برادرم اشہر نجمی صاحب،
آپ کے نہایت جذباتی اور متعصبانہ خیالات و تاثرات سے آگاہی ہوئی جو انتہائی
گمراہ کن ہیں۔ ادبی اور تحقیقی مسائل میں آدمی کو نہایت غیر جانب دار اور
قطعی طور پر معروضی ہونا چاہئے۔ آپ کو تو سب سے پہلے یہ چاہئے تھا کہ آپ
میری تحقیقی کتاب ”ویدک ادب اور اُردو “کا مطالعہ کرنے کی زحمت فرماتے تو
آپ پر تمام حقائق روشن ہو جاتے لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا۔میں نے کتاب نہایت
ہی مدلل سطح پر تحقیقی دلائل اور شواہد کے ساتھ تحریر کی ہے۔ کوئی بات میں
نے ہوا و خلا میں نہیں کی ہے۔ ہر ایک تحقیقی نقطہ کے لیے دلائل و شواہد پیش
کیے ہیں۔
فاروقی کا دعو یٰ ہے کہ پرانے زمانے میں اُردو نام کی کوئی زبان نہیں تھی۔
وہ قدیم اُردو کی اصطلاح کو لسانیاتی اور تاریخی اعتبار سے غلط بتاتے ہیں۔
غالباً ان کی نظر سے نصیر الدین ہاشمی کی مشہورِ زمانہ کتاب ”قدیم اُردو“
نہیں گزری ہے۔ وہ مانتے ہیں کی اُردو نو عمر زبان ہے۔ دوسرے وہ یہ بھی دعویٰ
کرتے ہیں کہ قدیم اُردو تاریخ کے میدان سے باہر نکل چکی ہے۔ یہ بیان تاریخی
اور لسانیاتی طور پر نہایت اُردو دشمن اور جمہوریت دشمن ذہنیت کا غماز ہے
اور یہ قطعاً ظلمت پسند رویہ ہے۔ اس تنگ نظری نے اُردو کی عوامی جڑیں کاٹ
دی ہیں۔ ان کی کم نگاہ تحقیق اُردو کی محض اُس تاریخ پر توجہ کرتی ہے جو نو
آبادیاتی ہے یا جس کا تعلق بادشاہوں اور درباروں سے ہے گویا اُن کی تنگ
نگاہ میں اُردو کی عوامی تاریخ کا کوئی نام و نشان موجود نہیں ہے۔ اس خصوصی
قدیم اور عظیم ترجمہوری لسانی نشان اور پہچان کو میں نے ویدک ادب کے ثقافتی
پسِ منظر میں نہایت دیدہ ریزی اور دلسوزی سے تلاش کیا ہے۔ فاروقی صاحب قطعی
طور پر اُردو کی قدیم تر تاریخ اور تہذیب کا کوئی شعور ہی نہیں رکھتے ہیں۔
اُن کے ذہن میں PROTO URDUکا سرے سے کوئی تصوّر ہی موجود نہیں ہے گویا جدید
اُردو زبان اچانک خلا سے ظہور میں آ گئی ہے۔ اُن کے نزدیک صدیوں کا عوامی
میل جول،بولیوں کا گھُلنا ملنا اور لسانی جڑوں کی نشو نما پانا سرے سے کوئی
معنی ہی نہیں رکھتا ہے۔ اُن کے تنگ اور محدود تر خیال میں قدیم اُردو ایک
عرصہ ہوا تاریخ کے میدان سے باہر نکل چکی ہے۔ اُن کی اُردو کی لوک روایت سے
نا واقفیت اور نا آ گہی دراصل ایک طرح کے عوام دشمن رویہ پر دال ہے۔ اُن کی
اس لسانی تنگ نظری نے اُردو زبان کی ماقبل تاریخی جڑوں اور لوک روایت کو
ایسا نقصان پہنچایا ہے جس کی تلافی شائد ممکن ہی نہ ہو کیوں کہ اگر اُردو
کی زبانی روایت (ORAL TRADITION)یا عوامی روایت کا کوئی وجود ہی نہیں ہے تو
