عمران ،پرستار اور سیاسی ورکرز

تحریک انصاف کے چئیرمین جناب عمران خان کا یہ بیان بڑا حوصلہ افزا ہے کہ تحریک انصاف کسی کی میراث نہیں یہاں سب کچھ میرٹ پہ ہوگاورنہ پاکستان ہی کیا جنوبی ایشیاءکے اکثر ممالک میں سیاست موروثی( اسے میراثی نہ پڑھا جائے)پیشہ ہے۔ہر حکمران کی یہ کوشش اور خواہش ہوتی ہے کہ اس کا بیٹا یا بھتیجا اس کی زندگی ہی میں اس کے ساتھ اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے لگے۔سوائے قائد اعظم محمد علی جناح کے اس ملک کا ہر حکمران خواہ وہ فوجی ہو یا سیاسی سیاست کی میراث چھوڑ کے مرا۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان میں سیاست چند گھروں کی رکھیل بن کے رہ گئی۔وہ خاندان شام چوراسی گھرانوں کی طرح اتنے محترم اور مقدس پینٹ کئے گئے کہ ان کے خلاف ایک لفظ بولنا گویا نعوذباللہ توہین رسالت کے زمرے میں شمار کیا جانے لگا۔نتییجتاََ جو بھی مرا اسے شہید قرار دے دیا گیا۔اب ظاہر ہے شہیدوں کے ساتھ مذاق نہ تو ہمارے مذہب میں جائز ہے نہ معاشرہ اسے پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔پاکستان اب شہدا کی دھرتی ہے کہیں شہید آمریت دفن ہے تو کہیں شہید جمہوریت،کہیں شہید کرپشن تو کہیں شہید عشق۔وہ جو غریب واقعی شہید کہلانے کے مستحق تھے وہ سنا ہے فرشتوں کو اپنا آبائی وطن بتاتے ڈرتے ہیں کہ کہیں ان کی جنیون شہادت کو بھی پروپیگنڈے کی بنا پہ حاصل کردہ شہادت کے زمرے میں نہ ڈال دیا جائے۔

عمران بنیادی طور پر پاکستان کی سیاہ سیاست کا کردار ہے ہی نہیں۔وہ تو ایک کھلاڑی تھا۔جسے اپنی صلاحیتوں پہ بھروسہ اور اپنے عزم پہ یقین تھا۔شاید ون مین آرمی بھی۔اس طرح کا انسان اپنے ساتھیوں سے زیادہ اپنی صلا حیتوں پہ بھروسہ کرتا ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ ورلڈ کپ کے حصول کے بعد کی جانے والی تقریر میں عمران ہی عمران تھا اور اس کے ساتھیوں کا کہیں کوئی ذکر نہ تھا۔عمران کی شاندار قیادت نے پاکستان کوورلڈ کپ جتوایا۔عمران نے کہا یہ اس کا خواب تھا۔اسے اس خواب کی تعبیر ملی تو اس نے اپنی والدہ کی یاد میں کینسر ہسپتال تعمیر کرنے کا خواب دیکھنا شروع کر دیا۔ناممکن کام تھا۔ساری دنیا کے ماہرین اس بات پہ متفق تھے کہ جنوبی ایشیاءکے اس پسماندہ ترین ملک میں اتنا جدید ہسپتال قائم کرنا تو دور کی بات اس کے بارے میں سوچنا بھی فضول ہے لیکن عمران کا آہنی عزم اور پاکستانیوں کی عمران کے ساتھ بے پایاں محبت نے یہ ناممکن بھی کر دکھایا۔نمل یونیورسٹی جو کہ عمران کا ایک تعلیمی منصوبہ ہے اسے بھی آپ اسی تناظر میں دیکھ سکتے ہیں۔

عمران جیسا کہ پہلے عرض کیا سیاست دان تو اب بنا ہے ،بنیادی طور پر کھلاڑی ہے۔کھلاڑی مقصد کی لگن سے کھیلتا ہے۔جیت ہی اس کا مطمع نظر ہوتا ہے۔اسی طرح کھلاڑی جوں جوں اپنے کیرئر کی بلندیوں کی طرف محو پرواز ہوتا ہے۔اس کے مداح یا پرستاربھی توں توں بڑھتے جاتے ہیں۔جولمحہ بہ لمحہ اس کی زندگی سے باخبر رہنا چاہتے ہیں۔کھیل سے کینسر ہسپتال کاسماجی فلاحی مشن اپنانے والے عمران نے بہت خوبی سے اپنے پرستاروں کی تعداد میں اضافہ کیا۔پرستاروں کا یہی اثاثہ لئے اب وہ سیاست میں ہے۔یہ نوجوان جوش کا سمندر ہیں۔فیس بک پہ ان کے جذبات دیکھ اور پڑھ کے لگتا ہے کہ ان کے بس میں ہو تو یہ راتوں رات جادو کی چھڑی سے عمران کو صدر یا وزیر اعظم نہیں ملک کا بادشاہ بنا دیں۔وہ عمران کے بارے میں یہ بھی سننا نہیں چاہتے کہ عمران کا نام عمران ہے اور وہ زمان پارک لاہور کا رہائشی ہے اور اس کا سینکڑوں کنال کا ایک گھر اسلام آباد میں ہے۔اوپر بیان کی گئی باتوں میں ایک بات بھی جھوٹ نہیں اور نہ ہی کوئی بری بات ہے۔لیکن کسی کے دیوتا کا نام لینا بھی بجاری کے نزدیک تو توہین ہی تصور کی جاتی ہے۔

