رمضان المبارک قدرت ِخداوندی کی
ایک بے مثال نعمت ہے ،اللہ ربُّ العزت نے حضرت ِانسان پررمضان جیسا بیش بہا
خزانہ بھیج کر ایک بہت بڑا کرم کیا ہے ۔اس کرم وفضل کی جتنی بھی تعریف کی
جائے اور خالقِ کائنات کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے ۔عالم اسلام میں
شاید ہی کوئی مسلمان ایسا ہو جو رمضان المبارک کی اہمیت ،افادیت ،فضائل ،مناقب
اور اس کے فوائد سے ناواقف ہو ۔خوش نصیب ہے وہ شخص جس کو اللہ تبارک
وتعالٰی نے زندگی میں ایک مرتہ پھر رمضان المبارک کی مبارک ساعتیں نصیب
فرمائیں ہوں۔رمضان میں اللہ تبارک وتعالی انسان کی رزق کو بڑھا دیتے ہیں ،اس
میں ایک رات ایسی دی کہ جو ہزار مہیوں سے بہتر ہے،اس ماہ میں روزے فرض کر
دیئے گئے او ررات کی عبادت کو بڑھا دیا گیا ،ایک فرض کو غیرِرمضان کے ستر
فرضوں کے برابر کر دیا جاتا ہے ،یہ مہینہ صبر ،باہمی غمگساری کا مہنہ ہوتا
ہے ۔اس رمضان المبارک میں جس نے روزہ دار کا روزہ کھلوایا اس کے تمام گناہ
معاف ہو جاتے ہیں ،اس کی گردن جہنم سے آزادہو جاتی ہے اور اسے روزہ دار کے
برابر ثواب ملتا ہے ۔
رمضان المبارک کی آمد سے پہلے ہی ہر مسجد کی انتظامیہ اپنی مسجد میں ختم ِقرآن
کے لیے کسی خوش الحان واعظ کی تلاش میں پڑ جاتی ہے ۔اور وہ اس جستجو یہ
ہوتی ہے کہ ختم ِقرآن کے سلسلے میں ہماری مسجد میں اچھا خطیب ،اچھا واعظ ،اچھا
مقررآئے ۔اور وہ اس سلسلہ میں رمضان سے بہت پہلے اس تگ و دو میں لگ جاتے
ہیں ۔بیسویں رمضان کی شب اسی طرح کا ایک پروگرام ہری پور کے نواحی علاقے
سنجلیالہ کی مرکزی جامع مسجد بلالؓ میں منعقد کیا گیا ۔سابق سپیکر قومی
اسمبلی گوہر ایوب اور ڈاکٹر راجہ عامر زمان اور راجہ فیصل زمان کے حلقہ
انتخاب سنجلیالہ ،کی نا گفتہ بہ حالت اور اس علاقے کی ٹوٹی پھوٹی سڑک اپنی
حالت ِزار پر نوحہ کنا ں تھی ۔ہری پور سے جاتی اس علاقے کی سڑک کو دیکھ کر
اندازہ ہوتا ہے کہ شاید ہی گوہر ایوب ،عامر زمان اور فیصل زمان انتخابات کے
بعد اس گاؤں واپس آئے ہوں ۔اس گاؤں کے لوگوں کی سادہ لوحی بتا رہی تھی کہ
یہ لوگ شاید اپنے آپ کو گروی رکھ چکے ہیں۔بات دور نکل گئی بات ہو رہی تھی
جامع مسجد کے پروگرام کی آج اس مسجد میں ختم قرآن کے سلسلے میں ایک محفل کا
انقاد کیا گیا تھا ۔اس پروگرام کی تمام تر تیاریاں ملک محمد اقبال اور ملک
عبد الوحید کی دن رات محنتوں اور کاوشوں کا نتیجہ تھی ۔اس مسجد میں قاری
اعجاز اور قاری عبدالقدیر نے تراویح میں قرآن سنانے کی سعادت حاصل کی ۔آج
اس محفل کا آغاز رات 10:30بجے شروع کیا گیا ۔محفل کی نقابت قاری مختار احمد
کر رہے تھے ۔انہوں نے سب سے پہلے تلاوت کلام پاک سے اس محفل کا آغاز کرنے
کے لیے قاری عبدالقدیر کو دعوت دی ۔قاری صاحب نے خوبصورت آواز میں کلام پاک
کی تلاوت سے با قاعدہ اس محفل کا آغاز کیا ۔اس کے بعد نقیب محفل نے گلہائے
عقیدت بحضور سرور کائنات ،فخر موجودات کے لیے قاری عبدالقدیر کو ایک مرتبہ
پھردعوت دی ۔قاری صاحب نے خیر الورا ﷺ،بدر الدجی ﷺ ،سید العلیٰﷺ ،شمس
الضحیٰﷺکی تعریف و توصیف میں خوبصورت انداز میں نذرانہ عقیدت پیش کیا ۔اس
کے بعد قاری مختار احمد نے راقم کو مختصر وقت کے لیے ”برادر مکرم “کے الفاظ
سے دعوت دی ۔راقم نے مختصر خطبہئِ مسنونہ کے بعد اپنے خیالات کا اظہا ر ان
اشعار سے شروع کیا
”اربابِ نظر کو کوئی ایسا نہ ملے گا
بندے تو مل جائیں گے بندہ نواز نہ ملے گا
تاریخ اگر ڈھونڈے کی ثانیئِ محمد ﷺ
ثانی تو بڑی بات ہے سایہ بھی نہ ملے گا“
