وزیراعظم کااندازسیاست اوراندازے

موبائل فون کی بیل ہوئی میں نے فون رسیوکیا تودوسری طرف سے بڑے دوستانہ انداز میں آوازآئی میں اڈیالہ جیل سے یوسف رضاگیلانی بول رہا ہوں ،میں نے آپ کے دوست اور کالم نگاراعجازحفیظ خان سے آپ کانمبر لیا ہے ۔رسمی کلمات کے بعد یوسف رضاگیلانی نے میرے ایک کالم میں اپنے ذکر پرشکریہ اداکرتے ہوئے اپنی نیک خواہشات کااظہارکیا۔میں نے بھی قیدوبندکاسامنا کرنے کے حوالے سے ان کی استقامت اورپیپلزپارٹی کے ساتھ ان کی کمٹمنٹ پرانہیں کافی سراہا۔یوسف رضاگیلانی نے کہا کہ آپ سے رابطہ رہے گااور پھر چندروز بعدوہ رہاہوگئے مگراس کے بعدپھرکبھی ان سے رابطہ نہیں ہوا۔تاہم اس دوران جیل سے بذریعہ ڈاک بجھوائی ان کی کتاب مجھے موصول ہوگئی ۔سیاستدان جیل سے جوکچھ سیکھتے ہیں وہ زندگی بھرا ن کے کام آتا ہے۔وہ جس کام کیوجہ سے گرفتارہوتے وہ نہیںچھوڑتے مگروہ اس غلطی کونہیں دہراتے جوان کی گرفتاری کاسبب بنتی ہے۔سیاستدان اپنے خلاف بڑی سے بڑی قانونی کاروائی کوسیاسی انتقام کانام دیتے ہوئے اپنا دامن جھاڑکرآگے بڑھ جاتے ہیں اورپیچھے مڑکرنہیں دیکھتے۔انہیں جیل میں بھی وہ سہولیات دستیاب ہوتی ہیں جوکسی فائیوسٹارہوٹل میں بھی نہیں ہوتیں۔

سیاستدان دوستی اوردشمنی سمیت ہرکام اپنے فائدے کیلئے کرتے ہیں۔یہ اپنے مفادکیلئے دوسروں کواستعمال اورپھران کااستحصال کرتے ہیں۔اس وقت ملتان سے تین مخدوم سیاسی افق پرچھائے ہوئے ہیں۔ان میں ایک مخدوم جاویدہاشمی ،دوسرے مخدوم یوسف رضاگیلانی اورتیسرے مخدوم شاہ محمودقریشی ہیں۔ جاویدہاشمی نے مسلم لیگ (ن) کیلئے قیدوبندکاسامنا کیا اورمیاں نوازشریف کی جلاوطنی کے دوران پارٹی کاعلم سربلند مگرفوجی آمر کے روبرو اپناسرخم نہیں کیامگراچھاوقت آنے پرانہیں نظراندازکردیا گیا اوران کی بجائے نثارعلی خان کواپوزیشن لیڈربنادیا،اس کے بعدمسلم لیگ (ن) کی قیادت نے آصف زرداری کے مقابلے میں جاویدہاشمی کی بجائے جسٹس (ر)سعیدالزمان کواپناصدارتی امیدوارنامزدکردیا مگرآفرین ہے جاویدہاشمی پرانہوں نے پھربھی پارٹی نہیں چھوڑی۔ یوسف رضاگیلانی بحیثیت سپیکرقومی اسمبلی اپنے اختیارات سے تجاوزکرنے پرپابندسلاسل ہوئے مگران کی جماعت نے انہیں وزیراعظم اورملتان سے شاہ محمودقریشی کو وزیرخارجہ بنادیا۔ جاویدہاشمی اور یوسف رضاگیلانی دوران اسیر ی مصنف بن گئے۔ جاویدہاشمی کی تحریک انصاف میں جانے کی افواءاڑائی گئی مگر تحریک انصاف میں جس کوجاناتھا وہ چلے گئے۔

