یہ کہاوت مشہور ہے اب کے مارکے
دیکھ۔ ہے تو کہاوت مگرلگتا ہے کہ یہ ہمارے موجودہ ارباب اختیار و اقتدار
کےلیئے بنی۔ اس دور میں ان سے زیادہ اور کوئی موزوں افراد یا قوم نہیں۔ یہ
تو عام مشاہدہ ہے کہ کسی نمبردار، وڈیرے یا بڑے بدمعاش کے کسی آدمی نے کسی
کو مارا تووہ کمزور ، مظلوم اور بے بس کیا کرتا اس نے اپنے دکھوں کا
مداواکرنے یا دل کو محض تسکین دینے کے لیئے وڈیرے، بدمعاش یا نمبردار کے
حضور حاضری دی ، ساری بپتا سنائی۔ اس صاحب طاقت کے کارندے کے مظالم پر
روروکرہلکان ہوتا رہا۔ حالانکہ اسے اچھی طرح علم تھا کہ قبل ازیں ایسے کئی
واقعات ہوئے اور وہ اس چوکھٹ پر اپنی مظلومیت کی داستانیں سناتا رہا۔ سر پر
دست شفقت پھیرا گیا اور تسلی دی گئی کہ ہم حالات و واقعات معلوم کریں گے ۔
کہ اس نے ایسا کیوں کیا۔ تم فکر نہ کرو اپنے خرچ پر زخموں کا علاج کرالو۔
کچھ ایسا ہی ہمارے ساتھ ہورہا ہے۔ امریکی بدمعاش پاکستان کی سرزمین پر دہشت
گردی کا عمل باربار دہرا چکے ہیں۔ ہمارے حکمران اور ارباب اختیار فورا اپنے
اپنے اہم اجلاسات طلب کرتے ہیں۔ آمدن، نشستن، گفتن، خوردن و برخاستند۔ آنا،
بیٹھنا، گپ شپ لگانا، کھانا اور چلے جانا۔ میڈیا پر خبریں بڑے پرعزم و
استقلال کی نشر ہوجاتی ہیں۔ فلاں صاحب مسند نے فلاں محل میں اور فلاں صاحب
نے فلاں ایوان میں اجلاس طلب کرلیا ہے۔ عوام سمجھتے ہیں کہ اب امریکہ کے
صلیبی حملے کا جواب دیا جائے گا۔ قوم اپنے طور پر جہاد کے لیئے تیار ہوجاتی
ہے مگر کھودا پہاڑ نکلا چوہا وہ بھی مرا ہوا۔ ایک صاحب نے امریکی سفارتخانے
کو اپنی عاجزی اور تابعدار ی کی روئداد یاد دلاتے ہوئے روتا دھوتا خط لکھا،
دوسرے نے یورپین یونین میں رونا شروع کردیا جناب ہم آپکے تابعدار
وفرمانبرار ہم پر یہ تہمت ہے خود مختار ی کی، حضور جو چاہتے ہیں ہم وہی
کرتے ہیں ہم نے کبھی اپنی مرضی کی نہ آئندہ کریں گے۔ مگر خیال فرمائیں کہ
ہم جو آپکی مسلط کردہ آپکی دہشت گردی کی لڑائی لڑ رہے ہیں وہ ہمارے عوام
میں مشکوک ہوجاتی ہے۔ ہم تو ویسے بھی جناب کے نام پر لگ بھگ چالیس ہزار
پاکستانی مجاہدین کی قربانی حضور پیش کرچکے ہیں۔ انمیں کونسا کوئی ہمارا
بھائی، بھتیجا، بیٹا یاقریبی رشتہ دار قربان ہوا۔ عوام تو ہیں ہی قربانی کے
لیئے۔ ایک اور صاحب نے راگ الاپا کہ ہم سرکار عالیہ امریکہ سے احتجاج کریں
گے۔ شاباش انکی فکرررسا پر۔ جو قصائی ہاتھ میں لیئے چھراذبح کرتا پھر رہاہے
اس سے رحم کی اپیل۔
گزشتہ رات میں نے ناگوار خواب دیکھا بیداری پر سوچا کہ اس کا کیا مطلب
ہوسکتا ہے۔ تو دن کو پتہ چلا کہ خبیث امریکیوں نے پاک سرزمین پر اپنی
