قدرت کاقانون ہے کہ جب بھی کوئی
خود کو ناقابل تسخیر قوت سمجھنے لگے، تو فطرتِ ازل وابد اسے ایک حد تک مہلت
نامی رسی سے باندھ کے چھوٹ دیتی ہے اور پھر عین اس وقت کہ جب وہ خدائی کا
سکہ جمانے کی ناکام کوشش کرتا ہے، تو پھر فطرت کا نظام حرکت میں آجاتا ہے
اور رسی کھینچتی ہے تو پھر وہ ہوجاتا ہے، جس کا تصور بھی نہیں ہوتا ۔قندھار
مجلس شوریٰ کے سربراہ بڑے نوکر کے چھوٹے بھائی ولی کرزئی اپنے محافظ سردار
احمد کے ہاتھوں قتل ہوئے اور یہ اس وقت ہوا کہ جب جنرل ڈیوڈ پٹریاس بیان
دیتے ہیں کہ ”طالبان کے حملون میں کمی آئی ہے“۔افغانستان میں اتحادی افواج
کے اس سابق سربراہ جنرل ڈیوڈ پیٹریاس اور پل بھر کی خبر پہ نظر رکھنے کے
دعویداروں کو کوئی ایسا آئینہ میسر آجاتا کہ جس میں مئی اور جون کے مہینوں
میں طالبان کے 3127حملوں میں 2272فوجی ٹینک،اینجر زاور سپلائی گاڑیاں، جو
مکمل طور پراور بنیادی نقصانات سے دو چار ہوئیں اور 2 ماہ میں20سے زائد
ہیلی کاپٹر اور طیارے بھی تباہی کی نذر ہوئے، وہ اس آئینے میں دکھائی دے
سکتے ۔اکیسویں صدی کے سینے میں خنجر گھونپنے والوں کو اپنا بھی مسلسل لہو
رستا نظر آتا۔دوسروں کی تہذیب کے حسن وجمال کو پامال اور انسانی قدروں کو
روندنے والے کا ساتھ دینے والوں کے ساتھ ہمیشہ امریکا نے بے وفائی کی ہے۔
انصاف کے دعویدار امریکا کے ٹون ٹاورز زمین بوس ہوئے ۔3ہزار انسانوں کی
ہلاکت ہوئی ۔جس پر جارج ڈبلیو بش نے دہشت گردی کی نئی اصطلاح متعارف کرواکر
اسلامی ممالک پر دہشت گردی کا بے حقیقت الزام لگا دیا۔اور پھرافغانستان میں
اپنی پوری قوت کے ساتھ داخل ہوا اور اس قوم سے ٹکر لی ،جو جنگ،لڑائی،مرنا
اور مارنا جیسے الفاظ سے عملی طور پر واقف ہی نہیں، بلکہ انسانی معاشرے کی
طویل مسافتوں کے ساتھ ساتھ جنگ ،لڑائی،لڑنے اور مرنے کے عملی کاموں میں
شریک ہوچکے تھے۔ جنہوں نے روس جیسی وقت کی سپر پاور کو چھوٹی چھوٹی ریاستوں
میں تقسیم ہونے پر مجبور کردیا۔کہتے ہیں تہذیبیں صدیوں میں پر وان چڑھتی
ہیں اور سماج کے ضابطے،سلیقے اور قرینے زمانوں میںتخلیق ہوتے ہیں ۔انہی
پروان چڑھتی تہذیبوں کو دہشت گردی کے نام پہ تہ تیغ کرنے والے امریکا نے
کئی بار افغانستان سے فوجی انخلاءکااعلان بھی کیا، مگر قدرت کو منظور کچھ
اور ہے شاید!
خیر بات کہیں دور نکل گئی ۔ذکر چل رہا تھا حامد کرزئی کے بھائی ولی کرزئی
کے حالیہ قتل کا ۔ولی کرزئی پر اس سے پہلے بھی 10حملے ہوچکے ہیں اور اب ان
کا اپنے ہی حفاظتی عملے کے انچارج کے ہاتھوں قتل یہ بتاتا ہے کہ اب وہ وقت
قریب ہے جب امریکا اپنی اصل چہرہ کرزئی کو دکھائے گا۔امریکاکی ہمیشہ سے
پالیسی رہی ہے کہ USEاینڈTHROW۔ اب پے درپے حملوں کے بعد ولی کرزئی کی
ہلاکت سے یہ پیغام کرزئی کو مل جانا چاہیے۔ افغانستان کے اداروں پر یکے بعد
دیگرے نیٹو فورسز کی جانب سے کیے جانے والے حملوں کی وجہ سے کرزئی انتظامیہ
نے سخت برہمی کا اظہار بھی کیا ۔کرزئی انتظامیہ کے امریکا سے تحفظات اس بات
کا پتہ دیتے ہیں کہ اب موجودہ کٹھ پتلی افغان حکومت اور واشنگٹن کے درمیان
باہمی اعتماد کی وہ پہلے والی فضا برقرار نہیں رہی ۔اس کی ایک واضح دلیل
کرزئی انتظامیہ کی جانب سے بار ہا طالبان رہنماﺅں کو مذاکرات کی دعوت دینا
ہے ۔
افغان امور پر گہری نگاہ رکھنے والے تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ولی کرزئی
کا حالیہ قتل جہاں افغان حکومت پر طالبان کی جانب سے دباﺅ میں اضافے کا
باعث بنے گا ،وہیں کابل اور واشنگٹن کے درمیان کشیدگی کو طول دے گا۔دوسری
جانب قتل کے اس واقعے سے افغان اداروں کے اندر طالبان کی موثر رسائی اور
مضبوط گرفت کا اندازہ لگانابھی مشکل نہیں۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران اس نوع
کے بیشترواقعات پیش آچکے ہیں ،جن میں قندھار جیل سے سرنگ کے ذریعے سے اہم
طالبان کمانڈروں کا فرار ہونا سرفہرست ہے ۔موجودہ حالات اور گزشتہ سات آٹھ
ماہ کے مجموعی منظر نامے کو دیکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ امریکا افغان جنگ
ہار رہا ہے ۔9/11کے بعد ایک منظم منصوبے کے تحت جو خواب لے کر کہساروں کی
سرزمین پر اترا تھا ،وہ اب تیزی سے چکنا چور ہورہے ہیں۔ بدحواس امریکا اپنی
یہ جنگ پڑوسی ملک پاکستان کے سر تھوپ کر واپسی کی راہ لینا چاہتا ہے ۔ضرورت
اس امر کی ہے موجودہ حالات میں پاکستان کی قیادت انتہائی سنجیدگی اور
معاملہ فہمی کے ساتھ اپنے قومی مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے امریکا سے کوئی
بھی بات چیت کرے ،کیونکہ پاکستان کی خودمختاری کی بقا کا راز صرف اور صرف
اپنے قومی مفاد کے تحفظ میں مضمر ہے، ورنہ نام نہاد انسانی حقوق کا نگہبان
،تہذیب وتمدن کا پشتبان اور آزادی وانصاف کا ترجمان حامد کرزئی پر حملوں
اور ولی کرزئی کے قتل پر ،پر اسرار خاموشی اختیارکرنے کی طرح پاکستان کے
ساتھ بھی منافقانہ رویہ روا رکھے گا۔ |