اس رویے کا مطلب یہ ہوا کہ ہم ایک اور الطاف ،ایک اورنواز اور ایک اوربے نظیر کا اپنے ملک کی سیاست میں اضافہ کرنے جا رہے ہیں۔خدا گواہ ہے کہ ہمیں اسی دیوتا بنانے کی عادت ہی نے پاتال کی گہرائیوں میں اتارا ہے۔کاش ہم ایوب کو دیوتا نہ بناتے۔کاش بھٹو ایک انسان ہی رہتا۔کاش بے نظیر دیوی نہ ہوتی۔کاش نواز شریف اللہ کا اوتار نہ ہوتا۔کاش الطاف حسین کے چاہنے والے اسے لوگوں کو زندگی بخشنے اور زندگی چھیننے کا اختیار نہ دیتے تو آج ہم بھی انسان ہوتے اور ہمارے ساتھ بھی پجاریوں اور غلاموں کی بجائے انسانوں والا سلوک ہوتا۔ہم مسلمان ہیں اور مسلمان کے لئے میرے نبی ﷺ کی زندگی کے علاوہ کسی کی زندگی قابل تقلید نہیں۔یا پھر ان کی جنہوں نے براہ راست آپ سے فیض حاصل کیا۔کیا ایسا ممکن ہے کہ میں کسی جلسے میں کھڑے ہو کے نواز شریف سے ان کے بڑھتے ہوئے کاروبار کے بارے پوچھ سکوں۔زرداری صاحب سے سرے محل کا احوال جان سکوں۔الطاف حسین سے ان کے لندن کے قیام و طعام کے اخراجات کے بارے معلوم کر سکوں۔ان کے غلام اور پجاری میری تکہ بوٹی کر دیں گے۔کیا یہی بات میں عمران کے جلسے میں دھرا سکتا ہوں۔اگر نہیں تو پھر مجھے ان کے درمیان کا فرق سمجھا دیں۔ہمیں دیوتاﺅں کی نہیں قائدین کی ضرورت ہے۔یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ بھیڑوں کا قائد بھیڑ ہی ہو سکتی ہے اور بھیڑیوں کا قائد بھیڑیا۔

اگر مدینہ کی ایک محفل میں حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے ان کے لمبے کرتے کے بارے میں سوال ہو سکتا ہے تو لیڈروں سے ان کے بارے میں سوال پہ اتنی آفت کیوں؟اس لئے کہ اس وقت لوگ رعایا ضرور تھے لیکن غلام اور پجاری نہیں۔عمران کے مزاج کا اکھڑ پن مشہور ہے نہلے پہ دہلا اس کے یہ پجاری ہوں گے۔یہی رویہ رہا تو فسطائیت کا ایک نیا طوفان اٹھے گا اور بس۔غلاموں اور پجاریوں کو کل پھر کسی نئے عمران کی تلاش ہو گی۔اگر آپ چاہتے ہیں کہ یہی عمران آپ کے دکھوں کا مداوا کرے تو عمران کو انسان رہنے دیں۔اسے مشورہ دیں کہ وہ اپنے غصے اور اکھڑ پن پہ قابو پائے اور آپ بھی اپنی اداﺅں پہ ذرا غور فرمائیں کہ آپ کے پرستانہ رویے لوگوں کو آپ کے قریب نہیں لا رہے آپ سے دور کر رہے ہیں۔میڈیا نے پاکستانی سیاست میں عمران کو ایک مثبت رحجان کے حامل انسان کے طور پہ ابھارا ہے۔آپ کا رویہ میڈیا کے پردھانوں کو خواہ مخواہ آپ کے خلاف کر رہاہے۔یاد رکھیے سیاست میں ایک دشمن سو دوستوں پہ بھاری ہوتا ہے اور جس دشمن کے ہاتھ قلم بھی ہو اس سے دشمنی میں تو عزت سادات کے بھی جانے کا ڈر رہتا ہے۔۔مجھے یقین ہے کہ اس کالم کے بعد مجھے بھی شاید غلاموں اور پجاریوں کےبے پناہ تبرے سننے کو ملیں لیکن تبروں کے خوف سے سچ بولنا تو ترک نہیں کیا جا سکتا۔

عمران کے پرستاروں سے میری خوف اور دہشت سے لرزتی گذارش ہے کہ جناب پرستش بہت ہو سکی اب اسے چھوڑئیے اور سیاسی ورکرز بننے کی کوشش کیجئیے ورنہ کل انتخابات کے بعد کسی اخبار کی یہ سرخی ضرور ہوگی کہ بے چارہ عمران ! اپنے نابالغ پرستاروں کے ہاتھوں لٹ گیا۔
Qalandar Awan
About the Author: Qalandar Awan Read More Articles by Qalandar Awan: 63 Articles with 59158 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.