سرزمین کی حفاظت کے فرائض سرانجا م دینے والے قوم کے مجاہدین کی بڑی تعداد
شہید کردی۔ میں انتظار میں تھا کہ کچھ دیر میں ہی جوابی کاروائی ہو جائے
گی۔مگرتادم تحریرایسی کوئی کاروائی عمل میں نہیں آئی۔ حیرت ہے کہ امریکی
حکومت نے کس طرح ایمل کانسی کو اٹھوایااور اپنے شہریوں کے قتل کا بدلہ لینے
کےلیئے کروڑوںروپیہ دیا۔ پھر ریمنڈ دیوس کو ہمارے حکمرانوں نے کروڑوں روپیہ
لیکر عزت و احترام کیساتھ امریکہ بھجوادیا۔ اسے کہتے ہیں عوام کے محافظ
حکمران۔ ہمارے سابقہ زبردستی کے صدر نے تو خود تسلیم کیا کہ اس نے چھ صد سے
زائد افراد اربوں ڈالر لے کر امریکہ کے حوالے کیئے۔اسی لیئے ایک دفعہ
امریکیوں نے کہا کہ پاکستانی اپنی ماں کا بھی سودا لگاسکتے ہیں۔عوام میں
غیرت و حمیت ہے ۔ قوم اپنی جان اور مال سب کچھ قربان کرنے کوہمہ وقت
تیارہے۔ مگر عوام پر مسلط حکمرانوں کی سوچ اور عمل عوامی فکر وعمل سے یکسر
مختلف ہے۔ عوام کی بدبختی ہے کہ ان پر سینما کے ٹکٹ بلیک کرنے والے اور
نائی حکمران ہیں۔ یا وہ لوگ جو انگریز کی جوتیاں صاف کرتے رہے ۔ انگریز
انہیں ان خدمات ذلیلہ کا صلہ جاگیریں عطا کیں۔ وزیراطلاعات کا کہنا ہے کہ
امریکیوں کے اس حملہ سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو نقصان پہنچے گا۔ بایں عقل
و دانش بیاید گریخت۔ خبر کے مطابق 28 مجاہدین کی لاشیں اٹھ رہی ہیں اور اس
محروم فردوس کو امریکی نوکری کی پڑی ہوئی ہے۔ محروم فردوس کا کوئی بیٹا
بھائی وغیرہ شہید ہوا ہوتا تو پھر دیکھتے کہ وہ کیا بیان دیتی۔ ہمارے سابق
اور موجودہ حکمرانوں نے امریکیوں کو ہرطرح سے سہولیات فراہم کررکھی ہیں۔
ہوائی اڈے، حساس مقامات تک رسائی، سامان حرب و ضرب اور خوردونوش کی بہم
رسانی ، ڈرون حملوں کی آزادی اور پاکستانکی سرزمین پر ہوائی حملے کرکے
مجاہد یں اسلام کوشہید کرنا۔ حکمران یاد رکھیں کہ پاکستان ہے تو انکی عزت،
جان اور مال محفوظ ہے۔ تعجب خیز امر ہے کہ جہاں صلیبیوں نے حملہ کیا وہاں
ہمارے مجاہدین کی بڑی تعداد موجود تھی کیونکہ28 شہید بتائے گئے اور متعدد
زخمی ۔ کیا انکے پاس ایک بھی اینٹی ایرکرافٹ گن نہ تھی کہ ان خبیثوں کو
نشانہ بناتے۔ اگر گن تھی تو پاکستانی نشانچیوں سے وہ کیسے بچ گئے؟ دو میں
سے ایک بات ضرور تھی کہ انکے پاس اینٹی ایر کرافٹ گن نہ تھی اگر تھی تو
انہیں چلانے کا حکم نہ دیا گیا۔ صلیبی ہیلی کوپٹروں کو نشانہ بنانے سے کس
نے روکا۔ ان امور پر سالار اعلی تحقیق کریں۔ دوسری بات کہ جب اتنا بڑا حملہ
ہوگیا تو اسکی اطلاع تمام دفای ذمہ داران کو ملی تو پاکستانی فضائیہ نے کیا
جوابی کاروائی کی؟ پاکستان تو مذاق بن گیا ہے۔ کبھی امریکی بدمعاش ایبٹ
