آفاقیت کا اعزاز ہر کسی کا نصیب
کہاں۔ عالم ِ رنگ و بومیں آفاقیت کے علم بردار یوں بھی عنقاہیں،اور جو
یاران با صفا آفاق کے منظر نامے میں رنگ بھرنے میں مصروف ہیں ان میں سے بھی
اکثر کی آفاقیت نجی یا قومی نوعیت کی ہے ۔اقبال نے موٴمن کی پہچان یہ قرار
دی تھی کہ آفاق موٴمن میں گم ہوتا ہے نہ کہ موٴمن آفاق میں گم ہوتا ہے۔ ہم
نے آفاق میں بہت تانک جھانک کی لیکن ہمیں کہیں موٴمن صاحب نظر نہ آئے،ہمیں
پریشانی لاحق ہوئی آخر وہ حضرتِ موٴمن کہاں کھو گئے ، اسی تلاش میں ایک دن
امیر الاسلام ہاشمی سے ملاقات ہوئی انہوں نے خبر دی کہ:
گم جس میں ہوا کرتا تھا آفاق وہ موٴمن
مینڈک کی طرح اب کسی تالاب میں گم ہے
اقبال رہے نہ اقبال کا موٴمن رہا اور یوں رفتہ رفتہ آفاقیت کی نوعیت تبدیل
ہو گئی یا آفاقیت عنقاہو گئی۔
سفیان آفاقی اور گلزار آفاقی سے شناسائی کے کچھ ہی عرصہ بعد عالمِ معلومات
میں ہمارا سامنا ڈاکٹر صابر آفاقی سے ہوا جب آفاقیت کے علمبرداران سے
شناسائی کا سلسلہ دراز ہوا تو ہم بھی راتوں رات آفاقی ہوگئے ۔ سفیان آفاقی
اور گلزار آفاقی کا معاملہ مختلف تھا لیکن مظفرآباد سے دیرینہ وابستگی اور
محترم ڈاکٹر صابر آفاقی سے قربت نے ہمارے اچانک آفاقی ہو جانے کو خاصہ معمہ
بنا دیا ہر کوئی ہم سے ملنے ملانے میں خاصہ محتاط نظر آتا ‘عجیب عجیب سوال
کیے جاتے ‘ہمیں وفاقی بھی کہا جاتا رہا لیکن ہم اپنی آفاقی طبیعت کے باعث
چہرے کو شکن آلود نہ ہونے دیتے‘ پھر رفتہ رفتہ اس معاملے پر وقت کی ایسی
گرد پڑی کہ ”نہ وہ حسن میں رہیں شوخیاں نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں“۔
جب ہمارے پرِ پرواز کواڑان کے لیے پاکستان کی فضا ناکافی محسوس ہوئی تو ہم
نے سعودی عرب کا رخ کیا یہاں آکر ہمیں ایک اور آفاقی اسمِ گرامی کاسامنا
کرناپڑا‘ ریاض میں کوٹلی آزاد کشمیر کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد شاد و آباد
ہے ہمارا اہلیانِ کوٹلی سے واسطہ پڑنا تو معمول کی بات تھی لیکن ہماری
آفاقیت نے اس تعلق کو ہمارے لیے رومانوی اور افسانوی بنادیا جس سے بھی
ملاقات ہوتی برملا حبیب الرحمن آفاقی سے ہماری نسبت اور رشتے داری کا پوچھ
لیتا ‘ ایکباریوم یکجہتی کشمیر کے ایک جلسے میں ہمیں سٹیج پر بلایا گیا جس
میں کوٹلی کے وابستگانِ آزادی کشمیر کی خاصی تعدا شریک تھی تو سامعیں میں
چہ مہ گوئیاں شروع ہو گئیں کہ ضرور یہ حبیب آفاقی صاحب کے کوئی عزیز ہیں جب
کہ ہم عزیز مصر کے عزیز نہیں تھے حبیب صاحب کے کیسے ہوتے۔
ہم نے کبھی حبیب الرحمن آفاقی کے رشتہ دار ہونے سے انکار بھی نہیں کیا کیوں
کے ہمارے درمیان اخوت کا ایک ایسا رشتہ موجود ہے جس کی وسعت حدکونین کو
محیط ہے لیکن حقیقت ِ حال کا یقین دلانا بہت دشوار تھا اور چو نکہ استفسار
کرنے والے جماعت اسلامی کے لوگ ہوتے تھے جو اگر زمین کو چپٹی ثابت کرنے پر
آ جائیں تو دلائل ہاتھ جوڑے دو زانو ہو کر اعلانِ اطاعت کرتے ہیں جنہیں
قائل کرنا اتنا ہی مشکل تھا جتنا عام حالات میں خودہمارا قائل ہونا تھا۔
زلزلہ2005ء کے چھ ماہ بعد ہم پاکستان میں جلوہ گر ہوئے تو معلوم ہوا کہ
بھونچال کے اثرات سے لوگوں کو نکالنے کے لیے زلزلہ زدہ علاقوں میں الیکشن
کا آزمودہ نسخہ آزمایا جا رہا ہے تاکہ لوگ قیامتِ صغری کے سحر سے نکل سکیں
اور فی الحقیقت یہ چال بہت کامیاب بھی دکھائی دیتی تھی۔ ہم نے اخبارات
سے رشتہ جوڑا ،مستقبل کو مس تق بل کر کے حالات کا تجزیہ اورمتوقع پیش آمدہ
مشکلات و واقعات کی پیش بندی کا راستہ اختیار کیا ۔ ہماری یہ کاوشیں جاری
تھیں کے ایک روز ہم نے ایک چونکا دینے والی خبر پڑھی جسمیں حبیب الرحمن
