چند سالوں سے پاکستان توانائی کے شدید
بحران کا شکار ہے، 2008ءسے 2011ءکے مالی سال کا جائزہ لیں تو اعداد وشمار
کے مطابق ہماری معیشت پر توانائی کے بحران نے 40 فیصد سے زائد اثر دکھایا
ہے جبکہ 9 ملین ایکڑ فٹ پانی کی قلت کی وجہ سے ہماری معیشت میں پہلے ہی 15
سے 20 فیصد نقصان ہوچکا ہے،اگر آبی ذخائر نہ بنے تو یہ کمی 20 ملین ایکڑ فٹ
تک ہوجائے گی۔پاکستان کی قومی پیداوار کا75فیصد زراعت پرانحصارہے۔سرکاری
اعداد وشمار کے مطابق سالانہ اوسطاً31سے 33ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر برد
ہوجاتا ہے حالانکہ اس پانی کو ضائع ہونے سے بچایا جاسکتا ہے جس کا سب سے
بہتر ین طریقہ ڈیموں کی تعمیر ہی ہے جو صرف زرعی یا توانائی مقاصد ہی نہیں
بلکہ انسانوں اور جانوروں کے پینے کے پانی کی ضرورت بھی پورا کر تے ہیں۔
آبی ذخائر نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کی لاکھوں ایکڑ زرخیز زمین بنجر پڑی
ہے۔ماہرین کے مطابق آئندہ 20سے 25سال تک پاکستان میں دو سے تین بڑے آبی
ذخائر اورڈیموں کی تعمیرانتہائی ضروری ہے۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ گزشتہ 64
سال کے دوران ملک کے مختلف مناسب مقامات پر ڈیموں اور آبی ذخائر کی تعمیر
کے حوالے سے ہر ممکن اقدامات کیے جاتے لیکن پاکستان کی تاریخ کا نصف حصہ
کالا باغ ڈیم کے تنازع میں گزر گیا۔ یوں تربیلا ڈیم کے بعد ہم کوئی ڈیم
نہیں بناسکے جس کی وجہ سے ضرورت کے وقت پانی کی قلت اور توانائی کے حصول
میں مسلسل کمی آتی رہی۔ طلب اور رسد میں کمی وجہ سے اب ملک میں توانائی اور
پانی کی کمی یقینا ایک بہت بڑے بحران کی شکل اختیار کرگئی ہے۔
گزشتہ دو دہائیوں سے کالا باغ ڈیم کے ساتھ ساتھ دیامر بھاشا ڈیم کی باز گشت
سنائی دے رہی ہے ۔ 90ءکی دہائی کے اختتام تک اس ڈیم پر کوئی توجہ نہیں دی
گئی تاہم 2002ءکے بعد دیامر بھاشا ڈیم کو قابل توجہ سمجھا گیا اور اس کی
فزیبلٹی رپورٹ تیار کی گئی مگر یہ ڈیم اپنے نام،رائیلٹی اور مستقبل میں اس
کے فوائد کی وجہ سے روز اول سے متنازع رہا کیونکہ جس جگہ پر ڈیم کی دیوار
تعمیر کی جارہی تھی اس کے بارے میں صوبہ خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان
اپنا اپنادعویٰ کررہے ہیں۔ نام اور رائلٹی کا درست تعین نہ ہونے کی وجہ سے
2006ءتک یہ معاملہ تنازع کی شکل میں برقرار رہا۔ گلگت بلتستان کے مضبوط
موقف کو مدنظر رکھتے ہوئے 2006ءمیں اس ڈیم کا نام تبدیل کرکے دیامر بھاشا
ڈیم رکھا گیا اور سابق صدر (ر) جنرل پرویز مشرف نے اپریل 2006ءمیں باقاعدہ
طور پر اس کا سنگ بنیاد رکھا جبکہ اگلے سال 2007ءمیں سابق وزیراعظم شوکت
عزیز نے بھی ایک افتتاحی تقریب کا انعقاد کیا۔ 18 اکتوبر 2011ءکو موجودہ
وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے دیامر بھاشا ڈیم کا تیسری مرتبہ سنگ بنیاد
رکھاہے۔ 2006ءسے قبل تیار کئے گئے تخمینے کے مطابق اس ڈیم پر آنے والے
اخراجات کا اندازہ ساڑھے 6 ارب ڈالر لگایا گیا اور 2016ءمیں اس ڈیم کو مکمل
ہونا تھا مگر حکمرانوں کی غلط حکمت عملی اور ناکام پالیسی کی وجہ سے تاحال
اس ڈیم کی تعمیر پر باقاعدہ کام شروع نہیں ہوسکا ہے۔ 18 اکتوبر 2011ءکو
وزیراعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی نے دیامر بھاشا ڈیم کا سنگ بنیاد ایک
مرتبہ پھر رکھا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ اس پر 12 ارب ڈالر خرچ ہوںگے اور
اس کی تکمیل کی مدت 2019ءبتائی گئی ہے تاہم زیادہ سے زیادہ حتمی مدت
2022ءتک بھی بتائی جاتی ہے۔ موجودہ حکومت کے اقدامات اور اعلانات کے باوجود
یہ ڈیم اپنی جگہ آج بھی متنازع ہے۔ 18 جولائی 2010ءکو پاکستان کے قومی
مشترکہ مفادات کونسل نے ڈیم کی متفقہ طور پر منظوری دی لیکن دلچسپ بات یہ
ہے کہ اس اجلاس میں جس خطے پر ڈیم تعمیر ہورہا ہے وہاں کا کوئی نمائندہ
شامل نہیں تھا۔ پاکستان کے وزیراعظم کے علاوہ چاروں وزرائے اعلیٰ اور دیگر
حکام شریک تھے اور گلگت بلتستان کے کسی بھی ذمہ دار کو اس اہم اجلاس میں
مدعو کرکے اعتماد میں لیناگوارا نہیں کیا گیا۔
یہی وجہ ہے کہ اب خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان کے مابین ایک مرتبہ پھر
حدود کا تنازع اٹھ کھڑا ہوا ہے۔خیبر پختونخوا اسمبلی نے اکتوبر 2011ءمیں
اپنی قرارداد نمبر 622 کے ذریعے مطالبہ کیا کہ دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیری
دیوار سے 8 کلو میٹر پیچھے (گلگت بلتستان کی طرف)تک اس کی حدود ہے۔ رکن
قومی اسمبلی اخونزادہ چٹان سمیت خیبر پختونخواکے دیگرحکام کا دعویٰ ہے آئین
کے مطابق رائلٹی خیبر پختونخوا کا ہی حق ہے جس کا جواب گلگت بلتستان قانون
ساز اسمبلی نے 25 نومبر 2011ءکو ایک قرارداد کے ذریعے دیا اور وفاقی حکومت
سے سفارش کی کہ ڈیم کی 25 فیصد متنازعہ رائلٹی اور حدود کے تنازع کو فوری
طور پر باﺅنڈری کمیشن کے ذریعے حل کیا جائے۔قرار داد کے محرک گلگت بلتستان
کے صوبائی وزیر تعمیرات عامہ بشیر احمد خان نے کہا کہ خیبر پختونخوا اسمبلی
کی قرارداد نمبر 622کی مذمت کرتے ہیں جس میں یہ دعویٰ ہے کہ 8 کلو میٹر
علاقے تک ان کی حدود ہے جو بے بنیاد ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ 1946ءمیں عمائدین دیامر کوہستان کے جرگے نے مذکورہ علاقے
(ڈیم کی تعمیر کے مقام )کو ضلع دیامر کی ملکیت قرار دیا اور حدود کے تنازع
کو حل کیا جس کی بنیاد پر عدالت عظمیٰ (سپریم ایپلیٹ کورٹ آف گلگت
بلتستان)نے بھی ڈیم کی 75 فیصد رائلٹی پر گلگت بلتستان کا حق تسلیم کرتے
