تیل کی قیمتوں میں اضافے کوبنیاد
بناکر بھلے ہی ممتابنرجی مرکز سے مغربی بنگال کیلئے خصوصی پیکج حاصل کرکے
یہ سمجھ رہی ہوں کہ ان کی یہ ’بلیک میل ڈیل‘انہیں اپنی ریاست میں ایک
بارپھر سر خرو کروادے گی لیکن اصل میں یہ سیکولرازم کے خلاف حقائق کا پلندہ
کھولناہے۔مسلم نوازی کی دعویدار ممتابنرجی مدتوں سے اقلیتوں کولبھانے والے
سیاسی کھیل میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔اقلیتوں پرڈورے ڈالنے کیلئے وہ اکثر
مسلم کارڈ کھیلتی ہیں۔یہاں تک کہ ریلیوں کے دوران اپنی تقریر کااختتام ’جے
ہند‘کے ساتھ ’انشاءاللہ‘اور’خدا حافظ‘ سے کرتی ہیںلیکن ان کے یہ جملے
یانعرے اب تنقید کا نشانہ بن رہے ہیں۔ایک سینئر آئی پی ایس افسر نے مذکور ہ
الفاظ پرممتا کے خلاف مورچہ کھول دیا ہے۔دلچسپ با ت یہ ہے کہ افسر موصوف
کسی زمانے میں ممتا کی خصوصی نظر عنایت سے سرفراز تھے جس کے نتیجے میں
انھیں مرکزی حکومت سے مغربی بنگال کی نوتشکیل شدہ ریاستی حکومت کی طرف
بھیجا گیا۔
ممتا کے معتوب آئی پی ایس افسرنذرالاسلام نے اپنی کتاب کے ایک باب میں
’انشاءاللہ‘اور’خدا حافظ‘کی اس ابن الوقت سیاست کو کوساہے۔حالانکہ یہ کتاب
ابھی بازار میں دستیاب نہیں ہے اور نہ ہی انہوں نے وزیر اعلٰی موصوفہ کو
مذکورہ جملوں پر نامزد کیا ہے لیکن مصنف کے انداز بیان سے واضح ہے کہ روئے
سخن کس طرف ہے۔ذرائع ابلاغ میں شائع اطلاعات پر یقین کریں تو 21اکتوبر کو
اپنے تحریر کردہ باب’انشاءاللہ‘ خداحافظ‘میں واضح ہے کہ کس طرح سے یہ نعرے
انتخابی سیاست کا جرد بن گئے ہیں۔نذرالاسلام رقمطراز ہیں کہ ’انشاءاللہ
‘خدا حافظ‘ کہنے میں کچھ خرچ نہیں ہوتا۔ووٹ مل گئے اور مقصد حاصل کرلیا
لیکن اقتدار پر فائز لیڈر مسلمانوں کیلئے کچھ کرنے کو تیار نہیں ہیں۔وہ
کہتے ہیں کہ مذہبی مسلمانوں کیلئے ’انشاءاللہ‘ اور خداحافظ‘مبارک الفاظ ہیں
لیکن حالیہ ایام میں کچھ ’نیتا -نیتری‘ یا سیاسی قائدین اور سیاسی قائدہ
مذکورہ الفاظ کے حقیقی معنی ومطالب سمجھے بغیر اندھا دھند استعمال کررہے
ہیں جبکہ یہ حکمی طورپر قابل نفریں اور مذمت ہے۔نذرالاسلام اب تک پچاس سے
زائد کتابیں سپر د قلم کرچکے ہیں جن میں کئی کتابوں پر انہیں انعام بھی
ملاہے۔وہ اکثر اپنی تحریر وں کے ذریعے مخالفت کرتے ہوئے نظر آئے ہیں۔جیوتی
بسو اور بدھادیپ بھٹا چاریہ کے دور اقتدار میں بھی وہ اپنی اس صلاحیت کا
مظاہرہ کرچکے ہیں لیکن ممتا پر ان کانشانہ چوکنے والانہیں ہے کیونکہ وہ
وزیر اعلٰی موصوفہ کے قریب ترین سمجھے جاتے تھے۔اس سے قبل جب ممتا ریلوے کی
وزیر اعلٰی تھیں تو وہ ان کے ساتھ ایگزیکٹیو ڈائریکٹر سیکورٹی کے طورسے کام
کررہے تھے۔جب وہ بنگال کی وزیر اعلٰی نہیں تو نذر الاسلام کو اپنے ساتھ
مغربی بنگال کی ریاستی حکومت میں لے گئیں۔بہرکیف گزشتہ تین مہینے سے
نذرالاسلام خود کو بے بس سمجھنے پر مجبور ہیں۔سرکاری ویب سائٹ نے انہیں
ریاستی حکومت کے محکمہ داخلہstate Home Departmentمیںمحض او ایس ڈی
OSDیاOfficer on Special Dutyرابطہ عامہCo-ordinationکے عہدے (ابھی تعیناتی
نہیں ہوئی ہے) پردکھارکھا ہے لیکن نذرالاسلام نے داخلہ سکریٹریHome
Secretary جی ڈی گوتم G D Gautamaکویہ کہہ کر عہدہ سنبھالنے سے انکار کردیا
