ملک میں سیاسی درجہ حرارت کپتان
کے میدان کے بعد کافی گرم ہے۔تحریک انصاف،مسلم لیگ ن اور پی پی باہم دست و
گریباں نظر آتی ہیں۔ن لیگ فکر میں ،پی پی ذکر میں اور تحریک انصاف وجد میں
ہے۔لاہور کے جلسے کے بعد تحریک انصاف ایک نئے روپ میں سامنے آ ئی ہے اور اس
نے خود کو ایک ابھرتی ہوئی سیاسی قوت کے طور پر متعارف کروایا ہے۔اک سیاسی
ہلچل اور چلاچل ہے۔کپتان نے کمان سنبھال لی ہے اورسیاسی فصلی بٹیرے بھی
تیار بیٹھے ہیں ۔سیاسی فصلی بٹیروں کا تعلق اقتدر کی فصل کے ساتھ ہوتا
ہے۔جس کے پاس اقتدار ہے یا جسے اقتدار ملنے کی امید ہو یہ بٹیرے اسی کے
ساتھ ہیں ۔اب تک کی ملکی سیاسی تاریخ اس کی گواہ ہے۔ ابتک کچھ مقامی
سیاستدان تحریک انصاف کے ساتھ ِانصاف،، کرنے کیلیے اس میں آ چکے ہیں اور
کچھ بڑے بڑے سیاستدان پر تول رہے ہیں یا پھر کسی کے اشارہ ابرو کے منتظر
ہیں ۔ اب کپتان کا ٹیم سلیکٹ کرنے کا وقت آ گیا ہے۔یہی کپتان کا امتحان
ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنے نظریاتی افراد کو جو گذشتہ پندرہ برس سے اس کے
ساتھ ڈٹے ہوئے تھے کا ہی انتخاب کرتا ہے یا پھر چلے ہوئے کارتوسوں کو ان پر
مسلط کرتا ہے۔ اور پھر قوم پر بھی مسلط کرنے کی کوشش کرتا ہے۔یہ سوال اپنی
جگہ اہم ہے کہ ترینوں سے لیکر قریشیوں تک سب کے سیاسی نظریات تحریک انصاف
کے لاہور کے جلسے کے بعد ہی تحریک انصاف سے کیوں ملنے لگے ہیں ۔ کیا تحریک
انصاف نے راتوں رات کوئی منشور یا نظریہ بدلہ ہے۔ کیا یہ سیاسی فصلی بٹیرے
جنرل ضیاءسے لیکر ہر حکمران کے ساتھ نہیں رہے یا رہنے کی کوشش کرتے رہے؟یہ
ملک میں اب تک کیا تبدیلی لائے ہیں ؟ انہوں نے قوم کے کن زخموں پہ مرہم
رکھا ہے؟ یہ خود تو ارب کھرب پتی بن گئے اور قوم بھوک، افلاس اور جہالت سے
دوچار تھی اور ہے۔ عوام کے رنگ زرد اور ان کے لال کیوں ہیں ؟
کتنا بدل گیا ہے تیرے شہرِ زر کا رنگ
کہ بچپن اداس اور دکھی ہیں جوانیاں
کہیں یہ عوم ہی کے لوٹے ہوئے مال کا کمال تو نہیں ؟اب یہ مزید مال کے لیئے
نیا جال لے کر کپتان کو گھیرا ڈالنے کا کھیل کھیلنے کی تاک میں ہیں ۔عمران
کہتا ہے کہ میں بہت چالاک ہوں ۔ میں چیس کاپلیئر ہوں مگر اسے یہ بھی یاد
رکھنا چاہیئے کہ یہ فصلی بٹیرے میس کے بڑے پکے پلیئر ہیں ۔ کچھ سیاسی
پارٹیاں جن کو تحریک انصاف ایک سیاسی قوت کے طور پر ابھرتی ہوئی کھٹکتی ہے
وہ دانستہ اپنے کارندے اور ایجنٹ اس میں شامل کرنے کی کوشش کریں گی اور اس
جماعت کو بلیک میل کرنے اور اس کا سیاسی اور انقلابی ایجنڈا ہائی جیک کرنے
کی بھر پور کوشش ہو گی۔ کچھ لوگ تو پہلے ہی کہہ رہے ہیں کہ کپتان باونڈری
پر کیچ آؤٹ ہو گا۔ہماری نگاہ میں کپتان اس وقت واحد سیاستدان ہے جو ہائی
مورل گراونڈ پہ کھیل رہا ہے اس کو اب مزید صبر سے کام لینا چاہیئے اور اسے
اپنے مخلص کارکنوں کو ہی آگے لانا چاہیئے جلد بازی نہیں کرنی چاہئے اس
