آزادی سے لے کر اب تک کی
پاکستانی سےاسی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں اکثر سیاسی بحران جنم لیتے ہیں اور
یہ بحران پورے نظام کے لیے قاتل ثابت ہوتے ہیں ۔ جمہوریت اور آمریت کی آنکھ
مچولی نے کئی دہائیاں بیت جانے کے با وجود وطن عزیز کو سیاسی میدان میں با
پختہ ہی رکھا ۔ یوں ملک برس ہا برس سے ایک دوراہے پر کھڑا ہے۔
جب ہم ان بحران اور مسائل کی وجوہات کا جائزہ لیتے ہیں۔ تو یہ حقیقت کھل کر
عیاں ہوتی ہے کہ پاکستان اپنی جغرافیائی اور مذہبی اہمیت کے پیش نظر عالمی
طاقتوں کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ قوتیں سازشوں کے جال
بچھاتی رہی ہیں۔اور اس ملک کے استحکام میں رکاوٹ بنتی رہی ہیں۔سیاسی اور
معاشی میدان میں مستحکم پاکستان عالمی قوتوں کے مفاد میں اس لیے نہیں ہے کہ
یہ استحکام پاکستانی حکومت اور عوام کو اس قابل بنا سکتا ہے۔کہ وہ اپنی
داخلہ اور خارجہ پالیسی خود تشکیل دے سکیں اور اپنے وسائل کو استعمال کر کے
ترقی کی منازل طے کر سکیں اور دنیا میں ایشین ٹائیگر بن کر ابھریں۔
ان بحرانوں کی دوسری بڑی وجہ یہاں کی نا پختہ فکر کی حامل سیاسی قیادت ہے
جس نے نہایت جذباتی انداز میں عوام کو ہمیشہ حکومت کے خلاف بھڑکانے کی کو
شش کی۔ یوں ہر حکومت اپنی بقا کی جنگ لڑنے میں ہی مصروف رہی اور اپنے سیاسی
مخالفین کو نیچا دکھا نے میں اپنی قوتیں صرف کرتی رہی ۔انہیں سیاسی قوتوں
نے اپنی سیاسی بقا کی ضمانت طلب کرنے کے لیے عالمی طاقتوں کے در پہ بھی
دستک دی ۔ یوں ہماری سیا سی فضا کی تشکیل میں مغربی اور عالمی طاقتوں کو
اپنا کر دار اکرنے اور اپنے مفادات کے حصول کا موقع میسر آ گیا۔
گزشتہ جمہوری حکومت چونکہ آمریت کی محافظ تھی اور ڈکٹیٹر شپ کے زیر اثر ہی
پر وان چڑھی تھی۔ اس لیے اسے کامل جمہوریت نہیں کہا جا سکتا۔ تاہم اتنا
ضرور ہے کہ اس جمہوریت کے اس پرتو کے نتیجے میں عوام کو نسبتا بہتر جمہوری
سیٹ اپ میسر آےا ہے۔اس میں یہ بحث الگ ہے،کہ موجودہ جمہوری سیٹ اپ جمہوری
اقدار کا کس قدر محافظ ہے۔کس حد تک ایماندار ہے اور عوامی توقعات پر کس حد
تک پوراا ترنے والا ہے۔
موجودہ حکومت اس حوالے سے خوش قسمت ترین حکومت ہے کہ اسے وفادار اتحادی اور
فرینڈلی اپوزیشن میسر آئی ہے۔علاوہ ازیں دیگر طاقتور ادارے بھی حکومت کی
حفاظت کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں ۔
موجودہ سیشن میں حکومت اور اپوزیشن دونو ں نظام کی بقا کی حامی نظر آتی ہیں
۔ اس لیے موجودہ حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ امکانات روشن ہیں کہ موجودہ
حکومت اپنا عرصہ مکمل کرے گی ۔ اگر چہ حالیہ ایام میں ن لیگ حکومت سے نجات
کے حوالے سے آواز اٹھارہی ہے۔لیکن در حقیقت یہ جماعت اپنے دامن پہ فرینڈلی
اپوزیشن کا لگا ہوا داغ مٹانا چاہیتی ہے ۔ قوی امکا ن یہ ہے کہ نوا زشریف
حکومت مخالف اس تحریک کو موثر بنانے کی بجائے طول دینا پسند کریں گے۔ اس
حکمت عملی سے دو فائدے حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
اول تو یہ کہ ن لیگ فرینڈلی اپوزیشن کا داغ مٹانے کی پوزیشن میں آ جائے گی
۔
دوم یہ کہ حکومت کا عرصہ مکمل ہونے کے بعد اس کی نا اہلی عوام کے سامنے آ
جائے گی۔اور اس کے پاس اپنے دفاع کے لیے یہ بہانہ بھی نہ ہو گاکہ اسے عوام
کی خدمت کے لیے پورا وقت ہی نہ ملا ۔حکومت کی اس نا اہلی کو ن لیگ اپنے حق
میں استعمال کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
اس کے باوجود یہ حقیقت اپنی جگہ قائم ہے کہ اپوزیشن میں موثر ترین پارٹی ن
لیگ موجودہ حکومت کو چلنے دینا چاہتی ہے اور اپنی باری کا انتظار کرنے کا
حوصلہ رکھتی ہے۔اس حکومت کی یہ بھی خوش قسمتی ہے کہ اس کے وفادار ترین
اتحادی ہر مشکل وقت میں حکومت کے شانہ بشانہ کھڑے ہو جاتے ہیں ۔حکومت کو
دباؤ سے نکالنے کے ساتھ ساتھ اس کی عملی اور اخلاقی حمایت کا فریضہ بھی
انجام دیتے ہیں ۔ اس لا زوال حمایت اور وفاداری کے عوض ےہ اتحادی اپنے اپنے
مفادات بھی حاصل کر تے ہونگے اور شاید حرص و ہوس کے یہ لا متناہی سلسلے ہی
اس اتحادی میں دراڑیں نہیں پڑنے دے رہے ۔ تا ہم اس پورے کھیل میں صدر آصف
زرداری نے نظریاتی اختلاف اور ماضی کی تلخیوں کو یکسر نظر انداز کر کے ایک
تجربہ کار سیاسی کھلاڑی کا کر دار ادا کیا ہے۔اس لیے موجودہ حکومت اپنے
اتحادیوں کا ہر جائز و نا جائز مطالبہ پورا کر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام
اتحادی جماعتیں مفادات سمیٹنے میں اس قدر مشغول ہیں کہ وہ موجودہ حکومت کے
خاتمے کے متعلق تو سوچ ہی نہیں سکتیں ،کیونکہ اس حکومت میں کر پشن اور لوٹ
گھسوٹ کا نوٹس لینے والاکوئی بھی نہیں ۔ نہ حکومت احتساب کرنا ضروری سمجھتی
ہے اور نہ ہی اپوزیشن۔
اسی وجہ سے اتحادی حکومت کے ساتھ ہی جیسے مرنے جینے کا عزم رکھتے ہیں اور
اس عمل کے لیے کسی دلیل یا وضاحت کی ضرورت محسوس نہیں کررہے ہیں۔ اتحادی
جماعتوں کی وفاداری کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ
مانگیں وضاحتیں نہ مانگی کوئی دلیل
دل نے تو حد ہی کر دی اس پہ اعتبار کی |