ہوئے 25 فیصد رائلٹی کے تصفیے کے لئے باﺅنڈری کمیشن تشکیل دینے کا فیصلہ
کیا جس جگہ پر ڈیم بن رہا ہے، یہ جگہ گلگت بلتستان کی ہونے کے ہمارے پاس
تحریری ثبوت موجود ہیں،یہی وجہ ہے کہ اس حدود میں جب بھی کوئی واقعہ پیش
آیا اس کی ابتدائی رپور ٹ ضلع دیامر کے علاقے( تھور) کے تھانے میں درج
کرائی گئی ہے اور یہاں پر تعمیر ومرمت کے لئے ریت سمیت تمام اشیاءبھی دیامر
سے لے جائی جاتی رہی ہیں۔اب رائلٹی کےلئے خیبر پختونخوا طاقت کے بل بوتے پر
دعویٰ کررہا ہے۔وفاقی حکومت فوری طور پر باﺅنڈری کمیشن کی تشکیل دے تاکہ
دونوں علاقوں کے مابین پیدا ہونے والی غلط فہمیوں اور بے چینیوں کا خاتمہ
کیا جاسکے اور دیامر بھاشا ڈیم کے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جاسکے۔
خیبر پختونخوا نے اسمبلی قرارداد منظور کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ ان کی نیت
میں فتور ہے اور اس سے گلگت بلتستان سے 16 لاکھ سے زائد عوام کی حوصلہ شکنی
ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوااسمبلی سروے آف پاکستان کو بنیاد
بنا کر ہماری حدود میں دخل اندازی کررہا ہے اور اسی کو بنیاد بنا کر شندور
پر بھی خیبرپختونخوانے قبضہ کیا۔
سروے آف پاکستان کی گلگت بلتستان کے حوالے سے ہمارے سامنے کوئی حیثیت نہیں،
یہ ادارہ کہیں پر صوبوں اور کہیں پر اضلاع کے درمیان تنازع کا سبب بن رہا
ہے۔ اس ادارے نے من پسند نقشوں کے ذریعے گلگت بلتستان کے اضلاع استور اور
اسکردو کے درمیان بھی تنازع پیدا کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا کہ گلگت
بلتستان اسمبلی کے قائد حزب اختلاف حاجی جان باز خان نے کہا کہ جس علاقے پر
خیبر پختونخوکا دعویٰ ہے یہ میرا حلقہ ہے، یہیں کے ووٹوں سے میں منتخب ہوا
ہے۔ ڈیم کی تعمیر کی وجہ سے ہمارے آباءواجداد کی قبریں ڈوب رہی ہیں لیکن ہم
نے اس پر بھی خاموشی اختیار کی مگر اب ہمارے حق پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کی
جارہی ہے، ہم اس کو کسی صورت برداشت نہیں کریں گے۔
گلگت بلتستان نیشنل الائنس کے سابق سربراہ اور معروف سیاسی وسماجی رہنما
عنایت اللہ شمالی کے مطابق غیر منقسم ریاست جمنوں وکشمیر کے 1947ءسے قبل کے
نقشوں کے مطابق گلگت بلتستان کی حدود دریا کے دونوں اطراف مقام تک سازین
(کوہستان) تک ہے جبکہ 1947ءکے بعد خیبر پختونخوا کی حدود کو مزید وسعت دینے
کے لئے حکومت پاکستان اور خیبر پختونخوا کے حکمرانوں نے جو اقدام کئے اس کے
باوجود بھی وہ قانونی طور پر بھاشا نالہ کے مقام سے آگے اپنی حدود کو مزید
آگے ثابت نہیں کرسکے۔جس مقام پر ڈیم کی دیوار تعمیر ہورہی ہے گلگت بلتستان
کے سیاسی وسماجی رہنماﺅں اور مقامی عمائدین کے مطابق صوبہ خیبر پختونخواہ،
