شیری رحمان.... وزارتِ خارجہ

حکیم لقمان ؒ سے منسوب ایک حکایت میں تحریر ہے کہ ایک مرتبہ بہت سے پرندے ایک جگہ جمع ہوئے کہ کسی کو اپنا بادشاہ بنا لیں تاکہ ہر کام اُصول و ضوابط کے مطابق ہو۔کیونکہ اُن کے خیال میں جب تک عادل بادشاہ اور باتدبیر وزیر نہ ہو ملک میں فساد ہی برپا رہتا ہے۔ ابھی یہی سوچ بچار کر رہے تھے کہ اتنے میں مور آگے بڑھا اور اپنے رنگ برنگے پر پھیلائے اور پرندوں کا دل لُبھایا وہ نادان اور بیوقوف پرندے اُس کی ظاہری خوبصورتی اور رنگین نقش و نگار دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ کئی پرندوں نے مور کو پسند کر کے اُسے بادشاہ بنانے کا مشورہ دیا اور اپنے اپنے پر پھڑپھڑا کر اُس کی تعریف کرنے لگے۔ جیسے ہی اُن پرندوں نے یہ چاہا کہ شاہی آداب بجا لائیں اور جھک کر مور کو سلام کریں نیل کنٹھ مجلس میں اُٹھ کھڑا ہوا اور کہنے لگا”جناب میرے دل میں کچھ شک و شبہ ہے اگر حکم ہو تو میں اس بھری مجلس میں عرض کروں اُمید ہے کہ آپ اس کا جواب ضرور دیں گے۔“ مور نے کہا کہ تیرے دل میں جو بھی ہے بلا جھجک بیان کر۔ نیل کنٹھ نے کہا جہاں پناہ ہم نے اپنی جان و مال سب کچھ آپ کے سپر د کر دیا ہے اور دل و جان سے آپ کے خادم ہیں لیکن ایک بات بتائیے کہ اگر کل عقاب یا بازہم پر حملہ کر دیں اور وہ یقیناً کریں گے تو آپ کس طرح ہم کو اُن کے پنجے سے بچائیں گے۔مہربانی فرما کر ہمیں اس سوال کا جواب دے دیں اور ہمیں مطمئن کر دیں پھر ہم ہمیشہ آپ کے فرمانبردار رہیں گے۔ یہ بات سن کر مور خاموش رہا اور حاضرین مجلس سمجھ گئے کہ ایسا نازک مزاج بھلا امورِ سلطنت کس طرح چلا سکتا ہے۔چنانچہ اُنہوں نے مور کو بادشاہ بنانے کا ارادہ ترک کر دیا۔

