مہمند ایجنسی میں پاک فوج کی چیک
پوسٹوںپر نیٹو کے حملے کے حوالے سے یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ یہ حملہ پاکستان
،پاکستانی قوم ،حکومت اور عسکری طاقت کو چیک کرنے کے لئے کیا گیا ہے ۔امریکہ
پاکستان کو کمزور سے کمزور تر کرنے کے لئے اس طرح کی کارروائیاں برسوں سے
کررہا ہے جبکہ ہم سب برسوں سے معمولی احتجاج کرنے کے بعد کسی نئے واقعے کی
نظر ہوجاتے ہیںبلکہ ایک منصوبے کے تحت قوم کو نئے معاملات،حادثات اور حالات
کی نظر کردیا جاتا ہے نہ ہم سمجھ پارہے ہیں اور نہ ہی امریکہ اور اس کی
اپنی عالمی قوتیں پاک وطن کے خلاف سازشوں سے بعض آرہی ہیں۔
امریکہ پاکستان کے خلاف دوستی کی آڑ میںجو دشمنی کررہا ہے اس کا اظہار
متعدد مرتبہ ہوچکا ہے لیکن اب شائد امریکہ نے کھل کر پاکستان سے جنگ کرنے
کا فیصلہ کرلیا ہے نیٹو کا پاک فوج پر حملہ اسی بات کا اشارہ نہیں ہے تو
اور کیا ہے؟ لیکن ہمارے حکمران آج بھی مصلحتوں کا شکار ہیں ان کی سوچیں
اقتدار کے استحکام سے شروع ہوکر اسی پر ختم ہوجاتی ہیں جس طرح مرد کی
کمزوری ایک عورت ہوتی ہے اسی طرح ہمارے ملک کے سیاست دانوں اور جرنیلوں کی
کمزور ی حکومت یا اقتدار ہے ۔ اقتدار سے چمٹے ان نام نہادوطن پرستوں نے
اپنے مفادات کے لئے ہمیشہ ملک کو ہی نقصان سے دوچار کیا اور قوم کو بیوقوف
بنایا۔
نئے نعروں اور وعدوں کے ساتھ اقتدار میں آکر یہ لوگ سب سے پہلے ان ہی نعروں
اور وعدوں کاگلا گھونٹتے ہیں ۔
پرویز مشرف سے جب قوم تنگ آنے لگی تو انہوں نے امریکہ کے مفاد میںپوری قوم
سے اس دھمکی کا ذکرکرکے جو ایک امریکی رچرڈ ہالبروک نے ان کے کان میں دی
تھی پاکستان میں امریکی فوجوں کو داخل ہونے اور اپنی مرضی سے جو چاہے وہ
کرنے کی اجازت دیدی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ امریکا اب پاکستان کے لئے بھارت
سے زیادہ خطرناک نظر آنے لگا ہے۔
لیکن یہ سب تیزی سے نہیں بہت آہستہ آہستہ اور منصوبہ بندی کے ساتھ کیا
جارہا ہے امریکہ ہمارے لالچی حکمرانوں سے اپنے مفادات کا حصول اس وقت تیز
کردیتا ہے جب اسے یقین ہوجاتا ہے کہ قوم اب حکومت سے مایوس ہورہی ہے اور
تبدیلی کی خواہشمند ہے ۔ پرویز مشرف کے ساتھ بھی امریکہ نے ایسا ہی کیا اور
ان کے اقتدار کے آخری ایام میں انہیں صدر کی حیثیت سے بدستور دیکھنے کا
جھانسہ دیکر جو ممکن ہوا وہ ان سے حاصل کرگیا اور پھر ان کی طرف بڑنے والی
نفرت پر پاکستان کا اندرونی معاملا کہہ کر ان سے منہ موڑلیا۔(حالانکہ 2008
کے الیکشن جس میں پیپلز پارٹی بھاری نشستیں لیکر کامیاب ہوئی کے بعد بھی
