قومی عزت و وقار سے بالاتر کوئی
چیز نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وطن عزیز پاکستان اِس وقت شدید بحرانی کیفیت سے دوچارہے،ہر آنے والے دن کے
ساتھ ملک کے حالات سنگین سے سنگین تر ہوتے جارہے ہیں،جس کی وجہ سے ہر محب
وطن شہری جو کئی عشروں سے حکمرانوں کی بوئی ہوئی بھوک،مہنگائی،بے
روزگاری،دہشت گردی اور کرپشن کی فصل کاٹ رہا ہے،بے یقینی اور مایوسی کا
شکار ہے،ہر کوئی جانتا ہے کہ کاروبار مملکت خوش اسلوبی سے نہیں چل رہا،حال
یہ ہے کہ مایوسی اور بے یقینی نے تمام قومی اداروں پر منفی اثرات مرتب کر
رکھے ہیں،مگر اِن تمام تلخ حقائق سے بے نیاز ہمارے حکمران اپنی معیاد حکومت
پوری کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں،پیر پگاڑا نے کہا تھا کہ نومبر کامہینہ
حکومت کےلئے بھاری ہے،واقعی ماہ نومبر حکومت کیلئے بہت بھاری رہا،اِس ماہ
میں میمو اسکینڈل،حسین حقانی کا استعفیٰ،شیریں رحمن کی بطور سفیر
تقرری،سپریم کورٹ میں حکومت کی این آر او نظرثانی اپیل کا مسترد ہونا،شاہ
محمود قریشی کی تحریک انصاف میں شمولیت سمیت صدر زرداری پر سنگین الزامات
جیسے پے درپے واقعات نے ملکی سیاست میں ہلچل مچادی،مگر 26 نومبر کو نیٹو کا
پاکستانی چوکیوں پر فضائی حملے نے اِن اہم واقعات کو نہ صرف پس پشت ڈال دیا
بلکہ قوم کے دل و دماغ کی چولیں بھی ہلا کر رکھ دیں ۔
بدقسمتی سے امریکی دہشت گردی کی نام نہاد جنگ میں کرائے کا سپاہی بننے سے
ملک کے مقتدر طبقے میں ایک ایسے گروہ نے جنم لے لیا جس کی وفاداری پاکستان
سے زیادہ امریکی مفادات کے تحفظ سے مشروط ہے اور اِس طبقے کے نزدیک دنیاوی
مفادات ملک کے قومی،ملی اور دینی مفادات سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں،یہی وہ
طرز عمل ہے جس نے مقتدر اعلیٰ کے جذبہ حب الوطنی کو عوام کی نظر میں مشکوک
بنادیا ہے،مائیک مولن میمو اور حسین حقانی کے استعفے سے پیدا ہونے والے اِس
سوال سے ابھی قوم سنبھلنے بھی نہ پائی تھی کہ نیٹو کی پاکستانی چوکی پر
حملے جس میں پاک فوج کے ایک میجر ایک کیپٹن سمیت 26جوانوں کی شہادت اور
متعدد زخمیوں کی خبر نے اُن کے ہوش اڑادیئے،نیٹو کی اِس جارحیت پر آج پوری
قوم سراپا احتجاج ہے،اِس حملے پراٹھنے والا شور ایک فطری عمل ہے،مگر اِس
شور میں سپریم کورٹ کے فیصلے اور میمواسکینڈل کی بازگشت گم ہوگئی ہے،جو
یقینا میمو کے اصل مصنفوں کیلئے باعث سکون ہوگی ۔
دوسری جانب پاکستان کے حکومتی اور عسکری حلقوں نے اُسی روایتی ردعمل کا
مظاہرہ کیا جس کا وہ ماضی میں کرتے رہے ہیں،کابینہ کی کمیٹی برائے دفاع کے
ہنگامی اجلاس میں قوم کے غم وغصے کو کم کرنے کیلئے کچھ فیصلے بھی کئے
گئے،جن میں نیٹو افواج کی سپلائی بند کردینے کا اعلان اور شمسی ایئر بیس کو
پندرہ روز کے اندر اندر امریکی فوج سے خالی کرانے کا کہا گیا اور آرمی چیف
جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اِس طرح کی جارحانہ کارروائیوں کو ناقابل قبول
قرار دیتے ہوئے مستقبل میں ایسی کسی کاروائی کا جواب دینے کے لئے تیار رہنے
کی ضرورت پر زور دیا،اب یہ بھی کہا جارہا ہے کہ پاکستان مذکورہ واقعے پر
احتجاج ریکارڈ کرانے کےلئے بون کانفرنس میں شرکت نہیں کرے گا،وزیر اطلاعات
اِس حکومتی فیصلے کو ٹرننگ پوائنٹ قرار دی دے رہی ہیں،سفارتی سطح پر بھی
