مراکش انتخابات:اسلام پسندوں کی برتری

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

ماہ نومبر2011ءکے اواخر میں جمعة المبارک 25نومبرکومنعقدہونے والے شمالی افریقہ کے ملک مراکش کے عام انتخابات میں اسلام پسندسیاسی جماعت The Islamist Justice and Development Party (IJD)نے واضع اکثریت حاصل کر لی ہے۔اس اکثریتی کامیابی کے باعث جولائی 2011میں منظور ہونے والے نئے دستورکے مطابق اب مراکش میں اسلام پسندوں کوحکومت بنانے کا آئینی حق حاصل ہو چکاہے۔اطلاعات کے مطابق 395نشستوں کے حامل ایوان میں اب تک 80نشستیں مذکورہ اسلامی سیاسی جماعت حاصل کر چکی ہے ،جوکسی سیاسی جماعت کی حاصل کردہ سب سے زیادہ نشستیں ہیں۔عبداﷲ بن کیران اس جماعت کے سیکریٹری جنرل ہیں،انہوں نے اس کامیابی پرقوم کا شکریہ اداکیاہے۔عبداﷲبن کیران نے اس سے پہلے 90سے 100نشستوں پر کامیابی کادعوی کیاتھا،ان کااندازہ اس لحاظ سے درست ثابت ہوگا کہ حکومت سازی کے بعد ایوان کی خصوصی نشستوں پرہونے والے چناؤ کو ملاکریہ تعدادمکمل ہو سکتی ہے۔مراکش کے موجودہ وزیراعظم ”عباس الفصی“کی استقلال پارٹی نے بھی بمشکل 45نشستیں ہی حاصل کی ہیں جس کے باعث انہوں نے اعلان کیاہے کہ وہ حکومت سازی میں اسلام پسندوں کے ساتھ اتحادکریں گے اورمل کرحکومت بنائیں گے۔مراکش کی وزارت داخلہ کے مطابق انتخابات میںووٹوں کی شرح45.4%رہی ہے،جب کہ کل رائے دہندگان کی تعداد 13.5ملین ہے۔

”مراکش“شمال مغربی افریقہ کا ایک مسلمان ملک ہے۔اس ملک کی تاریخی اہمیت اسکے جغرافیے سے یوں واضع ہوتی ہے کہ اندلس کے ساحلوں پر جبل الطارق نام کی پہاڑیاں مراکش کے ساحل کے باالمقابل ہیں۔یہ وہ پہاڑیاں ہیں جہاں طارق بن زیاد نے اندلس پر حملہ کرتے ہوئے اپنے جہاز نذر آتش کر دیے تھے تاکہ فوج کے ذہن سے واپسی کاخیال نکل جائے اور فتح یا شہادت میں سے کوئی منزل انکے قدم چومے۔مراکش ایک طویل تاریخی عرصے سے عرب افریقی بربر قبائل کامسکن رہاہے۔یہ علاقہ سلطنت روماکا انتہائی مغربی صوبہ رہااور طلوع اسلام کے بعد بھی جب یہ اسلامی قلمرو میں شامل ہواتو اسے مغرب کے نام سے ہی جانا جاتا رہا۔مراکش قدیم تہذیبی و ثقافتی روایات کی حسین آماجگاہ ہے۔یہاں کی عمارات اپنی تاریخی قدیمی روایات کا خوبصورت اظہار ہیں۔”کیسابلانکا“مراکش کا مشہورشہر ہے جو بحراوقیانوس کی بڑی بندرگاہوں میں سے ایک ہے،جبکہ ”رباط“یہاں کا دارالخلافہ ہے۔ابن بطوطہ نے یہاں کی خوراک اور پانی کی بہت تعریف کی ہے۔

مراکش کے مشرق میں الجیریاکا ملک ہے،جنوب مغرب میں دنیاکابہت بڑا صحرا ہے،مغرب میں بحراوقیانوس اور شمال میں بحیرہ روم ہے۔افریقہ کا واحد ملک مراکش ہے جو بحیرہ روم اور بحراوقیانوس کو باہم ملاتاہے۔انہیں دو سمندروں کی جائے ملاپ کے اس پار جبل الطارق کی پہاڑیاں ہیں جہاں آج تک برطانیہ کا قبضہ ہے۔مراکش زیادہ تر پہاڑی علاقہ ہے اور اس ملک میں پہاڑی سلسلے میلوں دور دور تک پھیلے ہوئے ہیں اور بعض مقامات پر یہ پہاڑی سلسلے باہم ایک دوسرے کو کاٹتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں۔ان پہاڑی سلسلوں میں بلندوبالا پہاڑوں کی چوٹےاں بھی ہیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ مراکش کی سڑکیں صدیوں پرانے راستوں پر بنائی گئی ہیں۔انہیں پہاڑی سلسلوں کی وجہ سے وہاں کے بہنے والے دریاہزارہاسالوں سے ایک ہی سمت میں بہتے چلے جارہے ہیں۔دواطراف میں سمندر اور ایک طرف بہت بڑے صحرا کے باعث یہاں کا موسم عجیب و غریب خصوصیات کا مالک ہے۔بڑے بڑے صحرائی طوفانوں کے ساتھ ساتھ بادوباران کے جھونکے بھی یہاں کثرت سے آتے ہیں۔

