کچھ لوگ دنیا سے سجتے ہیں اور
کچھ لوگوں سے دنیا سجتی ہے۔جہاں سے گذر جاتے ہیںراستے مدتوں ان کی مہک سے
مہکے رہتے ہیں۔وہ جہاں کہیں بھی ہوں ان کے کردار کی عظمت ان کے حریفوں کو
بھی ان کی عزت کرنے پہ مجبور کرتی ہے۔وہ اپنے قول فعل اور عمل سے ثابت کرتے
ہیں کہ وہ قابل تقلید ہیں۔ایسی عزت اللہ کریم کسی کسی کو ہی ودیعت کرتا ہے
کہ ہر اپنا بیگانہ راہ حق کی تلاش میں ان کی طرف دیکھتا ہے۔وہ باغی ہو تو
ایک دنیا بغاوت پہ آمادہ ہو جاتی ہے اور وہ تعمیر کے لئے نکلیں تو بھی ان
کے دیوانوں کی کوئی کمی نہیں ہوتی۔انہیں مالک پیدا ہی اس لئے کرتا ہے کہ
ایک زمانہ ان کے فیض سے فیضیاب ہو سکے۔سچ اور حق ان کا طرہ امتیاز ہوتا
ہے۔اعزاز ایسا کہ دوسرے گروہ میں ہوں تو اللہ کا محبوب ﷺ بھی ان کے اپنی
طرف آنے کی دعا مانگتا ہے۔
میں بھی اپنے آقا ﷺ کی سنت کے عین مطابق آج وہی دعا مانگنے جا رہا ہوں۔آپ ﷺ
نے اللہ کریم سے دعا کی تھی کہ اے میرے مولا،عمر ابن ہشام یا عمر ابن خطاب
میں سے کسی ایک کے ساتھ اسلام کو غلبہ عطا فرما۔پھر حضرت عمر ابن خطاب رضی
اللہ عنہ پہ کرم ہو گیا اور آج بھی دنیا انہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کے نام سے یاد
کرتی ہے۔ہماری ملکی سیاست اور اس پہ سوار پیران تسمہ کا کردار اس قدر مایوس
کن ہے کہ اس بوسیدہ نظام ہی سے پاکستان کے عوام نفرت محسوس کرنے لگے
ہیں۔عوامی نمائندگی کے دعویدار یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ ملک کی غالب
اکثریت اس فرسودہ نظام میں اپنی رائے تک نہیں دیتی۔اس کے باوجود یہ دو
تہائی اور تین دھائی کی رٹ لگاتے نظر آتے ہیں۔
ایسے میں کچھ دم غنیمت ہیں۔جنہیں دیکھ کے دور کہیں امید کے چراغ روشن ہوتے
ہیں۔انہی چند ناموں میں سے ایک نام ملتان کے مخدوم محمد جاوید ہاشمی کا بھی
ہے۔ملتان کا یہ فقیر زمانے کا بادشاہ ہے۔جب میٹھا میٹھا ہڑپ کرنے والے اپنے
صندوق اور مالشئیے بغل میں دابے ملک سے فرار ہو رہے تھے تو انہیں اپنی
وراثت کی حفاظت کے لئے ایک چوکیدار کی ضرورت تھی۔چوکیدار بھی ایسا جو ان کے
غلاموں کو ان کی واپسی ہی من و عن انہیں لوٹا دے ۔اس وقت جب چوری کھانے
والے سبھی میاں اور میاں کے مٹھو جبر کے سامنے سر کے بل گرے تھے۔یہی ایک
مرد مجاہد تھا جو سر بلند تھا۔جب آج کی طرار زبانیں گنگ ہو کے رہ گئیں تھیں
تو اس وقت یہی مرد حر تھا جس نے وفا کی ایک نئی طرز ایجاد کی تھی۔جس نے
سمجھوتہ کرنے اور میدان چھوڑ کے بھاگنے کی بجائے مقابلہ کرنے کا عزم کیا
تھا۔جس نے سر عام کہا تھا کہایسے دستور کو صبح بے نور کو میں نہیں مانتا
میں نہیں مانتا۔حبیب جالب کا یہ کلام آج بھی کچھ بہروپیے بڑے ذوق و شوق سے
اپنے جلسوں کی رونق بڑھانے کو گاتے پائے جاتے ہیں۔ اس وقت ایک جاوید ہاشمی
ہی تھا جس نے اپنی زبان سے نہیں اپنے عمل سے دنیا کو بتا یا تھا کہ میں
باغی ہوں اور اسی جرم کی پاداش میں اسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا
گیا تھا۔سر مقتل بھی اس کی سج دھج دیکھنے والی تھی۔اسے کیا کیا لالچ نہ
دئیے گئے مگر کوئی رعایت کوئی عہدہ اور کوئی لالچ اسے خریدنے کی ہمت نہ کر
سکا۔
ظلم کی اندھیری رات چھٹی تو جاوید ہاشمی معتوب و محضوب قرار دے دیا