قارئین! حسین حقانی وہ شخصیت ہیں کہ جنہوں نے 1988ءمیں میاں محمد نوازشریف کو بحیثیت میڈیا سیل انچارج جوائن کیا۔ 1990ءسے لے 1992ءتک وہ میاںمحمد نواز شریف کے قریبی ترین ایڈوائزر تھے۔ 1993ءمیں اُنہیں سری لنکا میں پاکستان کا سفیر مقرر کر دیا گیا اور اُنہیں یہ اعزاز بھی حاصل ہوا کہ وہ پاکستانی وزارتِ خارجہ کی تاریخ کے کم عمر ترین سفیر قرار پائے اور یہ ریکارڈ آج تک کوئی نہیں توڑ سکا۔بعد ازاں جب میاں محمد نواز شریف کی حکومت ختم ہو گئی وہ پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے ۔2004ءسے لے کر 2008ءتک حسین حقانی امریکہ میں مختلف یونیورسٹیوں میں پڑھاتے رہے۔2008ءمیں جب پاکستان پیپلز پارٹی کی گورنمنٹ برسرِ اقتدار آئی تو امریکہ کی سفارت کا قرعہ اُن کے نام نکل آیا۔اُن کے نام پر سیاسی حلقوں کے ساتھ ساتھ عسکری حلقوں کو روزِ اوّل سے شدید ترین تحفظات تھے اور وہ تحفظات اُس وقت مزید کھل کر سامنے آئے جب کیری لوگر بل کی متنازعہ دستاویز پاکستان پہنچی اور یہ بات پوری پاکستانی قوم کے علم میں آئی کہ امریکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر پاکستان کو طوقِ غلامی پہنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس پر نہ صرف کروڑو ں پاکستانی عوام سراپا احتجاج بنے بلکہ آئی ایس آئی اور افواجِ پاکستان کے سربراہان نے بھی شدید ترین ناراضگی کا اظہار کیا۔ حتیٰ کہ تحفظات کو دور کرنے کے لیے کیری لوگر صاحب خود پاکستان تشریف لائے اور بعد ازاں ہیلری کلنٹن کو بھی امریکہ سے آکر حکومت اپوزیشن اور میڈیا کو مل کر اپنی پوزیشن واضح کرنی پڑی۔امریکی انتظامیہ نے یہاں تک کہہ دیا کہ ایک طرف تو آپ ہم سے امداد کے نام پر اربوں ڈالرز لے رہے ہیں اور دوسری جانب اگر ہم اس رقم کے بدلے آپ سے کچھ مفادات اُٹھانا چاہتے ہیں تو اُس پر آپ کا گریز کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ واقعی دیکھا جائے تو انسان اپنے ارد گرد سے یہ مثال سمجھ سکتا ہے کہ گاﺅں کے چودھری سے مستفید ہو کر کسی کی بھی یہ مجال نہیں ہوتی کہ وہ اُس کے حکم کے برعکس کوئی کام کرے۔

خیر قارئین یہ تو حسین حقانی کا وہ پہلا کارنامہ تھاکہ جس کی وجہ سے وہ مکمل طور پر عوام اور عسکری قیادت کی نظروں میں کھٹکنے لگے۔ بعد ازاں موجودہ ”میمورنڈم سکینڈل“ تو وہ طوفان تھا کہ جس نے ابھی صرف ایک قربانی لی ہے۔ اس سازش کے اصل سرغنہ کون ہیں، اس سازش کے مقاصد کیا کیا تھے، کس کے اشاروں پر مائیک مولن کو یہ خط لکھا گیا، کس کے کہنے پر حسین حقانی نے یہ میموڈرافٹ کیا ؟ ابھی یہ سب باتیں سامنے آنا باقی ہیں۔پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں محمد نوازشریف سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا چکے ہیں اور آنے والے دنوں میں اُمید ہے کہ اس سازش کا کھرا مل جائے گا اور یقین جانیئے کہ اگر درست معنوںمیں تحقیقات ہو گئیں تو بغاوت کے مقدمے کس کس کے خلاف بنیں گے یہ سوچ کر روح تک کانپ جاتی ہے۔

قارئین! یہ تو وہ پسِ منظر ہے جو ہم نے آج کے موضوع کے حوالے سے آپ کے سا منے رکھا۔شیری رحمان وہ شخصیت ہے کہ جس نے پاکستانی میڈیا میں ایک اہم کردار نبھاتے ہوئے اپنی پارٹی کا دفاع کیا اور طویل سیاسی جدوجہد کی۔ اُن کی حب الوطنی اور کمٹمنٹ کسی بھی شک و شبے سے بالاتر ہے۔یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) سے لے کر تحریکِ انصاف تک اور ایم۔ کیو ۔ایم سے لے کر مذہبی جماعتوں تک سب لوگوں نے امریکہ میں اُن کی بحیثیت سفیر تعیناتی کو سراہا ہے اور اُن کے لیے نیک تمناﺅں کا اظہار کیا ہے۔لیکن یہاں پر سوال وہی پیدا ہوتا ہے جو آج کی بیان کردہ حکایت میں مور سے نیل کنٹھ نے کیا تھا کہ حضور کل اگر عقاب یا باز ہم پر حملہ کرتا ہے اور یقینا وہ کرے گا تو آپ ہمارا دفاع کیسے کریں گے۔شیری رحمان صاحبہ آپ امریکہ میں پاکستان کی سفیر بن کرتو جارہی ہیں لیکن یہ بتایئے کہ جو شخصیت حسین حقانی سے یہ میمو لکھوا کر اُنہیں قربان کر سکتی ہے اُن کے لیے آپ کی ”بلّی“ چڑھانا کون سی بڑی بات ہے۔شاہ محمود قریشی ، مخدوم امین فہیم، حسین حقانی کے بعد اگلی باری کہیں آپ کی نہ ہو....؟

