دامن پہ کوئی چھینٹ ، نہ خنجر پہ کوئی داغ

اپنے یہ ذوالفقار مرزا بھی بڑی ” پہنچی“ ہوئی چیز ہیں۔محض اپنا رستہ صاف کرنے کے لئے میڈیا پر آ کر کہا کہ الطاف حسین کے خلاف ثبوتوں کے بریف کیس بھر کر لے جا رہا ہوں ۔ مجھے روکنے اور ثبوت چھیننے کی کوشش کی جائے گی ۔ اب بھلا بیچاری پی۔پی۔پی انہیں روک اور ثبوت چھین کر ”آ بیل مجھے مار“ پر عمل کیسے کرتی ۔لیکن مرزا صاحب نے پھر بھی ”حفظِ ما تقدم“ کے طور پر اپنے دوست اور صوبائی وزیر شرجیل میمن کو ساتھ لے لیا کہ ایک سے دو بھلے ۔شرجیل میمن نے بھی حقِ دوستی ادا کرتے ہوئے اُف تک نہیں کی اور اپنی وزارت داؤ پر لگا بیٹھے ۔اونچے ایوانوں کے باسی دو چار روز تو خاموش رہے لیکن جب ایم۔کیو۔ایم نے یہ ثابت کر دیا کہ مرزا اور میمن نے ایک ہی جہاز میں ، ایک دوسرے کے پہلو میں بیٹھ کر سفر کیا ہے تو محترم زرداری صاحب نے بھی متحدہ کو یقین دلا دیا کہ شرجیل میمن کے خلاف کاروائی ہو گی ۔ آخری خبریں آنے تک یہ پتہ نہیں چل سکا کہ کاروائی ”پہلوِ یار“ میں بیٹھنے پر ہو گی یا ایک ہی جہاز پر سفر کرنے پر ؟ دوسری طرف جب بد زبان ، بد کلام لاریب بے باک ذوالفقار مرزا سے یہ سوال کیا گیا کہ انہوں نے ”اپنے دوست“ کو گرفتارِ بلا کیوں کر دیا ؟ تو کرارا جواب آیا کہ اگر اکٹھے بیٹھے یا سفر کرنے پر جواب طلبی ہوتی ہے تو یہ جواب طلبی تو سب سے پہلے میری اہلیہ محترمہ فہمیدہ مرزا (سپیکر قومی اسمبلی ) کی ہونی چاہیے جن کے ساتھ میں گھر میں بھی ہوتا ہوں اور پہلو میں بھی بیٹھتا ہوں ۔اب گیند بلکہ فُٹ بال پی۔پی۔پی کے کورٹ میں ہے۔دیکھیں جوابِ آں غزل کے طور پر پی۔پی۔پی کیا کہتی ہے یا با الفاظِ دیگر کیا ”ٹامک ٹوئیاں“ مارتی ہے۔یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اگر یہی کیس منصفِ اعلیٰ کی عدالت میں پیش ہو یا وہ ”از خود نوٹس“ لے لیں تو یا تو دونوں بری یا پھر دونوں گئے ۔۔۔۔ حیدر عباس رضوی کہتے ہیں کہ مرزا کے مُنہ کیا لگنا کہ اس نے تو اپنی بیوی کو بھی نہیں بخشا۔بھولے رضوی صاحب کو کب یقین آئے گا کہ مرزا صاحب اپنے سمیت کسی کو بھی بخشنے کو تیار نہیں لیکن اس کے باوجود بھی کچھ سیاست دانوں اور ”افلاطونی لکھاریوں“ کو یقین ہے کہ مرزا صاحب اپنے ”یارِ غار “ کا لکھا اور ترتیب دیا گیا کھیل انتہائی خوبصورتی سے کھیل رہے ہیں تاکہ ”پیپلز پارٹی کے سندھ“ سے متحدہ کے شرپسندوں کی صفائی بلکہ صفایا کر دیا جائے۔بات تو دل کو لگتی ہے کہ ”یارِ غار“ سے پچھلے ساڑھے تین سالوں میں تقریباََ تمام سیاسی بزرجمہروں کو تگنی کا ناچ نچایا اور اب بھی سبھی بھنوروں کی مانند طوافِ شمع میں دل و جاں سے مصروف ہیں۔انہیں کہنے کو جی چاہتا ہے کہ
دامن پہ کوئی چینٹ ، نہ خنجر پہ کوئی داغ
تُم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو

