اگر تو ن لیگ کے فیصل آباد جلسے
کا مقصد ”گوزرداری گو“تحریک تھا ،جیسا کہ اُن کے چیدہ چیدہ سیاستدانوں جن
میں رانا ثناءاللہ اور خواجہ سعدرفیق شامل ہیں ،نے کہا تو میں ببانگ دہل
کہہ سکتا ہوں کہ اس قسم کے جلسوں سے صدر زرداری اور ان کی حکومت پر رتی
برابر بھی کوئی فرق نہیںپڑے گا ، یقین نہ آئے توآپ اس جیسے 10 جلسے کرکے
دیکھ لیں ۔ ویسے میں نہیںسمجھتاکہ میاں صاحب اوران ٹیم اتنی بھولی ہے کہ
اُنہیں اس بات کا اندازہ نہ ہو لیکن ایسالگتا ہے کہ ن لیگ کے پاس کوئی واضح
اسٹریٹجی نہیں ہے ۔ وہ حکومت سے تنگ بھی ہیں، انہیں برا بھلا کہنے کا کوئی
موقع ہاتھ سے جانے بھی نہیںدیتے لیکن وہ حکومت کو گرانا بھی نہیںچاہتے
حالانکہ ان کے پاس ایک بہترین ہتھیار اسمبلیوں سے استعفوں کاموجود ہے لیکن
نہ جانے کس مصلحت کے تحت وہ اس ہتھیار کو استعمال کرنے سے گریزاں ہیں ،
حالانکہ حکومت کے خلاف عدم اعتمادلانا ، استعفے اور مڈ ٹرم کامطالبہ کوئی
غیر آئینی اقدام ہے نہ ہی غیر جمہوری ۔حیرت کی بات ہے کہ میاں صاحب سینٹ
انتخابات کے حق میں بھی ہیں حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر سینٹ انتخابات
ہوئے تو پیپلز پارٹی ہی اُس میں اکثریت حاصل کر ے گی جو اُن کے بقول کرپٹ
اور نااہل جماعت ہے ۔ دوسرے لفظوں میں میاں صاحب آئندہ 5برسوں کیلئے پیپلز
پارٹی کو اقتدار میں رکھنے کیلئے وہی کاندھا فراہم کریں گے جس کا الزام اُن
پر گزشتہ ساڑھے تین برس سے لگ رہا ہے ۔
جلسے کا دوسرا اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اگر اس کا مقصد عمران خان کے 30نومبر
کے جلسے کا مقابلہ تھا تو اس معاملے میں بھی پنجاب حکومت قطعی طور پر
کامیاب ہوئی ہے نہ ہو سکتی ہے ۔ مینار پاکستان اور دھوبی گھاٹ کے رقبے کا
موازنہ ایک طرف ، خود میاں برادران اورعمران خان کا بھی اس وقت کوئی جوڑ
نہیںبنتا ۔ شریف فیملی پنجاب کے 9کروڑ عوام پر حکومت کر ر ہی جبکہ عمران
خان نہ حکومت میں ہیں اور نہ ہی اپوزیشن میں ،بلکہ وہ عام فرد ہیں ۔ علاوہ
ازیں پنجاب حکومت کے پاس بیش بہا حکومتی وسائل کے علاوہ ایسے ہزاروں افراد
موجودہیں جن کا تعلق ن لیگ سے نہ بھی ہو تب بھی وہ براہ راست پنجاب حکومت
سے فائدہ اُٹھا رہے ہیں اوریقیناً 30نومبر کے جلسے کے بعد اُنہیںبھی یہ
خطرہ محسوس ہوا ہوگا کہ اگر کہیں پنجاب حکومت نہ رہی تو گھاٹے میں جائیں گے
لہٰذا وہ بھی ن لیگ کے جلسوں کو کامیاب کرانے کیلئے ہر ممکن کوشش کریں گے
بالکل ویسے ہی جیسے آج سے چند سال قبل پرویز مشرف کے جلسوں میں لوگ نظرآیا
کرتے تھے ۔ یہ لوگ اسٹیٹس کو کا وہ حصہ ہیں جن کا تعلق نہ کبھی نہ ن سے
ہوتا ہے نہ میم سے، بلکہ انہیں اپنا مفاد سب سے زیادہ عزیزہوتاہے اوریہ
کبھی نہیں چاہیں گے کہ اس ،موجودہ نظام میں کوئی تبدیلی آئے ۔
جلسے میں تیسری اہم چیز لیگی رہنماﺅں کی تقریریں تھیں۔اگر آپ تقریریں سنیں
تو آپ کو مقررین پورے جلسے میں ڈاما ڈول نظرآئیں گے ، جلسہ گو زرداری گو کے
نام سے تھا لیکن اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار اور میاں صاحب سمیت تمام لیڈران
عمران خان کے خلاف بولتے نظر آئے ۔ چوہدری نثا رکے بارے میں تو ایسا لگتا
تھا جیسے یا تووہ صحیح تیاری سے نہیں آئے یا پھر کوئی خوف اُن کے حواس پر