مخدوم امین فہیم کے مقابلے میں مقدراور آصف علی زرداری نے یوسف رضاگیلانی کابھرپورساتھ دیا ۔تاہم یوسف رضاگیلانی کو شاہ محمودقریشی سے خطرہ تھاکیونکہ وہ وزارت عظمیٰ کیلئے ایک مضبوط امیدوارتھے مگر آگے چل کرشاہ محمودقریشی اپنے شہردار یوسف رضاگیلانی کی کوئی بھی چال سمجھنے میں ناکام رہے اوروزارت عظمیٰ کی دوڑسے باہرہوگئے۔ یوسف رضاگیلانی نے اپنے اندازسیاست سے اپنے بارے میں سب اندازے غلط ثابت کردیے ۔ وہ ایک طرف صدرآصف علی زرداری کے ساتھ وفاداری کادم بھرتے تودوسری طرف شریف برادران کے ساتھ عہدوپیماکرتے رہے ۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کامنصب ڈانواں ڈول تھا اوران کی چھٹی کے حوالے سے افواہیں زوروں پرتھیں۔انہوں نے اپنامنصب بچانے کیلئے شریف برادران کوبہت خوبصورت اندازسے استعمال کیااوریوں صدرآصف زرداری کوئی بڑا فیصلہ کرنے میں ناکام رہے ۔کسی داناکاکہنا ہے ''جوسب کودوست ہووہ کسی کادوست نہیں ہوتا''۔مگرشریف برادران کویہ بات بہت دیربعدسمجھ آئی لیکن اس وقت تک وزیراعظم یوسف رضاگیلانی نے شاہ محمودقریشی کاکانٹانکال دیا تھا ،وفاقی کابینہ اورپیپلزپارٹی کے اندراس قسم کے حالات پیداکئے گئے کہ شاہ محمودقریشی ایوان صدرکے مدمقابل کھڑے ہونے پرمجبورہوگئے اورنتیجتاً انہیں ایوان صدراورپیپلزپارٹی کیخلاف علم بغاوت بلند کرناپڑا۔ایوان صدراورشاہ محمودقریشی کے درمیان تلخیاں اوردوریاں بڑھتی گئیں اوریوسف رضاگیلانی کاراستہ صاف ہوتا گیا۔اب ملتان شہرمیں یوسف رضاگیلانی کا پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم پر دوردورتک کوئی مدمقابل نہیں ہے۔اگرشاہ محمودقریشی تحریک انصاف کی بجائے مسلم لیگ (ن) میں چلے جاتے تو جاویدہاشمی کیلئے مسائل پیداہوجاتے اوراگرشاہ محمودقریشی پیپلزپارٹی کے ناراض رہنماﺅں کومتحداورمنظم کرنے کابیڑااٹھاتے توصدرزرداری کے ساتھ ساتھ یوسف رضاگیلانی کی پریشانی مزید بڑھ جاتی مگرشاہ محمودقریشی نے اپنے نئے سیاسی سفر کیلئے تحریک انصاف کاانتخاب کیا ہے جس پر جاویدہاشمی اور یوسف رضاگیلانی نے یقینا سکھ کاسانس لیا ہوگا۔شاہ محمودقریشی کامستقبل مسلم لیگ (ن) میں نہیں تحریک انصاف میں تھاکیونکہ مسلم لیگ (ن) کے پاس صدر، وزیراعظم اوروزیراعلیٰ پنجاب کے امیدوار موجود ہیں جبکہ تحریک انصاف کے پاس وزیراعظم کے سوا کوئی امیدوار نہیں ہے۔تحریک انصاف میں عمران خان کے بعد شاہ محمودقریشی نمبرٹوہوں گے جبکہ مسلم لیگ (ن) میں شاہ محمودقریشی کواپنے سیاسی قدکاٹھ کے مطابق مقام نہ ملتا۔شاہ محمودقریشی پیپلزپارٹی پارلیمنٹرین میں رہ کریاپھرغنویٰ بھٹووالی پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم سے صدرزرداری کوسیاسی طورپرجونقصان پہنچاسکتے تھے وہ تحریک انصاف میں جانے کے بعدنہیں پہنچاسکتے۔عمران خان جس طرح میاں نوازشریف کوتنقیدکانشانہ بناتے ہیں شاہ محمودقریشی اس طرح میاں نوازشریف کی ذات پرحملے نہیں کریں گے کیونکہ ان کافوکس صدرزرداری پرہوگااوروہ میاں نوازشریف کے ساتھ دوستی داﺅپرنہیں لگائیں گے۔