اسلام آباد،برسلز اور واشنگٹن میں روایتی احتجاجی مراسلے متعلقہ حکام کو
دیئے گئے ہیں، دوسری جانب امریکی حکومت اور نیٹو کی اعلیٰ کمان کی جانب سے
بھی مذکورہ واقعے پر روایتی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ مل
کر مشترکہ تحقیقات کی پیشکش کی گئی اور واقعے کی فوری وجوہات معلوم کرکے
ذمہ داری کا تعین کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے،مگر تحقیقات کے نتائج
سامنے آئے بغیر پاکستان سے معافی مانگنے سے صاف انکار کردیا ہے ۔
لیکن اَمرواقعہ یہ ہے کہ اِس تمام رد عمل میں کوئی ایک بھی چیز ایسی نہیں
ہے،جس کی بنیاد پر یہ ضمانت مل سکے کہ ہماری سرزمین پر آئندہ اِس قسم کا
کوئی واقعہ رونما نہیں ہوگا،پاکستانی عوام کو اصل تشویش ہی اِس بات پر ہے
کہ حکمرانوں کے بقول ہم نیٹو اور امریکہ کے حلیف اور اتحادی ہیں،پھر کیا
وجہ ہے کہ امریکی اور نیٹو فورسز بار بار ہماری سرزمین پر ایسی کارروائیاں
کرتی ہیں ۔؟کیوں ہماری سلامتی اور خودمختاری کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔؟
ہمارے حکمران کیوں اِن اشتعال انگیز کاروائیوں پر خاموش تماشائی بنے رہتے
ہیں۔؟اور کیوں ہماری سرحدوں کے محافظ کوئی جوابی کاروائی نہیں کرتے۔؟جبکہ
ملکی سلامتی اور خود مختاری کے خلاف اِس قسم کے خطرناک اور اشتعال انگیز
روئیے کی اکثر و بیشتر مثالیں سامنے آتی رہتی ہیں،مگر پھر بھی ہم امریکی
نام نہاد دہشت گردی کی جنگ کے فرنٹ لائن اتحادی ہیں اور اب تک اِس جنگ میں
35ہزار جانوں کی قربانی کے ساتھ 40ارب ڈالر سے زائد کا مالی نقصان اٹھاچکے
ہیں،اِس کے باوجود اعلیٰ امریکی قیادت ہم پر دہشت گردوں کی موجودگی کے
الزامات لگاتی ہے،ذرائع ابلاغ کے ذریعے پاکستان پر ”دہرا کھیل“ کھیلنے کا
پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے،براہِ راست پہلے آئی ایس آئی اور پھرپاک فوج پر”دہشت
گردوں“کی سرپرستی کے الزام لگائے جاتے ہیں اور بابانگ دہل اعلان کیا جاتا
ہے کہ امریکہ اور اُس کے حواری پاکستانی سرحدوں کے اندر موجود اِن دہشت
گردوں کے خلاف ہر قسم کی کارروائی کا حق محفوظ رکھتے ہیں ۔
مگر حقیقت حال یہ ہے کہ جیسے جیسے امریکی نام نہاد دہشت گردی کی جنگ فیصلہ
کن مرحلے میں داخل ہورہی ہے،پاکستان اور امریکی مفادات کا تصادم بڑھتا
جارہا ہے،اب تک پاکستانی حکمرانوں کا موقف یہ تھا کہ دونوں ممالک مشترکہ
دشمنوں کے خلاف جنگ لڑرہے ہیں،لیکن جب کوئی بھی قومی و ملکی سلامتی کا حساس
اور نازک مرحلہ سامنے آتا ہے،ہماری فوجی اور سیاسی قیادت اپنا سابقہ موقف
تبدیل کرلیتی ہے،یہ طرز عمل ثابت کرتا ہے کہ ہماری سابق اور موجودہ قیادت
صرف قوم کو فریب دینے کیلئے صرف رسمی احتجاج تک محدود ہے،آج یہ مرحلہ تیسری
بار سامنے آیاہے،جب پاکستانی فوجی اور سیاسی قیادت نے سخت ردِ عمل کا
مظاہرہ کیا ہے،آپ کو یاد ہوگا کہ امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کی گرفتاری اور
ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادین کے ٹھکانے پر امریکی کمانڈو کا حملہ بھی ایک
ایسا ہی مرحلہ تھا،جبکہ اِس سے قبل بھی امریکی فوجی پاکستان کی سرحدوں کی
خلاف ورزی کرتے اور پاکستانی فوجیوں کو نشانہ بناتے رہے ہیں اور ہماری فوجی
قیادت سخت ردِ عمل کا اظہار کرتی رہی،مگر اَمر واقعہ یہ ہے کہ پاکستانی
سرحدوں کی خلاف ورزی کوئی نئی بات نہیں،ہر بار پاکستانی حکومت کی فدویانہ