طاری تھا۔ اُنہوںنے دو مرتبہ نہ صرف عمران خان کے گھر کی قیمت 120ارب روپے
بتائی بلکہ ایسے بے تکے الزاما ت لگائے کہ ہنسی آرہی تھی ۔ اُنہوںنے عمران
خان پر کرپشن کے الزامات لگائے حالانکہ جس قوم کووہ یہ سب سنارہے تھے اُسی
قوم نے عمران خان کو حالیہ سیلاب میں 2ارب روپے دیئے ، انہیں سالانہ
کروڑوںروپے شوکت خام کی مد میں ملتے ہیں اور وہ خود شوکت خاتم کاسب سے بڑا
ٹرسٹی ہے ۔ چوہدری نثار نے عدالت جانے کی بھی بات کی لیکن کوئی عدالت کیوں
جائے۔ٹیلی ویژن پر ایک طرف میاں صاحب بیٹھ جائیں اور دوسری طرف عمران خان
کو بٹھا دیں اور قوم سے چیرٹی کی درخواست کریں ۔ ایک گھنٹے میں دودھ کادودھ
اور پانی کا پانی ہوجائے گا کہ قوم کسی پراعتماد کر تی ہے اور کسے کرپٹ
سمجھتی ہے ۔ جلسے میں بعض لیڈر کرپشن کا رونا روتے ہوئے بھی دیکھے گئے ۔
سمجھ نہیں آرہا تھاکہ آخریہ کس سے مطالبہ کر رہے ہیں، ،حالانکہ حکمران یہ
خودہیں ۔ کیا لیگی رہنمایہ کہنا چاہتے تھے کہ پنجاب کو چھوڑ کر باقی پورے
ملک میں جو کرپشن ہو رہی ہے ہم اُس کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں ؟ ۔ ہر گز
نہیں ، حقیقت یہ ہے کہ ن لیگ 30نومبر کے جلسے کے بعد شدید بوکھلاہٹ کا شکار
ہے ، میاں صاحب ایک سینئر سیاستدان ہیں اوراُن کی ٹیم میں مخدوم جاوید
ہاشمی جیسے لوگ بھی شامل ہیں جو اُنہیں پہلے دن سے ہی یہ مشورہ دے رہے ہیں
کہ خدارا پرانی سیاست وقت کے ساتھ دفن ہو چکی ہے ، اب نیا دور شروع ہو چکا
ہے اور اس نئے دور کے نئے تقاضے ہیں۔ پرویز مشرف کے بعد قوم نے آپ سے بڑی
امیدیں وابستہ کررکھی ہیں ، خدارا اس مظلوم قوم کیلئے کچھ کیجئے ۔ لیکن
پنجاب حکومت نے ساڑھے تین سال سوائے وفاقی حکومت کو کاندھا دینے کے اور کچھ
نہیں۔ آج پنجاب میں ایسی کون سی منفر د چیز ہے جو دیگر صوبو ںمیںنہیںہے ۔
اگر ملک کے دیگر حصوں میں جرائم ہیں تو پنجاب بھی اس سے محفوظ نہیں، لوڈ
شیڈنگ ، مہنگائی ، بیروزگاری کے خاتمے میں اگر وفاقی حکومت ناکام ہوئی ہے
تو پنجاب میں بھی یہ مسائل وافر مقدارمیںموجود ہیں ۔
میاں صاحب کاش اتنا بڑا جلسہ آپ نے بہت پہلے مہنگائی ، بیروزگاری، لوڈ
شیڈنگ اور جرائم کیخلاف کیا ہوتا جس نے غریب عوام کا بیڑا غرق کر رکھا ہے ،تو
دکھوں کے مارے عوام بھی آپ کو دعائیں دیتے لیکن ساڑھے تین سال تک وفاقی
حکومت کو چھتری فراہم کرنے ، اُن کی نالائقیوں پر چپ سادھنے، فرینڈلی
اپوزیشن کا کردار ادا کر تے ہوئے عوام کے بجائے نظام کی فکر نے پر ن لیگ کا
گراف اس قدر نیچے گرچکا ہے کہ لوگ 30نومبر کو نہ صرف بھر پور طریقے سے
عمران خان کے جلسے میںشریک ہوئے بلکہ اُنہیں مستقبل کیلئے ایک امید بھی
قراردیا۔ پنجاب حکومت کے پاس وقت بہت کم ہے ، اگر وہ واقعی اپنی ساکھ بچانا
چاہتی ہیں تو جلسے جلوسوں کے بجائے کارکردگی پر توجہ دے اوراس مختصر وقت
میں صرف وہ بنیادی کام ہی کر دے جو حقیقتاً کسی بھی حکومت کی ذمہ داری ہو
تی ہے تو وہ عوام سے کچھ نہ کچھ کریڈ ٹ لے سکتے ہیں۔ جن میں عوام کی جان و
مال کا تحفظ ، سستے اور فوری انصاف کی فراہمی ، ٹیکسوں کی وصولی اورکرپشن
کاخاتمہ شامل ہے ۔ ن لیگ کویادرکھنا چاہئے کہ اگر وہ یہ سب کچھ کرنے میں
ناکام ہوئی تو اُس کی سیاست ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دفن ہوجائے گی اور پھر کوئی
اتحاد بھی اُنہیں بچا نہ پائے گا۔ |