا ملی ہے۔ البتہ سری لنکا کی شکایات کا ازالہ باقی ہے، جس کا اظہار صدر مہندرا نے اس کانفرنس کے دوران ایک انٹریوں میں کیا ہے۔سارک کے تصور کی صورت گری ، بالفاظ دیگر اس پورے خطے کی خوشحالی اور ترقی کی کنجی ہندستان کے پاس ہے۔ اس کا بھرپور احساس موجودہ سرکار کوہے۔ یہی وجہ ہے کہ انتہائی اشتعال انگیزی اور دشوار ماحول میں بھی اس نے خصوصاً پاکستان کے ساتھ تعلقات کی استواری پر توجہ کم نہیں کی ۔پاکستان کی موجودہ سیاسی اور فوجی قیادت اور عوامی رجحان بھی ان کوششوں کے موئد ہیں۔ اس لئے امید کی جاسکتی ہے کہ فضا بدلے گی اور آئندہ سارک کانفرنس سے قبل بہت سے اہم اقدامات ہوچکے ہونگے۔ اسی ضمن میں ذکر کشمیر کا بھی ناگزیر ہے، جہاں ظلم و زیادتیوں ، انسانی حقوق کی پامالیوں اور سیاسی دھاندلیوں کو بہانا بناکر پاکستان میں بعض عناصر اعتماد سازی کے عمل کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔ کچھ شیطان صفت دہشت گردی کا سہارا لیکر اس خطے کو یرغمال بنائے رکھنا چاہتے ہیں۔ اہم سوال یہ ہے کہ ان کوپست کیسے کیا جائے؟ جو لوگ امریکا کے تجربہ کو دوہرانے کی وکالت کرتے ہیں وہ بھول گئے کہ امریکا اس تجربہ میں خود تباہ ہوگیا ہے اور نتیجہ صفر نکلا ہے۔ جنت ارضی کشمیر کے عوام اور حکومت ہند کے درمیان بداعتمادی کا خاتمہ، ہند پاک اعتماد سازی کےلئے تریاق ہے ۔ اسی میں سے سارک کےلئے کامیابی کی راہ نکلے گی۔ آخری بات یہ کہ ایران نے بھی سارک کے رکنیت کی خواہش ظاہر کی ہے۔ اس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔ ایران ایسی کڑی ہے جس کے بغیر سارک کو یوروپ سے جوڑا نہیں جاسکتا۔ ایران کے جڑجانے سے سارک کے تجارتی رشتے ترکی اور یورپی ممالک تک استوار ہونگے جو پورے خطے کےلئے خوشحالی اور خوش ہمسائگی کا ضامن ہوگا۔(ختم )

(مضمون نگار فورم فار سول رائٹس کے جنرل سیکریٹری ہیں۔)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 164327 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.