ذوالفقارمرزا کی لندن یاترا

سابق وزیر داخلہ سندھ ذوالفقار مرزا کی ایم کیو ایم کی قیادت کے خلاف اقدامات کے لیے لندن روانگی نے سندھ کی سیاست میں زبردست ہلچل پیدا کردی ہے۔ مرزا کی لندن میں سرگرمیوں پر پیپلزپارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے مابین اختلافات ایک مرتبہ پھر کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ اس حوالے سے سابق صوبائی وزیر کو بیرون ملک روانگی کے موقع پر سرکاری پروٹوکول دینے پر ایم کیو ایم نے قومی اسمبلی سے واک آؤٹ بھی کیا۔

دوسری جانب کشیدہ سیاسی ماحول میں ہونے والے سندھ اسمبلی کے اجلاس میں متحدہ قومی موومنٹ، صدر اور الطاف حسین پر الزامات کے خلاف متفقہ قرار داد منظور کروانے میں کامیاب ہوگئی ہے تاہم پی پی ارکان کے احتجاج کے خدشے کے پیش نظر قرار داد سے ذوالفقار مرزا کا نام خارج کردیا گیا تھا۔جبکہ صدر زرداری نے متحدہ قومی موومنٹ کے وفد کو یقین دہانی کرادی ہے کہ پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت کاروائی کی جائے گی۔ ایم کیو ایم نے مرزا کے بیانات اور شرجیل میمن کے دورہ لندن کے حوالے سے اپنے تحفظات سے صدر کو آگاہ کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ان کے خلاف کاروائی عمل میں لائی جائے۔ جس پر پی پی کے شریک چیئرمین کا کہنا تھا کہ مرزا کے بیانات اور دورہ برطانیہ پارٹی پالیسی کا حصہ نہیں، وہ جو کچھ بھی کررہے ہیں ذاتی حیثیت میں کررہے ہیں جبکہ شرجیل میمن کی لندن روانگی اور مرزا سے ہونے والی ملاقات کو اتفاقیہ قرار دے دیا گیا، اسلام آباد میں صدر سے ہونے والی ملاقات کے بعدشرجیل میمن کا کہنا تھا کہ وزارت پارٹی کی امانت ہے، نجی دورے پر لندن گیا تھا، میرے عزائم سیاسی نہیں تھے۔سوال یہ ہے کہ اگردال میں کچھ” کالا“نہ ہوتاتو پھر صوبائی وزیراطلاعات شرجیل میمن کے استغفے اورصدرزرداری سے معافی مانگنے کی نوبت کیوں پیش آئی؟

ذوالفقار مرزا کو صدر اور پارٹی کی حمایت حاصل ہے یا نہیں؟ اس حوالے سے بعض مبصرین کا یہ ماننا ہے کہ سابق صوبائی وزیر ذاتی حیثیت میں یہ سب کچھ نہیں کرسکتے۔ جبکہ اتحادی جماعت کا دباؤ نہ ہوتا تو حکومت بھی مرزا کے پیچھے ہوتی۔ تاہم اتنا ضرور ہے کہ پیپلزپارٹی سے اتحاد کے بعد ایم کیو ایم کے حکومت میں آنے اور جانے نے اس کی ساکھ کو جو نقصان پہنچایا ہے شاید ہی اس سے قبل اتنی بدنامی متحدہ کے حصے میں آئی ہو۔

ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی سرگرمیوں کے باعث پی پی سندھ دو حصوں میں تقسیم ہوتی نظر آرہی ہے۔ پیپلزپارٹی کے بیشتر ارکان اسمبلی متحدہ کے خلاف مرزا کی سرگرمیوں سے خوش ہیں تاہم اعلیٰ قیادت کی جانب سے سابق وزیر داخلہ کے حامی ارکان کے خلاف کارروائی شروع ہونے کے بعد وہ تذبذب کا شکار ہوگئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق 3 درجن سے زائد وزراءاور ارکان سندھ اسمبلی سابق صوبائی وزیر کی مدد کررہے ہیں۔ ایم کیو ایم کے احتجاج کے بعد پیپلزپارٹی نے ذوالفقار مرزا کے ہمراہ سیاسی سرگرمیاں سرانجام دینے والے رکن سندھ اسمبلی امداد علی پتافی کی پارٹی کی بنیادی رکنیت معطل کردی ہے۔

