ابو سفیان ش

ابو سفیان مدینہ گیا اور پہلے اپنی لڑکی حضرت ام المومنین بی بی ام حبیبہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے مکان پر پہنچا اور بستر پر بیٹھنا ہی چاہتا تھا کہ حضرت بی بی ام حبیبہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے جلدی سے بستر اٹھا لیا۔ ابو سفیان نے حیران ہو کر پوچھا کہ بیٹی تم نے بستر کیوں اٹھا لیا ؟ کیا بستر کو میرے قابل نہیں سمجھا یا مجھ کو بستر کے قابل نہیں سمجھا ؟ ام المومین نے جواب دیا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا بستر ہے اور تم مشرک اور نجس ہو اس لئے میں نے یہ گوارا نہیں کیا کہ تم رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلمکے بستر پر بیٹھو۔ یہ سن کر ابو سفیان کے دل پر چوٹ لگی اور وہ رنجیدہ ہو کر وہاں سے چلا آیا اور رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنا مقصد بیان کیا۔ آپ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر ابو سفیان حضرت ابو بکر صدیق و حضرت عمر و حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہم کے پاس گیا۔ ان سب حضرات نے جواب دیا کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس جب ابو سفیان پہنچا تو وہاں حضرت بی بی فاطمہ اور حضرت امام حسن رضی اللہ تعالٰی عنہما بھی تھے۔ ابو سفیان نے بڑی لجاجت سے کہا کہ اے علی ! تم قوم میں بہت ہی رحم دل ہو۔ ہم ایک مقصد لے کر یہاں آئے ہیں کیا ہم یونہی ناکام چلے جائیں۔ ہم صرف یہی چاہتے ہیں کہ تم محمد (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) سے ہماری سفارش کردو۔ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ اے ابو سفیان ! ہم لوگوں کی یہ مجال نہیں ہے کہ ہم حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے ارادہ اور ان کی مرضی میں کوئی مداخلت کر سکیں۔ ہر طرف سے مایوس ہوکر ابو سفیان نے حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالٰی عنہا سے کہا کہ اے فاطمہ ! یہ تمہارا پانچ برس کا بچہ (امام حسن) ایک مرتبہ اپنی زبان سے اتنا کہہ دے کہ میں نے دونوں فریق میں صلح کرادی تو آج سے یہ بچہ عرب کا سردار کہہ کر پکارا جائے گا۔ حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے جواب دیا کہ بچوں کو ان معاملات میں کیا دخل ؟ بالآخر ابو سفیان نے کہا کہ اے علی ! معاملہ بہت کٹھن نظر آتا ہے کوئی تدبیر بتاؤ ؟ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ میں اس سلسلے میں تم کو کوئی مفید رائے تو نہیں دے سکتا لیکن تم بنی کنانہ کے سردار ہو تم خود ہی لوگوں کے سامنے اعلان کردو کہ میں نے حدیبیہ کے معاہدہ کی تجدید کردی۔ ابو سفیان نے کہا کہ کیا میرا یہ اعلان کچھ مفید ہو سکتا ہے ؟ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ یکطرفہ اعلان ظاہر ہے کہ کچھ مفید نہیں ہو سکتا مگر اب تمہارے پاس اس کے سوا اور چارہء کار ہی کیا ہے ؟ ابو سفیان وہاں سے مسجد نبوی میں آیا اور بلند آواز سے مسجد میں اعلان کر دیا کہ میں نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حدیبیہ کی تجدید کردی مگر مسلمانوں میں سے کسی نے بھی کوئی جواب نہیں دیا۔

ابو سفیان یہ اعلان کرکے مکہ روانہ ہوگیا۔ جب مکہ پہنچا تو قریش نے پوچھا کہ مدینہ میں کیا ہوا ؟ ابو سفیان نے ساری داستان بیان کردی۔ تو قریش نے سوال کیا کہ جب تم نے اپنی طرف سے معاہدہ حدیبیہ کی تجدید کا اعلان کردیا تو کیا محمد (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو قبول کر لیا ؟ ابو سفیان نے کہا کہ “نہیں“ یہ سن کر قریش نے کہا کہ یہ تو کچھ بھی نہ ہوا۔ یہ نہ تو صلح ہے کہ ہم اطمینان سے بیٹھیں نہ یہ جنگ ہے کہ لڑائی کا سامان کیا جائے۔ (زرقانی جلد2 ص 292 تا 293)

اس کے بعد حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو جنگ کی تیاری کا حکم دے دیا اور حضرت بی بی عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے بھی فرما دیا کہ جنگ کے ہتھیار درست کریں اور اپنے حلیف قبائل کو جنگی تیاریوں کے لئے حکم نامہ بھیج دیا مگر کسی کو حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے یہ نہیں بتایا کہ کس سے جنگ کا ارادہ ہے ؟ یہاں تک کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بھی آپ نے کچھ نہیں فرمایا۔ چنانچہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ حضرت بی بی عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے پاس آئے اور دیکھا کہ وہ جنگی ہتھیار نکال رہی ہیں تو آپ نے دریافت کیا کہ کیاحضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا ہے ؟ عرض کیا “جی ہاں“ پھر آپ نے پوچھا کہ “کیا تمہیں کچھ معلوم ہے کہ کہاں کا ارادہ ہے ؟“ حضرت بی بی عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے کہا کہ “واللہ مجھے یہ معلوم نہیں۔“ (زرقانی جلد2 ص 291)

غرض انتہائی خاموشی اور رازداری کے ساتھ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے جنگ کی تیاری فرمائی اور مقصد یہ تھا کہ اہل مکہ کو خبر نہ ہونے پائے اور اچانک ان پر حملہ کر دیا جائے
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1310688 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.