لیکن جب مرزا صاحب کی آنیاں جانیاں دیکھتے ہیں تو عقل یہی کہتی ہے کہ یہ ڈرامہ نہیں کہ ایسا کرنے سے شاید متحدہ تو کونے میں لگ جائے لیکن مرزا صاحب کے بیانات سے پپپلز پارٹی کو جو نقصان پہنچ رہا ہے وہ نا قابلِ تلافی ہے ۔اب پی۔پی۔پی والے اتنے بھی عقل سے پیدل نہیں کہ دس بیس سیٹیں ہتھیانے کے چکر میں بہت کچھ گنوا بیٹھیں۔

مجھے یقین ہے کہ میں اب جو کچھ لکھنے جا رہی ہوں اس پر بہت سی جبینیں شکن آلود ہو جائیں گی کہ ہمارے سیاست دان ہی نہیں بلکہ عوام بھی ہمیشہ سے چڑھتے سورج کو سلام کرتے رہے ہیں لیکن کیا کروں کہ دماغ کا خناس مجبور کر رہا ہے کہ لکھ دوں کہ مجھے عمران خاں ، ذوالفقار مرزا کے مماثل نظر آتے ہیں۔ویسے مجھے مماثلیں ڈھونڈنے کا مرض عرصہ ¿ دراز سے لاحق ہے اور اس موذی مرض کے ہاتھوں میں کئی بار اپنوں ، بیگانوں سے ٹھیک ٹھاک ”عزت“ بھی کروا چکی ہوں لیکن ۔۔۔
”مرض بڑھتا گیا ، جوں جوں دُعا کی“
کے مصداق جاننے والوں نے اس پر کان دھرنے چھوڑ دیئے ہیں ۔ اس لئے دُعا ہے کہ
بک رہی ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے ، خُدا کرے کو ئی

اب دیکھیے ناں کہ عمران خاں اور ذوالفقار مرزا دونوں ہی بے باک اور سیماب پا ہیں ۔۔۔۔ دونوں سارے زمانے کے دشمن ہیں ۔۔۔۔ دونوں کی دوستی اور دشمنی کا کچھ پتہ نہیں چلتا ۔۔۔۔ دونوں الطاف حسین کے خلاف ثبوتوں کے بریف کیس بھر کر لندن یاترا کو گئے ۔۔۔۔ دونوں کو بہت بعد میں پتہ چلا کہ سیاست دان تو کرپٹ ہیں ۔۔۔۔ دونوں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے محبوب ترین ہیں ۔۔۔۔ دونوں نے اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ دیا ۔۔۔۔ دونوں جان ہتھیلی پر رکھ کر کرپشن کے خاتمے کے لئے میدانِ عمل میں اترے ۔۔۔۔ ذوالفقار مرزا نے کئی دفع نائین زیرو اور گورنر ہاؤس (سندھ) کی یاترا کی ۔وہ کئی بار ن ، ق لیگ پر گرجے برسے۔۔۔ دوسری طرف عمران خاں کو نواز لیگ کرپٹ نظر آئی تو جھنڈا لے کر پرویز مشرف اور متحدہ کے جلسے میں اُسی جگہ جا پہنچے جہاں انہوں نے گزشتہ دنوں عظیم الشان جلسہ کیا ۔مشرف کا ریفرنڈم میں بھر پور ساتھ دیا لیکن پھر پتہ نہیں کیا ہوا کہ انہیںوہی مشرف عامر نظر آنے لگا اور وہ قدم بقدم کرپٹ نواز لیگ کے ساتھ چلنے لگے ۔ ہر موقعے پر ان کا ساتھ دیا اور احتجاجی ریلیوں میں بھر پور شرکت کی لیکن پھر اچاک انہیں یاد آیا کہ نواز لیگ تو ”کرپٹ“ سیاست دانوں کی جماعت ہے ۔ ق لیگ کے خلاف ہمیشہ بولتے رہے لیکن لاہور کی قومی اسمبلی کا ضمنی انتخاب ق لیگ کے ساتھ مل کر لڑا۔ ایم۔کیو۔ایم کو ”قائد“ سمیت تباہ و برباد کر دینے کا عزم لے کر اٹھے لیکن پھر اچانک خاموش ہو گئے اور یہ ”چُپ کا روزہ“ آج تک قائم ہے ۔۔۔۔ میں نے محض چند مماثلتیں بیان کی ہیں باقی اپنے قارئین پر کہ وہ بھی تھوڑی سی دماغی ورزش کرکے اور کئی مماثلتیں تلاش کر لیں گے ۔۔۔۔ اور ہاں اگر میرا لکھا درست نہیں تو ازراہِ کرم مجھے بتلائیے گا ضرور تاکہ میں بھی اپنا ”قبلہ“ درست کر سکوں۔
Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 893 Articles with 642862 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More