اللہ معاف کر ے کسی نے سچ کہا
تھا کہ جھوٹ کے پاﺅں نہیں ہوتے ۔میں آخرکب تلک جھوٹ بولوں گا۔کب تلک جھوٹے
جلسے جلوسوں سے کپتان کا مقابلہ کروں گا۔کب تلک الزامات کی بارش کروں گا۔کب
تلک اس کی ذات پر کیچڑ اچھالوں گا۔محض پاکستان نہیں اس کی کرپشن سے نفرت کو
دنیا جانتی ہی نہیں پہچانتی ہے۔
میں نے بہت کچھ کیا کہ الف لیلٰی کی کہانی کو طول دوں ۔نت نئی پینٹنگز تراش
کر طشت ازبام کر دوں ۔لیکن سچ اور جھوٹ کب تلک گھتم گھتا رہ سکتے ہیں ۔فتح
آخر سچ کی ہوتی ہے۔لیکن پھر بھی مجھے ہر دور میں استعمال کیا گیا۔میں نے
کبھی سچ لکھا تو لکھاری کو لٹکا دیا گیا۔میں نے سقراط کی مانند بننا چاہا
تو مجھے اپنے رنگ میں ڈھالنے والے موقع پاکر میری گردن مروڑ تے رہے۔لیکن
میں نے از حد کوشش کی بقول شاعر
میں زہر پیالہ پیتا بن کے ویلے دا سقراط
سچ نوں زندہ رکھن لئی میں جندڑی دتی ہار
مجھے کپتان کے پہلے الیکشن میں بخوبی منفی طور پراستعمال کیا گیا۔میری ہر
کوشش کامیاب ہوئی ۔ہر جھوٹی کہانی میں نے گھڑی ۔کپتان کی اننگز نامکمل
ہوگئی ۔حتی کہ جمائما پر تابڑتوڑ حملے کرنے کا جب مجھے کہا گیا تو ایک لمحہ
کو میں لرز گیا۔کیونکہ وہ نئی نئی مسلمان ہو کر آئی تھی اور ویسے بھی کسی
کی عیب تراشی کی دین اجازت نہیں دیتا۔لیکن مجھے چلانے والے نے خوب استعمال
کیا ۔میں اس کے ہاتھوں میں تھا جو چاہے کرتا میں نے جرم کرڈالا ۔اس کے دامن
کو تار تار کر دیا۔میرے دامن پر ہزار دھبے سہی لیکن پھر بھی بے بس ہوں
لاچار ہوں ۔لیکن ضمیر اکثر کانپ اٹھتاہے ۔سوچتا ہوں میرے مالک میں کن کن
لوگوں کے ہاتھوں میں کھیلتارہا۔جن کا محض مقصد اقتدار ہے۔وہ عوام کونعروں
اور کھوکھلے منشوروں سے برس ہابرس سے پاگل بناتے چلا آئے ہیں ۔لیکن پنجابی
محاورہ ہے
عمراں نال جھمراں ہوندیاں نیں
انکی عمر گزر چکی ۔داغ داغ سیاست اب اپناروپ بدلنے لگی ہے۔شاید کسی کی آمد
کے واسطے ماحول صاف کیا جائے گا۔اہل نظر جانتے ہیں کہ کونسی عظیم ہستی آئے
گی۔اب شاید کوئی طالع آزما اپنی ڈھاک نہ بٹھا سکے گا۔اس ملک کو اب سدھرنا
ہے ۔اور قسمت کسے اس کی خاطر چنتی ہے یہ وقت بتائے گا۔توبہ کا دروازہ سب
کیلئے کھلا ہے۔لیکن محض اقتدار کی خاطر توبہ کرنے والوں کو اب موقع نہ ملے
گا۔
میں مجبور ہوں ممکن ہے آج رات کی تاریکی میں تو کل دن کے اجالے میں مجھے
استعمال کر لیا جائے ۔لیکن عوام باخبر رہنا ۔ہربات کو حق کی کسوٹی پر
پرکھنا۔تم جانتے ہو کہ کس کے ہاتھ میں لاٹھی ہے اور کس کے ہاتھ میں فوج
۔لیکن شاید یہ کج عقیدہ لوگ نہیں جانتے کہ اسٹیبلشمنٹ نہیں سب اوپر سے
ہوتاہے اور عوام کے اعمال کی شامت ہوتی ہے۔روس کے زاروں سے عوام نے جان
چھڑا لی تو سٹالن جیسا بے رحم مقدر بنا۔تیونس نے حبیب بورقیہ کو جب دیوتا
سمجھ لیا تو وہ نجات دہندہ بننے کے بعد بد ترین آمر کا روپ دھار گیا۔تبدیلی
میں عوام کی محنت ضرور کار فرما ہوتی ہے لیکن جسے میرا مولا نہ چاہے محنت
کے باوجود خالی ہاتھ رکھتاہے۔لہذا اب عوام کو میمو شیمو سے نہیں گھبرانا
چاہیئے کیونکہ یہ معاملہ الجھا ہے سلجھے گا نہ جانے کب ۔کون سچاکون جھوٹا
یہ اتنا آساں نہیں ۔آپ کو اپنا فیصلہ کرنا ہے الیکشن میں ضرور کیجئے گا۔مگر
خدارا کسی بے رحم کے ہاتھوں میں آکر تشدد کی راہ نہ پکڑنا۔
آج آپ کو اپنا دکھڑا سنا دیا ۔لیکن جاتے جاتے یہ بات بھی کہتا چلوں کہ میں
بکتا ہوں بکتا رہوں گا۔کیونکہ میں بے بس ہوں ۔آپ بااختیار ہیں ۔جذبات کے
بھنور میں نہ آنا ۔کپتان کو بھی پرکھ لینا۔کسی اہل نظر نے اس کے بارے میں
کہاتھا”ہمیں تمہاری نیت پر کوئی شک نہیں“۔
میں توبہ نہیں کر سکتا تم کرلو ۔اور ٹھنڈے دل سے سوچو عوام حکمرانوں کے
جلسے میں کیسے کیسے آسکتی ہے اور جس کی پارلیمنٹ میں ‘سینٹ میں ایک بھی سیٹ
نہ ہو اس کے پاس کتنے کم ذرائع ہوتے ہیں ۔اور محبت کا رنگ بھی دونوں جلسوں
میں دیکھنا۔طوطوں کی باتوں میں نہ آنا فرق خود محسوس کر لو گے۔میں ایک بے
جان قلم ہوں لیکن بہت کچھ جانتاہوں ۔مجھے معاف کر دینا کیونکہ میں جس کے
ہاتھ میں ہوتا ہوں اسی کا کہامانتا ہوں ۔کرپٹ لوگ مجھے آلودہ کردیتے ہیں
اور سچے لوگ مجھے خوشبودار بنادیتے ہیں ۔ |