وقت چوں کہ مختصر تھا اس لےے کوئی بھی مفصّل بات عرض نہیں کی جا سکتی تھی
۔ورنہ اب رمضان المبارک میں یہ خال خال ہی کہیں بیان کیا جاتا ہے کہ اِسی
رمضان المبارک کی 17تاریخ کو مسلمانوں کو ایک عظیم معرکے میں فتح نصیب ہوئی
تھی اس کا تذکرہ بھی سیرت النبیﷺ کی ہی ایک جھلک ہے ۔اور اِسی رمضان کی
17تاریخ کو ہی امہات المﺅمنین سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ کی وفات بھی ہوئی تھی اس
کا ذکر بھی ہمیں کم ازکم کرنا چاہیے تا کہ آج کی میری ماں او ربہن کو بھی
علم ہوتا کہ ان کے لیے سیرت ِعائشہ ؓ میں بہت سبق رکھا ہے اس کے راقم نے
سیرت ِسیدناعثمان غنی ؓ کی مظلومانہ شہادت پر بھی روشنی ڈال کر اپنا مختصر
مکمل کیا ۔
اس کے بعد نوردی سے تشریف لائے ہوئے مہمان محمد ادریس نے خوبصوت آوازمیں
نعتِ رسولِ مقبول ﷺ پڑھ کر مجمع سے داد وصول کی ۔اس کے بعد نقیبِ محفل قاری
مختار احمد اعوان نے جو خودبھی خوبصورت آواز کے مالک ہیں ،اور بین القوامی
مقابلہ حسنِ قرات جیت چکے ہیں نے بلا تاخیر آج کے مہمان ِخصوصی مولانا فضلِ
کریم چشتی کو دعوت دی اگرچہ انہوں نے مولانا کو” علامہ“کے باادب اور عظیم
لقب سے دعوت دی شائد ا ن کے نزدیک مولاناکی شخصیت ”علامہ “کے لقب کی مستحق
ہو مگر میری دیانت علامہ صرف اسے مانتی ہے جس نے یہ اپنے اشعار میں قرآن کی
ترجمانی کی ہے جس نے فرمایا تھا کہ
”کی محمد ﷺ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم تےرے ہیں “
مولانا فضلِ کریم چشتی نے بہت ہی خوبصورت انداز میں نبی کریم ﷺ کی سیرت کے
مختلف پہلوﺅں پر روشنی ڈالی ۔مولانا نے اس محفل میں پونے دو گھنٹے مسلسل
بیان کیا جب کہ پورے پاکستان کی طرح یہاں بھی لوڈشیڈنگ نے ڈیرے ڈالے ہوئے
تھے ۔اور عین اس وقت کہ جب مولانا نے اپنے بیان کا آغاز کیا تو بجلی چلی
گئی باوجود کوشش کے جرنیٹر اپنی سروس فراہم نہ کر سکا،اس حالت میں بھی
مولانا نے اپنے بیان کو جاری رکھا اور مجمع لوٹ لیا ،مولانا نے حضور نبی
ِکریم ﷺ کی دعا کا جس انداز سے تذکرہ کیا یقیناوہ لائقِ تحسین ہے اور اس کے
ساتھ ساتھ مولانا نے آپ ﷺ کی شفاعت کا تذکرہ کرتے ہوئے بہت خوبصورت بات کی
کہ آپ ﷺ کی حدیث کا مفہوم ہے کہ قیامت کے دن آپ ﷺ اپنی امت کو تمام امتوں
کی موجودگی میں اپنی امت کے لوگوں کو پہچان لوں گا تو صحابہ کرام ؓ نے عرض
کیا یا رسول اللہ ﷺ کیسے ؟تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ان کے اعضائے وضو چمک
رہے ہوں گے ۔مولانا نے ہلکے ہاتھوں مسلک کی ترجمانی بھی کی اور اس میں کچھ
ان احوال کا تذکرہ بھی کر گئے کہ جن کا منکر شاید ہی کوئی مسلمان ہوشفاعتِ
نبی کا منکر کوئی اور تو ہو سکتا ہے مگر مسلمان اور آپ ﷺ کا کوئی امتی نہیں
ہوسکتا ۔
اس پروگرام کی کامیابی پر ملک عبدالوحید اور ملک اقبال اور ان کے تمام
رفقاءکار کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتے ہوئے امید کرتا
ہوں اللہ رب العزت کی ذاتِ بابرکات سے کہ وہ ہمیں اور تمام سننے والوں کو
آپ ﷺ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق نصیب فرمائے ۔اور اللہ تعالٰی
کی ذات اس علاقے کی عوام کو سمجھ بوجھ عطا فرمائے کہ یہ ان سیاسی مگر مچھوں
سے نجات حاصل کریں اور اپنی تقدیروں کے فیصلے ان سے کروانے کے بجائے خود
کریں ۔ا ن علاقوں میں انہی سالہاسال سے مسلط سیاسی مداریوں کی وجہ سے زندگی
کی بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہیں۔اللہ ربّ العزت ہمیں دین ودینا کی تمام
بھلائیاں نصیب فرمائے ۔ |