متحدہ قومی موومنٹ کا سندھ اسمبلی سے نیا بلدیاتی نظام منظور کرانے کے لیے پیپلزپارٹی پر دباﺅ ہے۔ اس ضمن میں ایم کیو ایم نے شہری و ضلعی حکومتوں کے کالعدم نظام سے مطابقت رکھنے والے بلدیاتی نظام کا مجوزہ فارمولا پی پی قیادت کو پیش کر رکھا ہے۔ پیپلزپارٹی اس فارمولے پر تحفظات کے باوجود اپنی اتحادی جماعت کو ناراض نہیں کرنا چاہتی اور کوئی درمیانی راستہ نکالنا چاہتی ہے۔ لیکن پیپلزپارٹی کو موجودہ کمشنری اور بلدیاتی نظام میں ترامیم سے سندھ کی قوم پرست جماعتوں، ذوالفقار مرزا اور ان کے حامیوں کے متحرک ہونے کا خدشہ ہے جس کے بعد سندھ میں پی پی کی مشکلات مزید بڑھ جائیں گی اور اگر پی پی ارکان نے ہی اس قانونی بل کی حمایت نہ کرنے کا اعلان کردیا تو پارٹی کو نقصان ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ پی پی قیادت نے صوبائی، ڈویژن اور ضلعی سطح پر بعض عہدیداروں کو مرحلہ وار تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ پارٹی مزید انتشار کا شکار نہ ہو۔ اس سلسلے میں صوبائی حکومت نے صوبائی وزیر صادق میمن سے محکمہ جیل خانہ کا قلمدان واپس لے کر محکمے کا اضافی چارج صوبائی وزیر قانون ایاز سومرو کو دے دیا ہے۔ اسی طرح پیپلزپارٹی کراچی ڈویژن کی تنظیم کو بھی توڑ دیا گیا ہے۔ فیصل رضا عابدی کو پیپلزپارٹی کراچی ڈویژن کا نیا صدر جبکہ میر اسماعیل بروہی کو جنرل سیکرٹری مقرر کردیا گیا ہے۔

اُدھر سابق صوبائی وزیر نے لندن میں اسکاٹ لینڈ یارڈ کے حکام سے ملاقات میں بعض دستاویزان کے حوالے کی ہیں ان کا کہنا ہے کہ ابھی صرف ایک چوتھائی ثبوت برطانوی پولیس کو دیے ہیں۔ذوالفقار مرزا کی لندن میں سرگرمیوں، متحدہ قومی موومنٹ کے احتجاج اور سندھ کی سیاست میں بھونچال کی کیفیت پیدا ہونے کے بعد امن سے متعلق خدشے کے اظہار نے کراچی کے باسیوں کو ایک مرتبہ پھر پریشان کر رکھا ہے۔ یقینا کراچی کے شہری اب تک وہ حالات بھولے نہیں ہیں جب رمضان جیسے مقدس ماہ کے دوران بھی عام افراد دہشت گردوں کی درندگی و بربریت کا نشانہ بن رہے تھے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی بے بسی کا اظہار کررہے تھے۔ ہمارے سیاست دان اپنی لڑائی سیاسی میدان میں ضرور لڑیں مگر گزارش ہے کہ اس میں شہریوں کو نہ گھسیٹیں۔ اگر حکومت شہریوں کے جان و مال کا تحفظ ہی یقینی نہیں بناسکتی تو وہ قوم کے دیگر مسائل اور ان کی مشکلات کیسے کم کرے گی۔
Usman Hassan Zai
About the Author: Usman Hassan Zai Read More Articles by Usman Hassan Zai: 111 Articles with 86355 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.