اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب حضرت
محمد مصطفےٰ ﷺ کو ساری کائنات کا مالک و مختار بنایا ہے ۔صاحب خیر کثیر اور
غنی عالَم بنایا ۔یہی وجہ ہے کہ در ِ رسول ﷺسے جسے نوازا گیا بے شمار نوازا
گیا ۔گر یوں کہوں کہ اس بارگاہ پر جس کو بھکاری بننے کی سعادت نصیب ہوئی وہ
دین و دنیا کا تاجدار بن گیا ۔ذرہ تھا تو آفتاب بن گیا ۔دروازہِ رسول ﷺ کے
کیا کہنے اس پر ادنیٰ آیا تو اعلیٰ بن گیا ۔پتھر تھا تو لعل بن گیا ۔کانٹا
پھول ،برا اچھا ،شقی سعید ،ناپاک پاک ،رہزن رہبر ،قطرہ دریا ، صدف گوہر اور
کالا رشک ِ قمر بن گیا ،یہ ساری برکتیں اور فضیلتیں تو انہیں میسر آئیں
جنہوں نے دربار رسالتﷺ پر حاضری دی ۔مگر جو معدنِ رسالتﷺ کے گوہر ہوں ۔خون
خیرِ رُسل سے جن کا وجود ہو ،تیری نسل پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا ،کے جو
مصداق ہوں ۔جن کے کاشانہ پاک پر فرشتے حاضری دیتے ہوں ۔جن کی رضا ،رضائے
مصطفےٰ ،جن کی محبت محبتِ خدا، جن کا جلال پھٹکارے خدا اور جن کی طہارت پر
ہو قرآن گواہ! تو اُن اہل بیت نبوت کے فضائل و خصوصیات کا کیا کہنا۔
معزز قارئین!سرکار مدینہ ﷺ کے سارے اہل بیت چاہے اہل بیت نسب ہوں یا اہل
بیت سکونت یا اہل بیت ولادت یا اور کسی کو اہل بیت میں شامل کر لیا گیا ہو
سب عزت و عظمت والے ہیں لیکن حضور ﷺ جن کو ہر خاص موقع پر علیحدہ کر کے
فرماتے ہیں وہ چار نفوس قدسیہ حضرت علی ، حضرت فاطمہ، حضرت حسن ،حضرت حسین
رضی اللہ عنہم ہیں ۔اسی لئے اہل بیت کا لفظ انہی چار حضرات کے لئے شائع و
مشہور ہے ۔
مسلم شریف کی حدیث ہے حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ جو عشرہ مبشرہ میں سے
ہیں ان کا بیان ہے کہ رسول اکرم ﷺ جب ان حضرات کو ہمراہ لے کر مباہلہ کے
لئے مکان سے باہر نکلے تو فرمایا: اللّٰھم ھٰو لآءاھل بیتی ۔یعنی اے اللہ !یہ
لوگ میرے اہل بیت ہیں۔(مشکوٰة شریف ص 568)
برادران ملت:اہل بیت کرام کی تعریف و توصیف اور ان کی مدح و ستائش میں
سرکار مدینہ ﷺ کی بہت سی احادیث وارد ہیں ۔مسلم شریف میں ہے ۔صحابی رسول
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک روز رسول کریم ﷺ نے مکہ
معظمہ اور مدینہ طیبہ کے درمیان (مقام حدیبیہ) غدیرخُم (اشعة اللمعات
جلد4صفحہ685میں ہے کہ غدیر حوض آب وخم آن موضع ست) کے پاس کھڑے ہو کر خطبہ
فرمایا تو پہلے آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی ۔پھر آپ نے ہم
لوگوں کو وعظ و نصیحت فرمائی اس کے بعد آپ نے ارشاد فرمایا:”اے لوگوں! میں
انسان ہوں قریب ہے کہ میرے رب کا بھیجا ہوا فرشتہ یعنی ملک الموت میرے پاس
آئے تو میں اللہ تعالیٰ کے حکم کو قبول کروں وانا تارک فیکم الثقلین ۔اور
میں تم میں دو نفیس اور گراں قدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ۔اولھما کتاب
اللّٰہ فیہ الھُدیٰ والنور۔ان میں سے پہلی چیز اللہ تعالیٰ کی کتاب یعنی
قرآن مجید ہے جس میں ہدایت اور نور ہے تو اللہ تعالیٰ کی کتاب پر عمل کرو
اور اسے مضبوطی سے تھام لو ۔
راوی حدیث حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے قرآن پاک
کے بارے میں لوگوں کو ابھارا اور رغبت دلائی پھر اس کے بعد آپ نے ارشاد