ضلع کوہستان اور گلگت بلتستان کے ضلع دیامر کے درمیان بائیں طرف(چلاس سے
کوہستان کی طرف سفر کرتے وقت) اب بھی حد فاصل لیلنگ دار (مقامی زبان کا
لفظ) ہے اور کوہستان کی حدود لیلنگ دار کے ساتھ ہی واقع بھاشا کیمپ (بھاشہ
نالہ)سے شروع ہوتی ہے جبکہ دائیں طرف ڈوڈیشال وادی ہے یہاں سے آگے گلگت
بلتستان کی دو بڑی وادیاں داریل اور تانگیر واقع ہیں جن کی آبادی 80ہزار کے
قریب بتائی جاتی ہے۔ اس مقام تک دریا کے دونوں جانب گلگت بلتستان کی حدود
ہے جبکہ اس مقام سے آگے راولپنڈی کی طرف سفر کرتے ہوئے بائیں ہاتھ کی طرف
خیبر پختونخوا کی حدود شروع ہوجاتی ہے اور دائیں ہاتھ کی طرف مزید50 کلو
میٹر سے زائد کا علاقہ گلگت بلتستان کا ہے۔ جس مقام پر ڈیم کی دیوار تعمیر
کی جارہی ہے وہ مقام بھاشا نالہ یا لیلنگ دار سے گلگت بلتستان کی جانب
تقریباً دو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے جس کے بائیں طرف کے نالے کو”بصری“
جبکہ دائیں طرف کے نالے کو”وادی کھنبری“ کہا جاتا ہے۔
مذکورہ بالا حقیقت کو مدنظر رکھا جائے تو دیامر بھاشا ڈیم 100 فیصد گلگت
بلتستان میں تعمیر ہورہا ہے اور اس کے تمام نقصانات بھی گلگت بلتستان کے
ہیں۔ مذکورہ بالا حقائق کے مطابق لفظ بھاشا اس میں اضافت لگائی گئی ہے کہ
تاکہ حکومت پاکستان و خیبرپختونخوا اپنے دعویٰ کو برقرار رکھ سکے۔ اب تنازع
ہے رائلٹی کا۔ خیبر پختونخواکا دعویٰ ہے کہ دیامر بھاشا ڈیم اس کی حدود میں
تعمیر ہورہا ہے، اس لئے اس کی رائلٹی کا تمام حق خیبرپختونخوا کو ہے جبکہ
گلگت بلتستان کا دعویٰ ہے کہ ڈیم اس کی حدود میں تعمیر ہورہا ہے، اس لئے
رائلٹی سمیت تمام فوائد اسے دیے جائیں۔ خیبرپختونخوا کے پاس حدود کے حوالے
سے سروے آف پاکستان کے نقشے اوررائلٹی کے لیے آئینی دلائل ہیںجبکہ گلگت
بلتستان کے پاس حدود کے حوالے سے 1947ءسے قبل کے نقشے،مقامی جرگوں کے فیصلے
اورمقامی تھانے کا ریکارڈ اور رائلٹی کے لیے ثبوتوں کی بنیاد پر ہونے والا
عدالت عظمیٰ (سپریم ایپلیٹ کورٹ آف گلگت بلتستان) فیصلہ دلیل ہے جس کوحکومت
پاکستان سمیت سب نے تسلیم کیا ہے اور اس فیصلے کو کسی آج تک چیلنج نہیں کیا
ہے۔ دیامر بھاشا ڈیم کے حوالے سے بنائی گئی ویب سائٹ پر رکھے گئے اعداد
وشمار کے مطابق اس ڈیم کی تعمیر سے 30 گاﺅں کے 22 سو سے زائد گھروں پر رہنے
والے 22 ہزار افراد متاثر ہوں گے جبکہ 1500 ایکڑ زرعی اور 25 ہزار ایکڑ غیر
زرعی زمین زیر آب آئے گی اور بھاشا کے مقام سے رائی کوٹ تک تقریباً
100کلومیٹر تک پاک چین دوستی کا بہترین اور عملی ثبوت شاہراہ قراقرم زیر آب
آئے گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان نقصانات میں سے کوئی ایک نقصان بھی خیبر