امریکہ پرویز مشرف کو اقتدار رہنے کا دلاسا دیتا رہا امریکی سینیٹر شیلا لی
جیکسن نے خود اس بات کا انکشاف کرتے ہوئے واشنگٹن میں ہونے والے اجلاس کو
بتایا تھا کہ ان کی صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف سے بات ہوئی ہے اور وہ
پیپلز پارٹی کے ساتھ چلنے کے لئے تیار ہیں بس ہم کو نواز شریف پر نظر رکھنے
کی ضرورت ہے)
پرویز مشرف کو جانا تھا وہ چلے گئے لیکن اپنے ساتھ رسوائی لیکر گئے ۔پرویز
مشرف کی رخصتی کے ساتھ ہی امریکہ کو ایک ایسے وفادار کی بھی تلاش تھی جو
پاکستان سے زیادہ خالصتا امریکہ کا وفادار ہو تاکہ پرویز مشرف کے رخصت ہونے
کے بعد امریکہ کا ”مفاداتی پروگرام“ وقتی طور پر بھی متاثر نہ ہو سکے، سو
وہ پرویز مشرف کی رخصتی سے قبل ہی آصف زرداری کے روپ میں انہیں مل گیا یہ
محض اتفاق نہیں ہے بلکہ ایک سازش ہی تو تھی کہ بے نظیرکا سرعام 27 دسمبر
2007 کو قتل ہوگیا اور ملک کے لوگوں کی خواہشات کے برعکس ایک ایسی جمہوریت
آئی جواپنے ابتدائی دنوں ہی سے مشکوک رہی بے نظیر اگر زندہ رہتی تو ایسی
حکومت نہیں آتی کہ جس صدر اپنی پارٹی کا بھی سربراہ ہوتا بلکہ بے نظیر کی
زندگی میں تو آصف زرداری ایکAbnormal انسان سے زیادہ کچھ بھی نہیں تھے یقین
نہ آئے تو اس وقت عدالتوں میں پیش کئے جانے والے ان کے دستاویزات دیکھے
جاسکتے ہیں۔لیکن وہ امریکہ کی نظر میں اہم ترین تھے امریکہ نے کھل کر ان کی
سپورٹ کی اور خود آصف زرداری اقتدار کے اعلیٰ ترین منصب پر بیٹھنے کی لالچ
میں اپنی مقتولہ بیوی کے قاتلوں کی گرفتاری تو کجا ان کے قتل کا مقدمہ تک
درج کرانا بھول گئے تھے۔
پیپلز پارٹی کی حکومت اور آصف زرداری کے صدر بننے میں امریکہ کا کتنا کردار
تھا اس کا اندازہ تو آصف زرداری کی طرف سے امریکہ کو شکریہ کا فون اور
پیغام بھیجنے سے ہی کیا جاسکتا ہے (اس معاملے کو وکی لیک افشا کرچکی ہے)۔
پھر ملک میں کیا نہیں ہوا امریکہ کی خفیہ ایجنسی بلیک واٹر کے آنے کی اطلاع
اور پھر لاہور میں ریمنڈ ڈیویس کی سرعام دو نوجوانوں کو قتل کرنے کے الزام
میں رنگے ہاتھوں گرفتاری اور اس کی حکومت کے اشارے اور قانونی مدد کے عوض
باعزت رہائی ۔
مجھے یہاں ریمنڈ کی رہائی سے کوئی دلچسپی نہیں ہے بلکہ اس کی گرفتاری کا
ذکر میرے لئے زیادہ اہم ہے میں تو امریکہ کی چال کا ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ
اس نے ریمنڈ ڈیویس کو آخر کس مقصد کے لئے یہاں بھیجا تھا؟یہ معاملہ ہمیشہ
کے لئے فائلوں میں دفن کردیا گیا۔
کیا اس طرح کی مثال کسی اور ملک میں ممکن ہے کہ کوئی غیرملکی قتل کے الزام
میں گرفتار ہوجائے اور مزے سے رہائی پاکر اپنے ملک واپس بھی چلا جائے؟