گیا۔اسنے بڑے حوصلے سے ایک آمر کا مقابلہ کیا تھا لیکن اب کی بار اسے راندہ
درگاہ قرار دینے والے کوئی اور نہیں وہی چوری رگڑنے والے میاں مٹھو تھے جن
کے ماتھوں پہ ملی مصلحت کی کالک کسی طرح دور ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔ نو
سالہ داد عیش دینے کے بعد جب بادشاہ دوبارہ تخت نشین ہوئے تو خلعتیں پانے
والوں میں جاوید ہاشمی کے نام کا کوئی آدمی نہ تھا۔ ظلم و ستم کی امڈتی
آندھیوں کے سامنے پہاڑ کی طرح ڈٹ جانے والا جاوید ہاشمی اس پہ بھی خاموش
رہاکہ اسے زہر ہلاہل کو قند کہنے کی عادت نہیں تھی۔وفا شعاروں کا شاید مقدر
یہی ہوتا ہے۔اس نے اس پہ بھی چپ سادھ لی لیکن اندر پلنے والے طوفان کے
سامنے بند باندھنا بھلا انسان کے بس میں کہاں ہوتا ہے۔اس بے اعتنائی کو
سہتے سہتے اس کے دماغ کی رگیں پھٹ گئیں اور جو اس کا کارن تھے اس کی عیادت
کو اس وقت پہنچے جب ایک دنیا نے لعن طعن کر کے انہیں ہسپتال پہنچنے پہ
مجبور کر دیا۔
مخدوم صاحب!میں عمران خان کو حسین رضی اللہ عنہ کے قدموں کی خاک کے برابر
بھی نہیں مانتا لیکن اتنا ضرور مانتا ہوں کہ آ ج کے دور میں وہ حسینی ورثے
کا علمبردار ضرور ہے۔میں کسی کو یزید نہیں کہتا لیکن مخلوق خدا کا استحصال
کرنے والوں کو،انہیں لوٹنے والوں کو ،اس لوٹ مار میں مدد کرنے والوں کو ،ان
کا حق مار کے ان کے خون پسینے کی کمائی سے محلات بنانے والوں کو میں حسینی
کہنا بھی چاہوں تو کیسے کہوں۔جس طرح حسین ہر دور میں زندہ ہیں اسی طرح یزید
کی روح بھی اپنی تمام تر خباثتوں کے ساتھ شیطانیت کا ننگا ناچ جاری رکھے
ہوئے ہے۔پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ آج کے دور میں حسین ہوں یزید ہوں اور حضرت
حر کے غلام نہ ہوں۔حسین کے غلام آج کی کربلا میں ہیں۔ظلم و جبر کے خلاف ،استحصال
اور طبقاتی تقسیم کے خلاف،چوروں لٹیروں اور ڈاکوﺅں کے خلاف۔انہیں آپ کا
انتظار ہے۔آپ نے آنا تو ہے ہی۔اس کا ہمیں یوں یقین ہے کہ برائی اور برائی
کی طاقتوں کے خلاف لڑنا اللہ نے آپ کی سرشت میں رکھ دیا گیا ہے۔میں جانتا
ہوں کہ وفا شعاری آپ کے قدم روکے ہوئے ہے ۔مروت اور وضع داری جو ایک مومن
کا خاصہ ہے زنجیر بنی ہوئی ہے ورنہ یقین آپ کو بھی ہے کہ آپ جہاں ہیںوہ جگہ
آپ کی طبیعت سے میل نہیں کھاتی۔
مخدومی! جب حق آتا ہے تو باطل مٹ جاتا ہے۔حق آشکار ہو چکا۔ظلم کے سیاہ رات
چھٹنے کو ہے۔حق کی موجودگی میں ماں باپ کے دین پہ قائم رہنا کٹھور دلوں ،بہرے
کانوں اور اندھی آنکھوں کی نشانی ہے۔آنا تو آپ نے ہے ہی آج آئیں یا کل لیکن
آج آئیے ناں کہ ہم اپنے نبی ﷺ کی سنت پہ عمل پیرا ہوتے ہوئے دعا گو ہیں کہ
اے اللہ مخدوم محمد جاوید ہاشمی اور اس جیسے دوسرے صاحبانِ علم و بصیرت سے
عمران خان اور تحریک انصاف کو سر بلند فرما۔میری عمران خان سے بھی درخواست
ہے کہ وہ بھی میری اس دعا کے جواب میں آمین کہیں اور شاہ محمود قریشی سے
بھی درخواست کریں کہ وہ بھی اپنے جد امجد کے وسیلہ سے مخدوم کی لشکر حسین
میں شمولیت کی دعا کریں۔مالک کل سے بھی دعا ہے کہ اے دلوں کے پھیرنے والے
اگر ہم حق پہ ہیں تو مخدوم جاوید ہاشمی کی سیاسی بصیرت اور بصارت سے ہمیں
بہرہ مند ہونے کی تو فیق عطا فرما۔آمین |