فرمایا ۔واہل بیتی اذکرکم اللّٰہ فی اہل بیتی ۔اذکر کم اللّٰہ فی اہل
بیتی۔(مشکوٰة ص568)اور دوسری گراں قدر چیز میرے اہل بیت ہیں ۔میں تمہیں
اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ کی یاد دلاتا ہوں اور اس سے ڈراتا ہوں اور
اس جملہ کو حضور ﷺ نے دوبار فرمایا ۔مطلب یہ ہے کہ میں تاکید کے ساتھ تم
لوگوں کو وصیت کرتا ہوں کہ میرے اہل بیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو ان
کے حق کی ادائیگی میں ہر گز کوتاہی نہ کرو۔
ترمذی شریف میں ہے حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حجة الوداع
میں عرفہ کے دن رسول اللہ ﷺ کو اس حال میں دیکھا کہ آپ اونٹنی پر سوار تھے
اور خطبہ دے رہے تھے میں نے سنا آپ یہ فرما رہے تھے یا یھا الناس انی ترکت
فیکم ماان اخزتم بہ لن تضلوا کتاب اللّٰہ وعترتی اہل بیتی۔اے لوگو! میں نے
تمہارے درمیان وہ چیز چھوڑی ہے کہ اگر تم اس کو پکڑے رہو گے تو کبھی گمراہ
نہ ہو گے اور وہ چیز ایک تو اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اور دوسرے میری اولاد و
ذریت میرے اہلبیت ۔ (مشکوٰةشریف ص569)
طبرانی شریف میں ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا :لا یومن عبد حتیٰ اکون احب
الیہ من نفسہ وتکون عترتی احب الیہ من عترتہ واھلی احب الیہ من اہلہ وذاتی
احب الیہ من ذاتہ۔یعنی کوئی بندہ مومن کامل نہیں ہو سکتا جب تک کہ مجھے
اپنی جان سے ،میری اولاد (حسنین وغیرہ)کو اپنی اولاد سے ، میرے اہل کواپنے
اہل سے اور میری ذات کو اپنی ذات سے زیادہ محبوب نہ رکھے۔(الشرف الموید
ص85)
امام احمد روایت کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ
عنہما کے ہاتھوں کو پکڑکر فرمایا من احبنی واحب ھٰذین و امھما واباھما کان
معی فی درجتی یوم القیٰمة۔ جس نے مجھ سے محبت رکھی اور ان دونوں سے اور ان
کے والدین سے محبت رکھی تو وہ قیامت کے دن میرے ساتھ میرے درجہ میں ہو گا۔
(الشرف الموید ص86)
یعنی پنجتن پاک سے محبت رکھنے والا بصورت خدمتگار حضور ﷺ کے درجہ میں
دکھائی دے گا۔ ساتھ ہوگا۔
حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے کعبہ شریف کا دروازہ پکڑ کر فرمایا کہ میں نے
نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ الا ان مثل اہل بیتی فیکم مثل
سفینة نوح من رکبھا نجا ومن تخلف عنھا ھلک۔آگاہ ہو جاﺅ کہ میرے اہل بیت تم
لوگوں کے لئے نوح (علیہ السلام) کی کشتی کے مانند ہیں ۔جو شخص کشتی میں
سوار ہوا اس نے نجات پائی اور جو کشتی میں سوار ہونے سے پیچھے رہ گیا وہ
ہلاک ہوا۔(مشکوٰة ص573)
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا
اصحابی کالنجوم فبایھم اقتدیتم اھتدیتم ۔”میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں
تو ان میں سے تم جس کی اقتدا کروگے ہدایت پاﺅ گے ۔(مشکوٰةشریف 554)
حضرت علامہ امام فخر الدین رازی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بحمد اللہ
تعالیٰ ہم اہل سنت وجماعت محبت اہل بیت کی کشتی پر سوار ہیں اور ہدایت کے
چمکتے ہوئے ستارے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ہدایت پائے ۔لہٰذا