مراکش کی ”دی اسلامک جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی“نے اس سے قبل بھی انتخابات میں حصہ لیاتھا،1997کے انتخابات میں کل 8نشستیں ہی حاصل کر پائی تھی لیکن محنت شاقہ کے باعث اس اسلامی جماعت نے 2002کے انتخابات میں 42نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔اس کے بعد2007کے انتخابات میں اس جماعت نے 47نشستیں حاصل کیں اور ملک کی دوسری بڑی جماعت بن کر ابھری۔دنیابھر میں عام طورپراورمسلمان اکثریتی ممالک میں خاص طورپرخاندانی سیاسی نظام،سودی معاشی نظام اور جمہوریت کے نام پر استبدادکے تسلط کے خلاف ایک عام لہر پائی جاتی ہے اور بالخصوص آزادی نسواں کے نام پر سیکولریورپی تہذیب نے شرق تاغرب جو طوفان بدتمیزی مچارکھاہے اس کا دوٹوک ردعمل اب افریقی ممالک میں بھی سامنے آ رہا ہے جس کاتازہ ترین عندیہ مراکش کے حالیہ انتخابی نتائج ہیں جن میں ملکی عوام کی فیصلہ کن اکثریت نے ایک اسلامی جماعت پر اپنے اعتمادکے اظہار کے ذریعے کیاہے۔ان انتخابات کی جانچ کے لیے 21ممالک کے 41نمائندوں نے ملک کے بیشتر علاقوں کادورہ کیااور دوسوسے زائد پولنگ اسٹیشنزپر گئے اور لوگوں کے جوق درجوق ذوق و شوق کو اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیااور اس بات کی شہادت رقم بند کی کہ یہ انتخابات خالصتاََ صاف اور شفاف تھے اور برآمد ہونے والے نتائج باکل صحیح اور قابل اعتماد ہیں۔

”دی اسلامک جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی“نے ابتدامیںہی اپنے منشورکو اسلامی بنیادوں پر استوار کیاچنانچہ گزشتہ انتخابات میں اس جماعت نے موسیقی کے میلوں اور سرعام شراب کی خریدوفروخت پر کڑی تنقید روارکھی بعد میں اس جماعت نے ملک میں بدعنوانی کو بھی اپنے ہدف تنقیدکانشانہ بنایااورقوم سے وسیع بنیادوں پرملازمت دینے کے بھی وعدے کیے۔حالیہ انتخابات میں ”دی اسلامک جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی“نے قوم سے وعدہ کیاہے کہ وہ غربت کو موجودہ سطح سے نصف تک کم کردیں گے اور تنخواہوں میں بھی 50%تک اضافہ کریں گے۔اس جماعت کی قیادت نے یورپی تعصب و تنگ نظری کے برعکس مغرب کے ساتھ اپنے تعلقات مضبوط کرنے کا بھی اعلان کیاہے چنانچہ عبداﷲ بن کیران نے اعلان کیاہے کہ مغربی ممالک کوسیاحت کے حوالے سے اور دیگر معاملات میں پارٹی کی آنے والی حکومت سے خائف ہونے کی ضرورت نہیں۔اسلام پسندوں کی یہ اعلی ظرفی ملک کے اندر بھی موجود ہے کہ وہ اپنے سے متضاد نظریات کے حامل گروہوں کو بھی آنے والے سفر میں ہم سفر بنانے کو تیار ہیں۔