قارئین! اس وقت امریکہ افغانستان اور عراق کے بعد پاکستان کو اپنا نشانہ بنا چکا ہے اور امریکہ کی سب سے بڑی کوشش یہ ہے کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثہ جات اور عسکری قوت کو اس طریقے سے انگیج کیا جائے کہ وہ کسی بھی جارحیت کا مقابلہ کرنے کی سکت نہ رکھ سکیں۔

امریکہ کے متعلق جنرل ایوب خان کی کتاب ”فرینڈز ناٹ ماسٹرز“ میں ڈھیر ساری چشم کشا باتیں موجود ہیں۔ انکل سام سے امداد کے نام پر گندم کی بھیک لے کر جو کام ہم نے 1950ءکی دہائی میں شروع کیاتھا اُس کا ڈراپ سین کیری لوگر بل کی صورت میں ہوا اور نہ جانے ابھی ذلت کی مزید کتنی قسطیں باقی ہیں....؟
بقول غالب
کسی کو دے کے دل کوئی نواسنجِ فغاں کیوں ہو؟
نہ ہوجب دل ہی سینے میں تو پھر منہ میں زبان کیوں ہو؟
وہ اپنی خُو نہ چھوڑیں گے، ہم اپنی وضع کیوں بدلیں
سُبک سر بن کر کیا پُوچھیں کہ ہم سے سرگراں کیوں ہو؟
کیا غمخوار نے رُسوا لگے آگ اِس محبت کو
نہ لاوے تاب جو غم کی وہ میرا رازداں کیوں ہو؟
یہی ہے آزمانا تو ستانا کس کو کہتے ہیں
عدو کے ہو لیے جب تم ، تو میرا امتحاں کیوں ہو؟
یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے؟
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اُس کا آسماں کیوں ہو؟

قارئین! امریکہ نے جو کرنا تھا وہ ہمیشہ کیا ہے اب دیکھئے کہ ہم کیا کرتے ہیں۔ آیا اپنے مفادات کے دشمن غداروں کو محفوظ راستہ دے کر تمام غدار ٹولے کو پیغامِ عافیت دیتے ہیں یا اس معاملے کی مکمل تحقیقات کروا کر میر جعفر اور میر صادق کے پیروکاروں کو کڑی سے کڑی سزا دے کر دفاعِ پاکستان کی بنیاد رکھتے ہیں۔فیصلہ ہمارے اپنے ہاتھوں میں ہے ۔ یہ معاملہ اب مقتدر قوتوں کے ہاتھ سے نکل کر عوام کی عدالت میں چلا گیا ہے۔18کروڑ پاکستانی عوام اب اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ؟

آخر میں حسب روایت لطیفہ پیشِ خدمت ہے۔
ایک آدمی قبرستان سے گزر رہا تھا اچانک اُس کی نظر ایک قبر پر پڑی ۔ اُس کے کتبے پر تحریر تھا”ایماندار وکیل“
اُس آدمی نے یہ تحریر بار بار پڑھی اور پھر کہا
”کمال ہے ایک قبر میں دو بندے اکٹھے دفن کر دئے“۔

قارئین ! حسین حقانی اور جن کے کہنے پر اُنہوں نے یہ میمورنڈم تحریر کیا تھا اُن کے وکیل بھی ایسے ہی ایماندار ہیں۔ جنہیں یہ بھی علم نہیں کہ وہ کس بات کا دفاع کر رہے ہیں۔ خیر گڈ لک شیری رحمان صاحبہ ! ہماری نیک دعائیں آپ کے ساتھ ہیں۔
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 374400 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More