آفاقی نے کوٹلی سے ایم ایل اے کی ایک نشست پر الیکشن لڑنے کا اعلان کر رکھا
تھا‘
ہمیں یقین تو نہیں آرہا تھا کہ ایک آفاقی شخصیت یوں کسی کے جھانسے میں آکر
الیکشن جیسے کھیل میں کود پڑے گی۔ہم الیکشن کو شجر ممنوعہ تو نہیں سمجھتے
تھے مگر انتخابی نظام سے قطعا غیر مطمئن تھے اور الیکشن لڑنے کا مطلب
امیدواروں میں باہم دھینگا مشتی سمجھتے تھے بعد میں یہ تجزیہ حالات نے درست
ہی ثابت کر دیا ‘ خیر اب چونکہ ایک آفاقی شخصیت اس کھیل کا حصہ تھی لہذا
ہمیں بھی اپنے موقف میں لچک دکھانا پڑی۔
ہم ہر روز بڑی باقاعدگی سے حبیب الرحمن آفاقی کی خبریں اوربیانات کا مطالعہ
کرتے جن میں بالعموم معتدل سوچ جذبہ حب الوطنی اور خدمت خلق کے منشور کی
ترجمانی ہوتی ‘ بعض بیانات سے تو ایسا بھی لگتا کہ آزاد کشمیر کے مسائل کا
واحد حل حضرت حبیب الرحمن آفاقی کی بھر پور کامیابی میں مضمر ہے بعض بیانات
پڑھ کر یوں محسوس ہوتا کہ الیکشن کے آخری دنوں تک ان کے مدمقابل امیدوار
آفاقی صاحب کی مقبولیت سے بوکھلا کر بیرون ملک فرار ہو جائیں گے۔ اس ساری
صورت حال میں ہمارے دلِ ناداں میں ان سے ملاقات کی آرزونے سر اٹھایا اور
پھر ایک روز ہماری یہ خواہش ناتمام بھی تمام ہوگئی ۔
جب ہم کوٹلی کے وسط میں قائم ان کے انتخابی دفتر میں داخل ہوئے تو وہ ایک
عوامی وفد سے لا ینحل مسائل سماعت فرما رہے تھے ‘ پورے یقین اور اعتماد سے
لوگوں کو مجلس عمل کی کامیابی کی نوید سنا رہے تھے وہ فرما رہے تھے کامیابی
کی ہوا چل پڑی ہے قوم بیدار ہوچکی ہے اب ہر کسی کو کھرے کھوٹے کا علم ہو
چکا ہے ‘ ہم ان کی زبانی یہ گفتگو سنتے ہوئے سوچ رہے تھے کہ کہیں ہم خواب
تو نہیں دیکھ رہے‘ ہمیں دیکھ کر وہ فرحت و انبساط کے ساتھ اپنی نشست پر
کھڑے ہوگئے اور اس انداز میں ملے جیسے صدیوں سے ہمارے واقفِ حال ہوں‘ہم نے
ان کی مصروفیات میں زیادہ مخل ہو نا مناسب نہ سمجھا اپنا تعارف کروایا آنے
کا مقصدِ بے داد بیان کیاپھرہم نے موسم کی مناسبت سے گذارش کی کہ وہ اپنی
معمول کی مصروفیات جاری رکھیں ہمیں بس شرف ِمصاحبت سے نوازیں۔
لوگ آتے رہے جاتے رہے آفاقی صاحب ہر کسی سے بڑے پر تپاک انداز سے ملتے ،
تشفی آمیز گفتگو فرماتے ہمیں تو بس ان کی گفتگو کے ادبی اورنظریاتی پہلو پر
دھیان رکھنا مقصود تھانہ جانے کیوں ہماری توجہ ان کی گفتگو میں نئی نئی
ترکیبوں استعاروں اضافتوں اور ضرب الامثال پر تھی۔ بعض اوقات وہ سیاسی
انداز میں معاملہ گول بھی کر دیتے بہرحال ان کے دل میں قوم کے لیے جو درد
تھا اسے کوئی آفاقی شخصیت ہی سمجھ سکتی تھی اور ہم سے زیادہ اس کام کے لیے
کون موزوں ہو سکتا تھا۔
یہ طویل ملاقات بہت خوشگوار رہی اور بخیر انجام کو پہنچی۔اسی روز علی الصبح
حسنِ اتفاق سے ہماری ملاقات الیکشن پر گہری نظر رکھنے والے ایک تجزیہ فگار
سے ہوئی ہم نے اپنے نصف ہم نام حبیب لرحمن آفاقی سے ہونے والی شب بخیر
ملاقات کی تفصیلات بیان کیں موصوف نے ہماری زبانی حضرت حبیب آفاقی کا حلیہ
سن کر فرمایا بھئی آپ تو عالم ِخواب میں بھی دھوکہ کھا گئے جو حلیہ آپ بیان
فرما رہے ہیں وہ تو ایم ایل اے کے ایک اور امیدوار میجر لطیف خلیق کا ہے
جبکہ حبیب الرحمن آفاقی کے خد و خال اور شکل و صورت اس سے بالکل مختلف ہے ۔
’ آسمان سے گراکھجور میں اٹکا “کے مصداق ہم دھڑام سے عالم بیداری میں جیسے
ایک اونچی چٹان سے لڑھک کر کسی آبشار کے رم جھم پانی کے زیرِ سایہ تالاب
میں پانی بوس ہو گئے تھے اور حبیب الرحمن آفاقی سے ملاقات کی خواہش کی
تکمیل کا کہیں دور دور بھی سامان و امکان نظر نہیں آ رہا تھا۔
شخصيات:
(ڈاکٹر صابرآفاقی –معروف شاعر ونقاد)
(حبیب الرحمن آفاقی –اقبال اکیڈمی کوٹلی کے پرنسپل) |