ساتھ ساتھ امریکہ کی جانب سے ڈرون حملوں میں شدت آنا اور جارحانہ
کارروائیوں میں اضافہ ہونا ملک کو کمزور کرنے کی سازش نہیں تو اور کیا ہے؟
پیپلز پارٹی کی حکومت کے ساتھ امریکہ وہ ہی کچھ کررہا ہے جو اس نے پرویز
مشرف کے ساتھ کیا تھا امریکی حکام اور پالیسی سازوں کو یقین ہوگیا ہے کہ
قوم اب پیپلز پارٹی کی حکومت سے ہی نہیں بلکہ جمہوریت سے ہی مایوس ہوگئی ہے
تب ہی امریکہ نے ملک اور عسکری قوت کی بدنامی کے لئے اپنے لے پالک پاکستانی
منصور اعجاز اور حسین حقانی کے میمو کا اسکینڈل چلایا اور لیکن اس معاملے
میں توقع کے خلاف پاکستان کی عسکری قیادت کے ردِعمل کو دیکھتے ہوئے اس نے
مہمند ایجنسی میں وہ ہی کیا جو انگریز اپنی کالونیوں کے ساتھ کیا کرتے تھے
کہ انہیںمزید ڈرایا اور سبق سیکھایا جائے ۔
پوری قوم امریکہ کی مہمند ایجنسی پر حملے کےلئے احتجاج کررہی ہے لیکن آصف
زرداری کو ان کی جمہوری حکومت کے خلاف ہونے سازش نے پریشان کیا ہوا ہے۔
ظاہر ہے امریکی کارروائیوں سے ان پر کیا اثر ہوگا امریکہ نے کوئی ان کی ذات
پر تو حملہ کیا نہیں یا ان کے مفادات پر تو ضرب نہیں لگائی کہ وہ احتجاج
کریں انہیں تو بس ان کے اقتدار کی فکر ہے؟
صدر آصف زرداری نے ملک کے ایسے حالات میں جب غیر ملکی فوجیں ملک پر حملے
کررہی ہیں اور ملک سازشوں کا شکار ہے یہ بیان دیکر کہ غیر جمہوری قوتیں ایک
بار پھر ہمار ی جمہوری حکومت کے خلاف سازش کررہی ہیںیہ ثابت کردیا کہ ان کو
ملک کی سلامتی سے زیادہ ان کی حکومت کی سلامتی زیادہ عزیز ہے۔
پیپلز پارٹی والوں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اگر ان حالات میں بھی وہ اپنے
اقتدار کی لالچ میں رہیں گے تو وہ ملک کے ساتھ اچھا نہیں کریں گے اس لئے
ضرورت اس بات کی ہے کہ آصف زرداری ازخود اپنی حکومت کے خاتمے اور اسمبلیاں
توڑنے کا ”نیک کام “ انجام دیدیں اور اپنے آپ کو اور ملک کوقو م کے حوالے
کردیں اسی میں ملک ،قوم اور ان کی اپنی بھلائی ہوگی ویسے حیرت ہے اس بات پر
کہ اس قدر برے حالات کے باوجود حق پرستوں کی جانب سے مارشل لاءطرز جیسے
اقدامات کے مطالبے کی آواز نہیں آرہی حیرت تو ان سیاسی جماعتوں پر بھی ہیں
جو اب بھی اس حکومت کا ساتھ دے رہے ہیںجس نے عوام کو تو کچھ نہیں دیا اب
ملک کی عزت اور وقار کا بھی خیال نہیں رکھ رہی ۔
سوال یہ بھی ہے کہ جو کچھ ہماری حکومتیں،سیاسی پارٹیاں اور اسٹبلشمنٹ کررہی
ہیںاس سے قوم کوکیاحاصل ہورہا ہے؟اور ملک کہاں جارہا ہے؟
64سالوں میں اگر قوم کو کچھ ملا ہے تو نئے اور دلچسپ ایشوز لیکن ملک کے حصے
میں صرف بدنامی آئی؟ |