آباد آکر پاکستانی حدود میں اس قدر اندر آکر کاروائی کرجاتے ہیں اور ہم بے
بس ہوتے ہیں۔ ڈرون حملے کرجاتے ہیں اور ہمارے ملک کے اند ر ہمارے بچوں ،
عورتوں اور بوڑھوں کو بھی قتل کرکے چلے جاتے ہیں۔ اور ہمارے یہاں منگھڑت
کہانیاںنشر ہوتی ہیں کہ اتنے دہشت گرد مارے گئے۔ یہ سب جھوٹ ہے۔ پاکستان
کوئی دہشت گردی کی لڑائی نہیں لڑرہا یہ تو ہمارے حکمرانوں کی امریکہ کو خوش
رکھنے اور اس سے ڈالر کے حصول کا بہانہ ہے۔ سچے طالبان افغانستان میں
امریکہ کو شکست سے دوچار کررہے ہیں مساجد اورمزارات پر حملے کرنے والے
امریکی طالبان کاسازشی گروہ ہے۔ ہمارے حکمرانوں اور ارباب اقتدار کی آنکھیں
نہیں کھلیں کہ صلیبیوں نے پاکستان پر کھلی جارحیت کردی۔ اب میں افواج
پاکستان کے سالار اعلی سے مطالبہ کرتا ہوں کہ سنت نبوی ﷺ پر عمل کریں اور
اپنے 28 بچوں کا بدلہ لیں۔ صلح حدیبیہ کے وقت جب یہ اطلاع آئی کہ حضرت
عثمان غنی رضی اللہ عنہ جو بطور سفیر مکہ معظمہ گئے تھے انہیں شہید کردیا
گیا ہے تو حضور سیدالمرسلین ﷺ نے خون حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا بدلہ
لینے کے لیئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بیعت لی جس کاذکر قرآن کریم کی
سورة فتح میں آیا ہے۔ مسلمان جنگ کے لیئے شمشیر بکف ہوگئے۔کفار مکہ کو جب
اس بیعت کا علم ہوا تو انہوں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کوواپس بھیج دیا
کیونکہ ابھی انہیں صرف قید رکھا ہوا تھا۔ اس سے اس امر کی وضاحت ملتی ہے کہ
کفار سے خون مسلم کا بدلہ لینا لازمی امر ہے۔ جیسا کہ بعد میں حجاج بن یوسف
نے محمد بن قاسم کو مسلمان عورتوں، بچوں مردوں اور انکے مال کی آزادی کے
لیئے سندھ پر حملہ آور ہونے کا حکم دیا۔ تو کیا ہمارے جنرل کیانی تاریخ کے
سنہرے باب الٹائیں گے؟ ہا ں یہی وقت ہے زندگی کب ختم ہوجائے کوئی نہیں
جانتا۔ یہ موقع ہے کہ تاریخ میں خیرالامم کے وفاداروں میں نام درج ہوجائے۔
امریکہ محض میڈیا کے ذریعہ شیر بنا ہوا ہے اسکی مثال غبارے کی سی ہے۔ زیادہ
ہوا تو طالبان نے نکالدی ہے۔ جو رہ گئی ہے وہ ایران نکالدے گا۔مگر آپ بھی
اپناحصہ ڈالیں تاکہ اس دور کی تاریخ بعد والوںکے لیئے مشعل راہ ہو۔ یورپی
یونین ،اقوام متحدہ یا امریکہ کے سامنے رونے دھونا بزدلی اور کمزوری کا
اظہار ہے۔ ہونا یہ چاہیئے کہ پاکستانی فضائیہ اس جواب پتھر سے دے اور پھر
امریکہ دہائی دیتا نظر آئے۔ دوسری گذارش ہے کہ فوری طور پر امریکیوں سے اڈے
خالی کرائے جائیں اور افغانستان میں اتحادی افواج کی پاکستان کے راسے
سپلائی بند کی جائے ۔اور اہم اقدامات کرکے قوم کو کرB کی اذیت سے نکالا
جائے۔ |