پھر اُردو لے دے کر جاگیرداری نظام کی زبان رہ جاتی ہے۔ جس کا عمل دخل فقط
شہروں اور درباروں تک محدود ہو کر رہ جاتا ہے۔ گویا اُردو ادب کی تاریخ کا
نقطئہ آغاز ولی سے ہوتا ہے۔ میں نے اُردو کی وسیع ترعوامی تاریخ کو ویدک
ادب کے پس ِ منظر میں تلاش کیا ہے اور وہاں سے اُردو اور امن (بمعنی
ماورائے دماغ،شانتی،ایمان اور اسلام کے معنوں میں )ویدک رچاؤں (آیتوں)کے
حوالوں کی الوہی اور قدسی روشنی میں پیش کیا ہے اور آج بھی اُردو اور امن
انھیں مبارک معنوں میں پوری دُنیا کے اُردو ادب میں مستعمل ہے۔
میری کتاب”ویدک ادب اور اُردو“ بزم قلم کے نیٹ پر موجود ہے۔ براہ کرم اُس
کا دلجمعی اور دلسوزی سے مطالعہ کریں۔ فاروقی کا استعمال شدہ جملہ ”جدید
ہندوستان میں (ہندوستانی =ہندو) تشخص کا“ مساوات انتہائی گمراہ کن فرقہ
پرستانہ رجحان کا ترجمان ہے۔ ذرا آپ غور فرمائیں ”ہندوستانی“ کا تصوّر
مہاتما گاندھی،پنڈت سندر لال اور وشمبھر ناتھ پانڈے کا انتہائی غیر
متعصبانہ انسانی تصوّر ہے۔ اُس کا بھار تیہ جنتا پارٹی یا جن سنگھ کا سرے
سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ غالباً فاروقی اور آپ کی نظر سے پنڈت سندر لال کا
تاریخ ساز جریدہ ”ہندوستانی“ نہیں گزرا ہے۔ جو نہایت ذہنی دیانت داری اور
قلبی کُشادہ دلی کے ساتھ بیک وقت اُردو رسم الخط اور ہندی رسم الخط میں
شائع ہوتا تھا ۔ اُردو اور ہندی میں یکساں عبارت ہی پیش کی جاتی تھیں۔
اُردو والے اُردو میں پڑھتے تھے اور ہندی والے ہندی میں یکساں عبارت سے لطف
اندوز ہوتے تھے اور آہستہ آہستہ دونوں زبانوں سے آشنا ہو جاتے تھے۔فاروقی
صاحب یہ شر انگیز اور فرقہ پرست مساوات نہایت شعوری طور پر قائم کر رہے ہیں
اور اُس سے بھی ایک قدم آ گے بڑھ کر نہایت ہی فرقہ وارانہ انداز میں ہندی
اور اُردو کے اتحاد کو شدید ضرب پہنچا رہے ہیں کہ ہندی والے اُردو کو ہندی
کی شیلی کہتے ہیں لہذا اُردو والوں کو اعلانیہ طور پر ہندی کو اُردو کی
شیلی کہنا چاہئے۔ آپ ہی انصاف فرمائیے کہ کس کا ذہنی رویہ اور عملی برتاؤ
طالبانہ اور لشکرانہ کردار اور سیرت کا علمبردار ہے۔ آپ جیسے ذمہ دار
مدیراور فاروقی جیسے ناقد کا یہ ایبنارمل مجاہدانہ اور مفسدانہ زاویئہ نگاہ
اور پروپیگنڈائی عمل ”اُردو کیمپس “کی پروردہ نئی نسل پر کتنے مذموم اثرات
مرتب کرے گا۔ میری کتاب ”ویدک ادب اور اُردو“ سے تو یہ انکشاف ہوتا ہے کہ
اُردو خالص ہندوستانی شناخت کا ستارئہ امتیاز ہے۔البتہ فاروقی تاریخ کی
فرقہ پرور تعبیر کی از سرِ نو تدوین کر غیر ذمہ دارانہ مر حلئہ تحقیق کو سر
کرنے کے خبط میں مبتلا ہیں۔
ڈاکٹر اجے مالوی |