پختونخواکی حدود میں نہیں ہورہا ہے اور اصل نقصانات کی مقدار بھی اس سے
دگنی بتائی جاتی ہے جبکہ ڈیموں کی تعمیر سے پہنچنے والے اثرات کے تمام
نقصانات بھی گلگت بلتستان کو ہی برداشت کرنے پڑیں گے۔
ماہرین کے مطابق جس مقام پر ڈیم کی تعمیر کی جاتی ہے وہاں پر بارشوں میں 20
سے 25 فیصد تکزیر آب رقبے میں اضافہ ہوجاتا ہے جبکہ ڈیم کی تعمیر سے قرب
وجوار کی زمینوں میں سیم وتھور کے اثرات بھی زیادہ پیدا ہوتے ہیں جس کی وجہ
سے زمینوں کے سرکنے کے واقعات آئے روز پیش آتے ہیں کیونکہ یہ پورا علاقہ
پہاڑی سلسلوں پر مشتمل ہے اس لئے یہاں پر اس کے زیادہ امکانات ہیں۔ دیامر
بھاشا ڈیم کی تعمیر سے گلگت بلتستان کا تیسرا بڑا ضلع دیامر تقریباً ختم
ہوجائے گا او اس کے ضلعی ہیڈ کوارٹر کا نچلا حصہ مکمل زیر آب آئے گا جبکہ
اوپر کا حصہ ڈیم کی وجہ سے بھی شدید متاثر ہوگا۔ بھاشا کے مقام سے رائی کوٹ
تک تقریباً 100 کلو میٹر سڑک کو نئے انداز میں تعمیر کرنا ہوگا۔ اس ڈیم کی
تعمیر کی تکمیل کے بعد 4500 میگا واٹ بجلی پیدا ہوگی اور ڈیم میں 81 لاکھ
ایکڑ فٹ تک پانی ذخیرہ کیا جاسکے گا۔ 2010ءمیں پیش کی گئی ایک رپورٹ کے
مطابق ڈیم اپنی تعمیر کی تکمیل کے بعد صرف 8 سال میں اپنے تمام اخراجات
پورے کرے گا۔ ڈیم کی اس لئے بھی زیادہ اہمیت ہے کہ پاکستان کی قومی پیداوار
کے 75 فیصد حصے کا انحصار زراعت پر ہے اور سالانہ32سے33 ملین ایکڑ فٹ پانی
سمندر میں چلا جاتا ہے جبکہ ڈیم میں 7 بلین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کیا جاسکے
گا۔ اعداد وشمار کے مطابق ڈیم کی چوڑائی 2000 فٹ، اونچائی 660 فٹ
اوردیواروں کی اونچائی 270 فٹ ہوگی۔ اس میں دریائے سندھ کے پانی کا 15 فیصد
ذخیرہ ہوگا اور یہ دنیا میں سب سے زیادہ بلند ڈیم بنائے گا۔ اس کی عمر 100
سال بتائی جاتی ہے۔
کچھ ماہرین دیامر بھاشا ڈیم کے تنازع کو بھارت کی جانب سے مقبوضہ جموں
وکشمیر میں تعمیر کئے جانے والے ڈیموں سے تشبیہ دیتے ہیں۔ انہیں یہ معلوم
ہونا چاہئے کہ گلگت بلتستان پاکستان کا آئینی حصہ ہے اور نہ ہی پاکستان کے
آئین میں اس خطے کا ذکر ہے اور دنیا میں تسلیم کردہ اقوام متحدہ کی
قراردادوں کے مطابق یہ خطہ آج بھی منقسم ریاست جموں وکشمیر کا حصہ ہے جس کا
فیصلہ ہونا باقی ہے۔ اس لئے یہاں پر پاکستانی آئین کا براہ راست اطلاق نہیں
ہوسکتا ہے اگر آئین کی بات کی جائے تو پاکستان یہاں پر ڈیم تعمیر ہی نہیں
کرسکتا جبکہ دوسری جانب بھارت نے ریاست جموں وکشمیر کو نہ صرف زبانی طور پر
اپنا اٹوٹ انگ قرار دیا بلکہ عملی طور پر آئینی ذریعے سے ریاست جموں وکشمیر
کو بھارت کا حصہ ظاہر کیا ہے اور بھارت کا یہ موقف ہے کہ پوری ریاست جموں
وکشمیر اس کا آئینی حصہ ہے۔ اس لئے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پر بھی اس