ہم لوگ قیامت کی ہولناکیوں سے اور جہنم کے عذاب سے محفوظ رہیں گے۔(مرقاة
شرح مشکوٰة ص610جلد 5)
طبرانی وحاکم حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ رسول
کائنات ﷺ نے فرمایا لو ان رجلا صعد بین الرکن والمقام فصلیٰ وصام ثم مات
وھو مبغض لا ہل بیت محمد (ﷺ) دخل النار۔”اگر کوئی شخص بیت اللہ شریف کے ایک
گوشہ اور مقام ابراہیم کے درمیان چلا جائے اور نماز پڑھے اور روزے رکھے پھر
وہ اہل بیت کی دشمنی پر مرجائے تو وہ جہنم میں جائے گا۔(الشرف الموید ص92)
اکابر ینِ اسلام کی نطر میں فضائل اہل بیت :اکابرین سلف و خلف رضوان اللہ
تعالیٰ علیہم اجمعین اہلبیت رسول اللہ ﷺ کی تعریف و توصیف میں ہمیشہ رطب
اللسان رہے ۔لوگوں کو ان سے محبت رکھنے کی تاکید فرماتے ہوئے اور خو د ان
سے بے انتہا محبت رکھتے تھے۔
اس امت کے سید الاکابرین حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں
:صلہ قرابہ رسول اللّٰہ ﷺ احب الی من صلہ قرابتی۔”رسول اللہﷺکے رشتہ داروں
کی خدمت کرنا مجھے اپنے رشتہ داروں کی صلہ رحمی سے زیارہ محبوب ہے“۔(الشرف
الموید ص87)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جو جلیل القدر صحابی اور سابقین اولین
میں سے ہیں وہ فرماتے ہیں حب اٰل محمد ﷺ خیر من عبادة سنة۔”آل رسو ل ﷺ کی
ایک دن کی محبت ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے۔“(ایضاً ص85)
حضرت علامہ یوسف اسمٰعیل نبہانی رحمة اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت
امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ نے حضرت ابراہیم بن عبد اللہ محض بن حسن
مثنیٰ بن حضرت امام حسن رضی اللہ عنہم کی حمایت کی اور لوگوں کو فتویٰ دیا
کہ لازمی طور پر ان کے ساتھ اور ان کے بھائی محمد کے ساتھ رہیں ۔کہتے ہیں
کہ امام اعظم رضی اللہ عنہ کی قید و بند اصل میں اسی بنا پر تھی اگر چہ
ظاہر میں سبب یہ تھا کہ انہوں نے قاضی کا منصب قبول کرنے سے انکار کر دیا
تھا۔(الشرف الموبد ص88)
حضرت علامہ نبہانی رحمة اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت امام شافعی رضی
اللہ عنہ کا سرکار مدینہ ﷺ کی آل پاک سے محبت کرنے کا انداز ہی نرالہ
تھابلکہ اہلبیت رسول اللہ ﷺ سے ان کی محبت یہاں تک تھی کہ جوش عقیدت وجذبہ
محبت میں اہل بیت رسالت کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
اے رسول اللہ کے اہل بیت!آپ لوگوں کی محبت اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرض ہے
اور یہ حکم خدائے ذوالجلال نے قرآن مجید میں نازل فرمادیا ہے اور وہ آیت
کریمہ یہ ہے قل لا اسئلکم علیہ اجرا الا المودة فی القربیٰ ۔”اے محبوب! تم
فرما ﺅ کہ میں اس پر تم لوگوں سے کچھ نہیں مانگتا مگر قرابت کی محبت۔
آل رسول کی عظمت و بزرگی ظاہر کرتے ہوئے امام شافعی رضی اللہ عنہ اور
فرماتے ہیں :
اے آل رسول! آپ لوگوں کے لئے یہ عظیم فخر کافی ہے کہ جو شخص آپ پر درود
نہیں بھیجتا اس کی نماز نہیں ہوتی۔
حضرت علامہ عبد الوہاب شعرانی رحمة اللہ علیہ سنن کبریٰ میں فرماتے ہیں کہ
مجھ پر اللہ تعالیٰ کے احسانات میں سے ایک یہ ہے کہ میں سادات کرام کی بے
حد تعظیم کرتا ہوں ۔میں اس تعظیم کو اپنے اوپر ان کا حق تصور کرتا ہوں ۔