ہے کہ یہ ’بے ضابطہ حکم‘ہے۔وزیراعلٰی کے دفتر کو تحریر کردہ کئی خطوط میں
نذرالاسلام نے کہاکہ اے ڈی جے کاعہدہ آئی اے ایس لیڈر میں چیف سکریٹری کے
عہدے کے مساوی ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی تعیناتی کو باضابطہ کرنے
کیلئے وزیر اعلی کے دفتر میں انہیں پرنسپل سکریٹریprincipal secretary کا
عہدہ ملنا چاہئے۔اپنی نئی کتاب میں آئی پی ایس افسر نے افطار کے بیجا
استعمال پر لکھا ہے۔رمضان المبارک کے مہینے میں ممتاربنر جی روزانہ افطار
پارٹیوں میں اپنی حاضری درج کرواتی ہوئی نظر آئی تھیں۔نذرالاسلام لکھتے ہیں
کہ پابندی سے روزہ رکھنے والے دیندار مسلمان ہی افطار کے حقدار ہیں لیکن یہ
لیڈران دن بھر کھانا کھانے کے باجود افطار پارٹیوں میں پہنچ جاتے ہیں۔اس
پرپابندی عائد ہو نی چاہئے۔وہ رقمطراز ہیں کہ ودھان سبھا میں تقریر کے
دوران نیتری دعوی کرتی ہیں کہ انہوں نے مسلمانوں سے کئے گئے 90فیصد وعدے
پورے کردئے ہیں۔وہ چاہتی ہیں کہ ہر ایک شخص اس حقیقت کو تسلیم کرے اس
کامطلب صاف ہے کہ میں نے کچھ نہیں کیا ہے اور میں آپ کے لئے کبھی کچھ نہیں
کروں گی۔نذرالاسلام کا کہنا ہے کہ وقت آگیا ہے کہ ہم متحد ہوں اور اپنا سر
بلند کریں مخالفت کریں اور اپنے قانونی حقوق کا استعمال کریں۔ہم بھیک
مانگنا نہیں چاہتے۔ہمیں اپنا سراٹھا کر آگے بڑھنا چاہئے۔کتاب کے ایک دیگر
باب کا عنوان ہے دیری ورتن یا تبدیلی ‘اس میں وہ لکھتے ہیں کہ عام آدمی
کیلئے کچھ بھی نہیں بدلا ہے۔ہرکوئی نیتا نیتری کے قدموں میں
گررہاہے۔وزیراگلے انتخاب کیلئے پارٹی کیلئے پیسہ اکٹھا کرنے میں لگے
ہیں۔نوکر شاہ اپنی کرسی کی سلامتی کے فراق میں ہیں۔اس لئے عام آدمی کی
زندگی میں حقیقی تبدیلی نہیں آئی ہے۔اس کے ساتھ ہی نذرالاسلام تنبیہ کرتے
ہیں کہ عوام کوئی رحمدلی نہیں دکھائیں گے۔ایسا سوچنا غلط ہے کہ تبدیلی نیتا
نیتری کی وجہ سے آئی ہے۔عوام پھر تبدیلی چاہتے ہیں اور ناکام رہنے والے
قائدین کو وہ اقتدار سے اکھاڑ پھینکیں گے۔
واضح رہے کہ پیٹرول کی قیمتوں میں رول بیک کی امید ماند پڑگئی ہے کیونکہ
ناراض ممتا نے آج پلٹی کھائے ہوئے اپنا لہجہ بدل دیا تھا۔اس کمال کے پس پشت
مغربی بنگال کی حکومت کو ملنے معقول اقتصادی پیکج کرفرماہے۔ترنمول کانگریس
کے 8پارلیمانی اراکین وفد کی وزیر اعظم سے مہنگائی اور پیٹرول کی قیمتوں پر
ملاقات طے ہوچکی ہے جبکہ گزشتہ دنوں ترنمول کانگریس کی سربراہ ممتا بنرجی
نے پٹرول کی اضافہ شدہ قیمت واپس نہیں لی تو ان کی پارٹی حکومت سے اپنی
حمایت واپس لے لیگی۔اس سے حکومت میں ہلچل مچی ہوئی تھی۔اسی دوران ممتابنرجی
نے اپنی ریاست کیلئے 19ہزار کروڑ روپے کے خصوصی اقتصادی پیکج کے بارے میں
وزیر خزانہ پرنب مکھرجی سے ملاقات کررہی ہیں۔اشارہ یہی مل رہاہے کہ ممتا
کوخصوصی پیکج مل سکتاہے۔شاید یہی وجہ رہی ہوگی کہ آج دہلی میں ترنمول کے
سینئر لیڈر بندو یادھیائے بدلے بدلے سے نظر آئے۔انہوں نے ذرائع ابلاغ سے
کہا کہ وہ لوگ پٹرول معاملے میں محض اپیل کرنے جارہے ہیں فیصلہ وزیر اعظم
کو کرنا ہے۔اس معاملے کو زیادہ طول دینے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ملک کو اس
وقت ایک مضبوط حکومت کی ضرورت ہے۔ |