چیخ و پکار اور قوم کو دی جانے والی طفل تسلیوں کے باوجود دوسری جانب سے
اِس جارحانہ رویئے پر کسی قسم کی معذرت اور معافی کا اظہار نہیں کیا جاتا،
بلکہ سب سے بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ ہماری سرزمین پر اِس قسم کی زیادہ تر
کارروائیوں کے بارے میں امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کی جانب سے علی الاعلان
کہا جاتا ہے کہ یہ کارروائیاں حکومت پاکستان کی مرضی سے کی جارہی ہیں،جن
کیلئے شمسی اور شہباز ائیر بیس جیسے متعدد پاکستانی ہوائی اڈے استعمال
ہورہے ہیں،اب ایک بار پھر شمسی ایئر بیس کوپندرہ دن میں خالی کرانے کی بات
کی جارہی ہے،حالانکہ اِس اڈے کے بارے میں پہلے کہا گیا تھا کہ امریکن فوج
یہ ہوائی اڈا خالی کرچکی ہے ۔
اب دوبارہ اِسی بات کو دہرانے کا مطلب جہاں عوامی غم و غصے کو ٹھنڈا کرنے
کے حربے کے سوا اور کچھ نہیں،وہیں یہ بات یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ ہمارے
حکمران بے شمار معاملات قوم سے پوشیدہ رکھے ہوئے ہیں،جن پر امریکہ اور اُن
کے درمیان خاموش مفاہمت موجود ہے،یہ صورتحال یقینا ملکی و قومی سلامتی کے
حوالے سے بے حد تشویشناک ہے،کیونکہ کوئی بھی محب پاکستانی یہ سوچ ہی نہیں
سکتا کہ قومی و ملکی خود مختاری کے خلاف اِس قسم کے واقعات کی اجازت دی
جاسکتی ہے،لہٰذا اب ہماری سول اور عسکری قیادت کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ
دہشت گردی کے نام پر لڑی جانے والی اِس جنگ میں آج کے بعد ہمارا کردار کیا
ہونا چاہئے،اب ہمیں امریکہ اور نیٹو کمان کو یہ صاف اور واضح پیغام دینا
ہوگا کہ ہماری برداشت کی حد ختم ہوچکی ہے اور آئندہ اِس قسم کی جارحیت کا
منہ توڑ جواب دیا جائے گا،محض بون کانفرنس میں شرکت نہ کرنے،نیٹو کی سپلائی
روک دینے یا ایک آدھ ایئر پورٹ خالی کرانے کے اقدامات کافی نہیں اور نہ ہی
اسے پاک امریکہ تعلقات میں ٹرننگ پوائنٹ قرار دیا جاسکتا ہے،کیونکہ نیٹو کا
پاکستانی سیکورٹی فورسز پر حملہ ملکی سا لمیت پر حملے کے مترادف ہے ۔
لہٰذا ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ نیٹو حملوں کے ردعمل کے طور پر حکومت نیٹو
ممالک سے اپنے سفیروں کو واپس بلالیتی اور افغانستان میں امریکہ و صلیبی
حواریوں کی دہشت گردی میں مزید تعاون سے انکار کردیتی،مگر افسوس کہ ایسا
نہیں کیا گیا،حالانکہ امریکی جارحیت کے خلاف پارلیمان اور پارلیمان سے باہر
تمام جماعتیں متفقہ موقف اختیار کرچکی ہیں،کل جماعتی کانفرنس کے بعد کابینہ
کی دفاعی کمیٹی کے اجلاس کے فیصلے اِس بات کا تقاضہ کرتے ہیں کہ دہشت گردی
کے خلاف نام نہاد امریکی جنگ میں مزید شرکت سے معذوری اختیار کرلی
جائے،کیونکہ یہ مسئلہ چند فوجیوں کی جانوں کا نہیں بلکہ ملک و قوم کی
سلامتی کاہے،ہماری نظر میں نیٹو کایہ حملہ پاکستان کی خود مختاری پر حملے
کے مترادف ہے،اِس لیے ناگزیر ہے کہ ہماری عسکری و سیاسی قیادت محض بیان
بازی اور رسمی قراردادوں پر ہی اکتفا کرنے کے بجائے ملک اور قوم کے مفادات
سے ہم آہنگ اور وہ جرات مندانہ فیصلے کرے،جس میں ہماری
بقاء،آزادی،خودمختاری اور پرامن و خوشحال مستقبل کی ضمانت موجود ہو اور جو
ہمارے قومی عزت و وقار کے مطابق ہوں،یاد رکھیں کہ دنیا میں سر اٹھا کر جینے
کیلئے قومی عزت و وقار سے بالاتر کوئی چیز نہیں ہوتی ۔ |