سادات کرام کے آداب میں سے یہ ہے کہ ہم ان سے عمدہ بستر ،اعلیٰ مرتبے اور
بہتر طریقے پر نہ بیٹھیں ۔ان کی مطلقہ یا بیوہ عورت سے نکاح نہ کریں ۔اسی
طرح کسی سید زادی سے نکاح نہ کریں اگر ہم میں سے کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ
ہم ان کی تعظیم کا حقِ واجب ادا کر سکتے ہیں اور ان کی مرضی کے مطا بق عمل
کر سکتے ہیں تو پھر ان سے نکاح کر سکتا ہے ۔(برکات آل رسول ص253)
خصوصیات اہل بیت نبوت:برادران اسلام !اب آپ حضرات اہل بیت رسول اللہ ﷺ کی
وہ خصوصیات ملاحظہ فرمائیں جو ان کے علاوہ کسی دوسرے میں ہر گز نہیں پائی
جاتی ہیں ۔
پہلی خصوصیت:ہے زکوٰة کا حرام ہونا ۔یعنی اہل بیت کرام کو زکوٰة اور صدقہ
واجبہ دینا حرام ہے اگر چہ وہ مالک نصاب نہ ہوں ۔مسلم شریف میں حضرت عبد
المطلب بن ربیعہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا ان
ھٰذہ الصدقات انما ھی اوساخ الناس وانھا لا نحل لمحمد ولا آل محمد ۔زکوٰة
کے مال لوگوں کی میل ہیں اور وہ محمد اور آل محمد بنی ہاشم کے لئے جائز
نہیں ۔صلی اللہ علیہ وسلم ورضی اللہ عنہم(مشکوٰة شریف ص161)
حضور ﷺ کے اس کلام میں بہترین تشبیہ ہے کہ آپ نے زکوٰة کو اوساخ الناس
۔یعنی لوگوں کی میل اس لئے فرمایا کہ وہ ان کی آلود گیوں کو پاک کرتی ہے
اور ان کے اموال و نفوس کو صاف کرتی ہے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔خذ من
اموالھم صدقة تطھر ھم وتزکیھم بھا۔اے محبوب ان کے مال میں زکوٰة لو ۔اس
زکوٰة کے ذریعہ انہیں پاک و صاف کرو۔(پارہ 11رکوع2)
بخاری و مسلم میں ہے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن حضرت
امام حسن رضی اللہ عنہ نے زکوٰة کی ایک کجھور اٹھائی اور منہ میں رکھ لی تو
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کَخ کَخ ۔چھی چھی اسے پھینک دو ۔اس کے بعد اما شعرت
انا لاناکل الصدقة۔ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ہم لوگ زکوٰة نہیں کھایا کرتے
۔(مشکوٰة شریف 161)
اور ولی کبیر حضرت شیخ عبد الوہاب شعرانی رضی اللہ عنہ ”البحر المورود“ میں
تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہما نے نبی اکرم ﷺ سے عرض
کیا کہ مجھے زکوٰة وصول کرنے پر مقرر فرمادیں تو حضورﷺ نے ان سے فرمایا
معاذ اللّٰہ ان استعملک علیٰ غسالة ذنوب الناس۔”خدا کی پناہ کہ میں تمہیں
لوگوں کے گناہوں کے دھوون وصول کرنے پر مقرر کردوں۔ (الشرف الموبد ص35)
اسی لئے فقہ حنفی کی کتابوں میں ہے کہ بنی ہاشم کو زکوٰة نہیں دے سکتے ۔نہ
دوسرا کوئی شخص انہیں دے سکتا ہے نہ ایک ہاشمی دوسرے ہاشمی کو ۔یہاں تک کہ
بنی ہاشم کے آزاد کئے ہوئے غلام کو بھی نہیں دے سکتے ۔بنی ہاشم سے مراد ہیں
۔حضرت علی ،حضرت جعفر ، حضرت عقیل اور حضرت عباس و حارث بن عبد المطلب کی
اولاد۔یعنی ان سب کی اولادکو زکوٰة اور صدقہ واجبہ دینا جائز نہیں ۔البتہ
صدقہ نافلہ اور اوقاف کی آمدنی ان کو دیناجائز ہے ۔
دوسری خصوصیت:یہ ہے کہ اہل بیت حسب و نسب میں ساری انسانوں سے افضل و اعلیٰ
ہی ۔حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسو کریم ﷺ نے
فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے قبیلہ