سیاسی نظام کے اعتبار سے مراکش کے اندر آئینی بادشاہت اور پارلیمانی دونوں ہم قدم چلتے ہیں۔جولائی 2011کی اصلاحات کے مطابق بادشاہ نے اگرچہ اپنے بہت سے اختیارات وزیراعظم کو سونپ دیے ہیں لیکن ہنوز بادشاہ کے پاس بھی بہت سی انتظامی قوتیں موجود ہیں۔نئی اصلاحات کے اندرحزب اختلاف کے وجود کو قانونی طور پر تسلیم کیاگیاہے اورملک کو کثرتی سیاسی جماعتی نظام دے دیاگیاہے جس میں ایک سے زیادہ سیاسی جماعتیں اس نظام میں اپنا کردار اداکریں گی۔حکومتی و انتظامی اختیارات وزیراعظم کے پاس ہوں گے اورقانون سازی کے لیے جملہ جمہوری ممالک کی طرح یہاں بھی دو ایوان ،ایوان بالااور ایوان زیریں ہوں گے جبکہ آئین کے مطابق ملک میں عدلیہ کاادارہ آزادوخود مختار طریقے سے کام کرے گا۔بادشاہ کے بارے میں آئین میں لکھاہے کہ وہ ملک کا دستوری سربراہ ہونے کی حیثیت سے دین محمدیﷺ کاپاسدار بھی ہے۔بادشاہ اس بات کا بھی پابندہے کہ ملکی قومی انتخابات میں جیتنے والی پارٹی کو وزارت عظمی کی پیش کش کرے ۔

مراکش بنیادی طور مسلمانوں کلا ملک ہے ،یہاںپر عرب اور کچھ مقامی قبائل آبادہیں۔مقامی قبائل زیادہ تر مراکش کے پہاڑی علاقوں میں رہائش پزیر ہیں ،جو اپنی زبان بولتے ہیں اور انکی اپنی مقامی روایات اور اپنی ہی تہذیب ہے جس کے تحت وہ زندگی کے جملہ امور سرانجام دیتے ہیں۔ایک زمانے میں یہ علاقہ غلاموں کی تجارت کے لیے عالمی شہرت رکھتاتھاشاید اسکی وجہ یہ تھی کہ یہ افریقہ کے ان چند ممالک میں سے ہے جنہیں بحراوقیانوس جیسے سمندر کا پڑوس حاصل ہے اور یہاں سے اسپین کے ساحل بہت کم فاصلے پر ہیں۔آج انسانیت کے دعوے داریورپین اقوام کے تاجرآج سے کچھ پہلے غلاموں کے شکار کے لیے یہاں کثرت سے آیا کرتے تھے۔پندروہیں صدی کے آخر میں جب یورپی صلیبی افواج نے اسلامی اندلس میں ظلم و جبر اور سفاکی و درندگی کی روح فرساتاریخ ساز روایات رقم کرنا شروع کیں تو وہاں کے مسلمان پناہ گزینوں کی بہت بڑی تعدادمراکش میں ہجرت کر کے آباد ہوگئی۔اسرائیل کے قیام سے پہلے تک یہودی یہاں کی سب سے بڑی اقلیت تھے لیکن اب انکی خاصی بڑی تعداد یہاں سے منتقل ہو گئی ہے۔

ہم امید کرتے ہیں کہ مراکش کے حالیہ انتخابی نتائج مراکش کی اسلامی نشاة ثانیہ کے لیے سنگ میل ثابت ہوں گے۔گزشتہ چند صدیوں سے صلیبی اقتدارنے سیکولرمغربی تہذیب کے ساتھ مل کر جہاں یورپی اور ایشیائی عوام کااستحصال کیاہے وہاں بلامبالغہ ظلم و جبرو قہرواستتبدادکے بے پناہ و ان گنت چکیاں افریقی عوام کی گردنوں پر بہت بے رحمی سے چلائی ہیں۔اسلامی ذہن رکھنے والی قیادت رحمة اللعاملین کے عالمی فلاحی پیغام کے علمبردار افرادکامجموعہ ہوتی ہے جو بلاتفریق رنگ و نسل و مذہب کل انسانیت کو غلامی و ہوس نفس کے اندھیرے غار سے نکالنے عزم رکھتی ہے۔قرون اول میں میں بھی اسلامی پرچم حجازمقدس کے بعدسب سے پہلے افریقہ کی سرزمین پر پہنچاتھااور اب بھی اکیسویں صدی کے طلوع کے ساتھ ہی بلال حبشی کی اس سرزمین سے آنے والی ٹھنڈی ہوئیں امت مسلمہ کواور عالم انسانیت کو اچھے دنوں کی نوید سنا رہی ہیں۔
Dr. Sajid Khakwani
About the Author: Dr. Sajid Khakwani Read More Articles by Dr. Sajid Khakwani: 470 Articles with 572078 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.