الیکشن میں نہیں تو اگلے میں سہی۔ پندرہ سال کی کمائی کا خیال کرنا ہو گا ۔ان
روائیتی سیاستدانوں سے کنارہ ہی بہتر ہے۔یہ اپنی عادت سے باز نہیں آئیں گے۔
وارث شاہ نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ وارث شاہ نہ عادتاں جاندیاں اے۔
تحریک انصاف کو چاہئے کہ وہ اس حوالے سے کوئی واضح لائحہ عمل طے کرے، اور
اپنے حواس پر قابو بھی رکھے کہ گزشتہ چند دنوں سے عمران اور جماعت کا رویہ
ذرا تفاخرانہ سا ہے۔عاجزی بہترین حکمت عملی ہے اور اسی میں بڑائی بھی ہے۔
غرور ذاتی سرور دے سکتا ہے اور کچھ بھی نہیں ۔ صرف اس جلسے کی بنیاد پر یہ
انداز تفاخر ٹھیک نہیں ۔ہم نے اپنی آنکھوں سے اس سے بھی بڑے سیاسی جلسے
دیکھے ہیں مگر جب الیکشن کا وقت آتا ہے تو نتائج اس کے برعکس نکلتے ہیں ۔
مزید یہ کی اپنی جماعت کی سیاست کو صرف ایک نعرے´(کہ سب سیاستدان اپنے
اثاثوں کا اعلان کریں) تک محدود نہ رکھے بلکہ تمام قومی مسائل کے حل کا ایک
جامع پلان آف ایکشن پیش کرے ۔اور جہاں تک اثاثو ں کا تعلق یہ پہلے اپنے
موجودہ اثاثوں کا اعلان کرے اور انہیں اپنی جماعت کی ویب سائیٹ پر جاری کرے
بلکہ اپنی ایگزیگٹو باڈی کے افراد کے اثاثے بھی ویب سائیٹ پر پبلش کرے۔ اور
جنوبی پنجاب میں لیہ کے قریب 560 کنال زمین کی قیمت جو پچاس ہزار ظاہر کی
ہے اس کی قابل تشفی وضاحت پیش کرے۔ الیکشن کمیشن کو بھی چاہیئے کی ارکانِ
اسمبلی کے اثاثوں کی پڑتال کرے ورنہ ان کا تو کوئی مقصد ہی نہیں ۔ اور تمام
ارکان اسبملی کے اثاثے اور ٹیکس گوشوارے الیکشن کمیشن کی ویب سائیٹ پہ جاری
کرے۔ اگر یہ عوامی نمائندے ہیں تو عوام کو ان کے بارے میں معلوم ہونا
چاہئے۔کہ جب یہ عوامی نمائندے نہیں تھے تو کیا تھے اور بعد میں کیا بن گئے۔؟
تحریک انصاف ملک میں جو سیاسی انقلاب اور سونامی لانا چاہتی ہے خدا کرے کہ
وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو مگر ہمارا خیال ہے کہ موجودہ کرپٹ انتخابی نظام
(اس کے لئے ایک الگ کالم درکار ہے )کی موجودگی میں یہ ممکن ہی نہیں ۔ یہ
انتخابی نظام کرپٹ سیاستدانوں کو تحفظ دیتا ہے اور وہ اس نظام کو تحفظ دیتے
ہیں ۔اس نظام کے تحت پچاس الیکشن بھی ہو جائیں تو کوئی انقلاب نہیں آئے
گا۔یہ سٹیٹس کو کا نظام ہے جو صرف سرمایا داروں ، سرداروں ، جاگیرداروں اور
زرداروں کو سوٹ کرتا ہے۔اس کے تحت صرف سیاسی الیٹ ہی اقتدار کی کرسیوں پر
قابض رہے گی اور عوام کا خون چوستی رہے گی یہ انتخاب تو ان کرپٹ سیاتدانوں
کو پانچ سال کے لیئے لوٹنے کا لائسنس دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ یہ ہوں یا وہ
سب کہتے ہیں کہ اس نظام کو ڈی ریل نہیں ہونے دینگے۔ کاش عمران خان اور
تحریک انصاف پہلے نظام انتخاب بدلنے کا نعرہ لگاتی اور پھر انتخاب کروانے
کی بات کرتی قلندر وقت علامہ اقبال اس بے ہودہ نظام کے لئے کہا تھا کہ۔
یہ بھی سرمایا داروں کی ہے اک جنگِ زرگری |