کنانہ کو منتخب فرمایا ۔کانہ میں سے قریش کو اور قریش میں سے بنی ہاشم کو
اور بنی ہاشم میں سے مجھے منتخب فرمایا۔(برکات آل رسو ل ص91)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ
نے مخلوق پیدا فرمائی تو اس میں سے بنی آدم کو منتخب فرمایا پھر بنی آدم
میں سے عرب کو ،عرب میں سے مضر کو ،مضر میں سے قریش کو ،قریش میں سے بنی
ہاشم کو پھر بنی ہاشم میں سے مجھے منتخب فرمایا ہے ۔تو میں بہترین لوگوں سے
بہترین لوگوں کی طرف منتقل ہوتا رہا۔(برکات آل رسو ل ص91)
امام احمد ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں
کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جبریل امین نے مجھ سے کہا میں نے زمین کے مشرق
و مغرب الٹ ڈالے لیکن میں نے محمد ﷺ سے افضل کسی کو نہ پایا ۔اعلیٰ حضرت
احمد رضاخاںفاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔
یہی بولے سدرہ والے چمن جہاں کے تھالے
سبھی میں نے چھان ڈالے ترے پایہ کا نہ پایا
تجھے یک نے یک بنایا
حضرت جبریل علیہ السلام نے کہا کہ میں نے زمین کے مشرق و مغرب چھان ڈالے
مگر مجھے بنی ہاشم سے زیادہ فضیلت والے باپ کے بیٹے نہیں ملے ۔(برکات آل
رسو ل ص91)
طبرانی و دارقطنی میں ہے سرکار مدینہ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن میں اپنی
امت میں سے سب سے پہلے اپنے اہل بیت کی شفاعت کروں گا پھر دوسرے لوگوں کی۔
اور میں جس کی پہلے شفاعت کروں گا وہ زیادہ فضلیت والا ہے۔(الشرف الموبد
ص39)
یہ تمام حدیثیں واضح طور پر دلالت کر رہی ہیں کہ اہل بیت کرام حسب و نسب
میں سب سے افضل و اعلیٰ ہیں اور اسی لئے دوسرے لوگ نکاح میں ان کے کفو نہیں
۔ حضرت علامہ سیوطی رحمة اللہ علیہ خصائص کبریٰ میں تحریر فرماتے ہیں کہ
نبی اکرم ﷺ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ کوئی مخلوق نکاح میں آپ کی اہل بیت کا
ہمسر نہیں ہے۔(برکات آل رسو ل ص93)
تیسری خصوصیت:یہ ہے کہ سرکار مدینہ ﷺ کی رشتہ داری اور نسب کے علاوہ قیامت
کے دن ہر رشتہ داری اور نسب منقطع ہو جائے گا۔ حدیث شریف ہے ۔کل سبب و نسب
ینقطع یوم القیامة الا سببی و نسبی۔(الشرف الموید ص22)
چوتھی خصوصیت:یہ ہے کہ اہل بیت میں سے جو بے عمل ہوں ان کی بھی تعظیم کا
حکم ہے ۔مفتی اعظم ہند حضرت علامہ مصطفےٰ رضا خاں رحمة اللہ علیہ تحریر
فرماتے ہیں کہ ”سید سے جب تک کفرنہ صادر ہو واجب التعظیم ہے ۔“(حجة واہرہ
ص11)
اور سرکار مدینہ ﷺ نے فرمایا ان فاطمة احصنت فرجھا فحر مھااللّٰہ وزریتھا
علی النار۔بیشک فاطمہ نے اپنی پاکدامنی کی حفاظت کی تو اللہ تعالیٰ نے
انہیں اور ان کی اولاد کو جہنم پر حرام فرمادیا۔(الشرف الموبد45)
پانچویں خصوصیت:یہ ہے کہ وہ حضرت فاطمہ زہراءرضی اللہ عنہا کی اولاد ہونے
کے باوجود رسول کریم ﷺکی اولاد کہلاتے ہیں اور صحیح نسب کے ساتھ آپ ہی کی
طرف منسوب ہیں ۔امام طبرانی نے حدیث بیان کی ہے کہ سرکار مدینہ ﷺ نے فرمایا
۔ان اللّٰہ عزوجل جعل زریة کل نبی فی صلبہ وان اللّٰہ تعالیٰ جعل زریتی فی
صلب علی بن ابی طالب ۔”اللہ تعالیٰ نے ہر نبی کی اولاد ان کی پشت میں رکھی
اور میری اولاد علی بن ابی طالب کی پشت میں رکھی ۔(الشرف الموبد ص48)
نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہر ماں کی اولاد اپنے پدری رشتہ داروں کی
طرف منسوب ہوتی ہے ما سوا اولاد فاطمہ کے کہ میں ان کا ولی ہوں اور ان کا
عصبہ ہوں۔(برکات آل رسول ص110)
اسعاف الراغبین میں ہے کہ یہ خصوصیت صرف فاطمہ زہر اءرضی اللہ عنہا کی
اولاد کے لئے ہے ۔دوسری صاحبزادیوں کی اولاد کے لئے نہیں ہے ۔(یعنی اگر ان
کی اولاد زندہ رہتی تو) ان کے بارے میں یہ نہیں کہا جاتا کہ حضور ﷺ ان کے
باپ ہیں اور وہ آپ کے بیٹے ہیں جس طرح کہ یہ بات حضرت فامہ زہراءرضی اللہ
عنہا کی اولاد کے لئے کہی جاتی ہے ۔(برکات آل رسول ص110)
چھٹی خصوصیت :یہ ہے کہ اہل بیت کا زمین میں موجود ہونا زمین والوں کے لئے
باعث امن ہے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے کہ سرکار مدینہ ﷺ نے ارشاد فرمایا
النجوم امان لاہل السماءواہل بیتی امان لاھل الارض ۔”ستارے آسمان والوں کے
لئے باعث ِ امن ہیں اور میرے اہل بیت زمین والوں کے لئے باعث امن ہیں اور
ایک روایت میں ہے امان لامتی ۔میرے اہلبیت میری امت کے لئے باعث امن ہیں
۔(الشرف الموبد ص46)
ساتویں خصوصیت:یہ ہے کہ وہ پہلے جنت میں داخل ہوں گے ۔امام ثعلبی حضرت علی
رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں ۔انہوں نے فرمایا کہ میں نے بارگاہ رسالت
میں لوگوں کے حسد کی شکایت کی تو حضور سید عالم ﷺ نے فرمایا ”کیا تم اس بات
پر راضی نہیں کہ تم چار میں سے چوتھے ہو؟سب سے پہلے جنت میں مَیں ،تم اور
حسنین کریمین داخل ہوں گے ۔ہماری ازواج مطہرات ہمارے دائیں اور بائیں ہوں
گی اور ہماری اولاد ہماری ازواج کے پیچھے ہوگی۔(برکات آل رسول ص109)
آٹھویں خصوصیت:یہ ہے کہ جو شخص ان میں سے کسی پر احسان کرے گا نبی اکرم ﷺ
قیامت کے دن اسے بدلہ عطا فرمائیں گے جیسا کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو
شخص وسیلہ حاصل کرنا چاہتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ میری بارگاہ میں اس کی
کوئی خدمت ہو جس کے سبب میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں اسے چاہئے کہ
میرے اہلبیت کی خدمت کرے اور انہیں خوش کرے۔(برکات آل رسول ص111)
نویںخصوصیت:علامہ صبان نے فرمایا ان کی خصوصیت یہ ہے کہ ان کی محبت درازی
عمر اور قیامت کے دن چہرہ سفید ہونے کا سبب ہے اور ان کا بغض اس کے بر عکس
اثر رکھتا ہے ۔جیسا کہ صواعق محرقہ میں حدیث شریف نقل کی ہے کہ نبی اکرم ﷺ
نے فرمایا” جو شخص پسند کرتا ہو کہ اس کی عمر دراز ہو اور اپنی آرزوﺅں سے
بہرہ ور ہواسے میرے بعد میرے اہل بیت سے اچھی طرح پیش آنا چاہےے اور جو
میرے بعد ان سے اچھی طرح پیش نہیں آئے گا اس کی عمر قطع کر دی جائے گی اور
قیامت کے دن اس حالت میں میرے پاس آئے گا کہ اس کا چہرہ سیاہ ہو گا۔(صواعق
محرقہ ص 107)
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب لوگوں کو محبین اہل بیت کے گروہ میں شامل
فرمائے اور ان کے جد کریم حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کی شفاعت نصیب فرمائے ۔آمین
آب تطہیر سے جس میں پودے جمے اس ریاضِ نجابت پہ لاکھوں سلام
خون خیر الرسل سے ہے جن کا خمیر ان کی بے لوث طینت پہ لاکھوں سلام |