جاویدہاشمی نے کہا تھا کہ صدرآصف زرداری کی سیاست سمجھنے کیلئے پی ایچ ڈی کرناپڑے گی مگر میرے نزدیک اگرکسی نے یوسف رضاگیلانی کااندازسیاست سمجھناہے تو وہ پی ایچ ڈی کرے ۔صدر آصف زرداری کی سیاست تو''ایک ہاتھ دوایک ہاتھ لو''کے اصول کی آئینہ دارہے۔وہ ڈھیل کے بدلے ڈیل کرتے ہیں اورجومل بانٹ کرکھاتا ہے وہ کبھی بھوکانہیں مرتا۔ یوسف رضاگیلانی کویہ کریڈٹ جاتا ہے کہ وہ سب کچھ کرنے کے باوجودبھی معصوم ہیں جبکہ تمام ترناکامی ، رسوائی اوربدنامی صدر زرداری کے حصہ میں آئی ہے۔ملک میں توانائی کی قلت سمیت کوئی بھی بحران،مہنگائی یاڈرون حملوں سمیت کوئی بھی ہاٹ ایشو ہولوگ انگلیاں وزیراعظم کی بجائے صدرزرداری کی طرف اٹھاتے ہیں۔میاں نوازشریف ،عمران خان اورشاہ محمودقریشی سمیت اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے سبھی سیاستدان صدرزرداری پرتنقیدکرتے ہیں جبکہ وزیراعظم کاکسی کہانی میں نام تک نہیں آتا۔وزیراعظم یوسف رضاگیلانی حق نمک اداکرنے کیلئے صدرزرداری پرہونیوالی تنقیدکادفاع توکرتے ہیں مگروہ ایوان صدر کے دشمنوں پربراہ راست تنقید نہیں کرتے۔اگرمخدوم یوسف رضاگیلانی کی بجائے کوئی اوروزیراعظم ہوتا توصدرزرداری کے ساتھ ایک ڈیڑھ برس سے زیادہ نہ نکالتامگر ذوالفقارعلی بھٹو کے بعد یوسف رضاگیلانی پاکستان کے دوسرے وزیراعظم ہوں گے جو پانچ برس کی آئینی مدت پوری کریں گے۔ جاویدہاشمی بلاشبہ بہادرآدمی ہیں مگران کی شخصیت پرجذبات کاغلبہ ہے۔ شاہ محمودقریشی ایک خودپسندشخص ہیں اورکوئی ان کے ساتھ برابری کرے یہ انہیں پسندنہیںجبکہ مخدوم یوسف رضاگیلانی گہرے انسان اورکامیاب سیاستدان ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کی تحریک اتحادی حکومت گرانے کیلئے نہیں بلکہ اپنی سیاسی ساکھ بحال کرنے اورفرینڈلی اپوزیشن کاداغ دھونے کیلئے ہے۔ کیونکہ پیپلزپارٹی کی ناکام اوربدنام حکومت کو''شہید'' کرناسیاسی طورپرمسلم لیگ (ن)کے مفادمیں نہیں۔ اس وقت پاکستان قومی حکومت قسم کے تجربات کامتحمل نہیں ہوسکتااورنہ ہی کوئی'' نائٹ واچ مین'' وکٹ پرآکرمسائل کے باﺅنسرزکامقابلہ کرسکتا ہے ۔ماورائے آئین تبدیلی کی افواہیں پھیلانے والے کوئی اورنہیں ہمارے اپنے سیاستدان ہیںمگراس کانقصان پاکستان،عام پاکستانیوں اورقومی اداروں کوہورہا ہے۔میمورنڈم کی راکھ میں ابھی مزید کچھ ماہ تک چنگاریاں سلگتی رہیں گی کیونکہ سیاستدان ابھی اسے مزید ہوادیں گے مگران کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گاکیونکہ صدرزرداری سسٹم بچانے کیلئے سودے بازی کرنے میں دیرنہیں کرتے اورنہ ان کی اناکسی معاملے میں حائل ہوتی ہے۔ایوان صدرکچھ دواورکچھ لوکے تحت اس امتحان سے بھی سرخروہوگا۔سیاست میں دشمن کو کمزور سمجھنا اور خطرے سے چشم پوشی کرناحماقت ہے۔ تحریک انصاف آج جس مقام پرکھڑی ہے اس کیلئے عمران خان سے زیادہ مسلم لیگ (ن) کے اکابرین بالخصوص پرویزر شیدکی محنت شامل ہے۔
Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 4 Articles with 2249 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.