کا دعویٰ ہے۔ بھارت اپنے دعویٰ پر دلیل کے لئے مہاراجا کشمیر کے الحاق کو
پیش کرتا ہے جبکہ ہمارے پاس ایسی کوئی دستاویز موجود نہیں ہے۔ اس لئے حکومت
پاکستان یا دیگر اداروں کو چاہئے کہ وہ کوئی بھی اقدام کرنے سے قبل خطے کی
حقیقی تاریخ اور مسائل کو مدنظر رکھے او اس حقیقت کا اعتراف کرے کہ ڈیم کی
تعمیر اور نقصان والا علاقہ 100فیصدگلگت بلتستان کا حصہ ہے اور آج بھی یہ
خطہ گلگت بلتستان کے قبضے میں ہے ،تھور نالے کے لوگ اس کو چراگاہ کے طور پر
استعمال کرتے ہیںاگر حکومت پاکستان کو کوئی آئینی پے چیدگی کا سامنا ہے تو
گلگت بلتستان کے لوگوں کے ساتھ بیٹھ کرجائز طریقے سے اس مسئلئے کو حل
کرے،لیکن نام نہاد دعوﺅں کے ذریعے کسی کا حق غصب کرنے کی کو شش نہ کرے۔
گلگت بلتستان کونسل اور گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے علاوہ حکومت کی
یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے عوام کے تحفظات سے حکومت پاکستان کو آگاہ کرے
اور اس بات کا پابند بنایا جائے کہ حدود کے تنازع کے حل سے قبل ڈیم کی
تعمیر روک دی جائے بصورت دیگر مستقبل میں یہ ڈیم گلگت بلتستان اور
خیبرپختونخوا کےلئے ایک نئی مصیبت ثابت ہوسکتا ہے۔ جہاں تک خیبر پختونخوا
کا یہ دعویٰ ہے کہ رائلٹی اس کا حق ہے۔ اگر اسے رائلٹی لینے سے ہی غرض ہے
تو وہ پھر کالا باغ ڈیم تعمیر کروائے اور اس کی رائلٹی سے بھرپور فائدہ
اٹھائے۔ اگر دیامر بھاشا ڈیم کی تکمیل ہوتی ہے تو اپنے تعمیری اخراجات نکال
کر ڈیم سے ملنے والی آمدنی کے بعد 2030ءتک گلگت بلتستان مجموعی طور پر ایک
کھرب سے زائد روپے رائلٹی یا دیگر مدوں میں حاصل کرسکتا ہے ،جو گلگت
بلتستان کے اس وقت کے مجموعی بجٹ کے مقابلے میں 10 گنا زیادہ ہے۔ کیونکہ
حکومت گلگت بلتستان کے مطابق 2019ءتک ڈیم کی تعمیر مکمل ہوگی اور 2028ءمیں
ڈیم اپنے تمام اخراجات پورے کرچکا ہوگا اور 2029ءسے وہ نفع میں چلا جائے
گا۔ اس ڈیم کی تعمیر کا سب سے زیادہ فائدہ پاکستان کو ہوگا ،یہ ڈیم ملک میں
توانائی کے بحران پر قابو پانے میں معاون ثابت ہوگاکیونکہ تقریباً100فیصد
بجلی اور پانی سے پاکستان کے چاروں صوبے فائدہ اٹھائیں گے تاہم رائلٹی کا
فائدہ گلگت بلتستان کو ہوگا، توانائی کے حوالے سے 2030ءتک اس ڈیم کی ضرورت
نہیں پڑی گی کیونکہ گلگت بلتستان اس وقت مجموعی ضرورت تقریباً450میگاواٹ ہے
جبکہ اس خطے مزید 40ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی گنجائش ہے۔
اس وقت دنیا میں بجلی پیدا کرنے کے مختلف ذرائع ہیں جن میں پانی، کوئلہ،
سورج کی روشنی، ہوا، تیل، گیس اور نیوکلیئر اٹامک انرجی ہے لیکن اس وقت
دنیا میں بجلی پیدا کرنے کا سب سے آسان اور سستا طریقہ پانی سے بجلی پیدا
کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پاکستان اور گلگت بلتستان کو اس دولت سے نوازا ہے
لیکن ہم اس دولت کو جان بوجھ کر تباہ کررہے ہیں۔ دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر
سے جہاں ایک طرف پاکستان کےلئے ایک بہت بڑا آبی ذخیرہ میسر آئے گا وہیں پر
اس ڈیم کی تعمیر کے فوائد سے خیبر پختونخواہ سے لے کر پورا ملک مستفید
ہوگا۔ ڈیم کی تعمیر سے سندھ کو 2 ملین ایکڑ فٹ پانی ملے گا جس سے سندھ
لاکھوں ایکڑ اراضی کو سیراب کراسکے گا جبکہ خیبرپختونخوا کے ضلع ڈیرہ
اسماعیل خان کے 8 لاکھ ایکڑ سے زائد اراضی کو قابل کاشت بنایا جائے گا۔
پاکستان میں پانی کے حصول دو ہی ذرائع ہیں مون سون کی بارشیں یا پھر
گلیشیئر، 70 فیصد انحصار مون سون بارشوں جبکہ 30 فیصد انحصار گلیشیئر پر
ہوتا ہے اور دیامر بھاشا ڈیم جس مقام پر بن رہا ہے یہ گلیشیئر کے پانی کو
جمع کرنے کےلئے ایک قدرتی نعمت ثابت ہوسکتا ہے اور پنجاب بھی اس ڈیم سے
بھرپور فائدہ اٹھا سکے گا۔
اس وقت پاکستان میں جو بجلی پیدا کی جارہی ہے اس کا 35 فیصد پانی، 2 فیصد
رینٹل، 36 فیصد آئی پی پیز جبکہ جی ای این سی او سے 27 فیصد حاصل کی جاتی
ہے۔ 2010ءمیں ہماری بجلی کی ضرورت 22474 بتائی گئی جبکہ مجموعی پیداوار
19000 ظاہر کی گئی تھی لیکن یہ پیداوار 16 ہزار میگا واٹ سے زیادہ نہیں رہی
جس میں 40 فیصد ضائع یا چوری ہورہی ہے۔ واپڈا کی ویب سائٹ کے مطابق
2038ءمیں بجلی کی ہماری ضرورت 1 لاکھ 13 ہزار 695 میگا واٹ جبکہ پیداوار 90
ہزار ہوگی۔ بدقسمتی یہ ہے کہ توانائی کے متبادل ذرائع پر توجہ نہیں دے رہے
ہیں۔ ہمارے پاس کوئلہ اللہ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے جس کا ہم استعمال نہیں
کرپارہے۔ سندھ میں موجود کوئلے کا اندازہ 185.560 بلین ٹن لگایا گیا ہے جس
سے ہم 50ہزار میگا واٹ بجلی کئی سو سال تک پیدا کرسکتے ہیں۔ اس وقت دنیا کے
کئی ممالک کوئلے سے بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ آسٹریلیا اپنی کل پیداوار
کا 80 فیصد، چین 78 فیصد، بھارت 69 فیصد، امریکہ 50 فیصد، جرمنی 47 فیصد
بجلی کوئلے سے حاصل کرتا ہے جبکہ پاکستان میں کوئلے سے ہونے پیدا ہونے والی
بجلی کا حصہ 0.1 فیصد ہے۔ واپڈا کے اعداد وشمار کے مطابق پانی سے پیدا ہونے
والی بجلی بھی صرف آزاد کشمیر، خیبر پختونخوااور پنجاب میں بالترتیب 1000،
3747 اور 1697 میگا واٹ ہے۔ اس لیے ہمیں دیامر بھاشا ڈیم جیسے اہم منصوبے
کو متنازع بنانا چائے خیبرپختونخواہ بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے رائلٹی کا
حق جس کا بنتا ہے اس کو دے دیا جائے ورنہ یہ ڈیم بھی کالاباغ ڈیم کی طرح
متنازع بنکر ماضی کا قصہ پارینہ بن جائے گا۔ |