دوسرے ملکوں پر زور زبردستی یا
مکر وفریب اور دھاندلی کے ذریعہ قبضہ اور وہاں کے عوام کی مرضی کے خلاف
زبردستی اپنے من پسند سیاسی و معاشی فیصلے تھوپنے کے عمل کو استعمار کہتے
ہیں۔تاریخ کے ہر دور میں طا قتور قوموں نے کمزور قوموں کا استحصال کیا ہے۔
ماضی قریب میں برطانیہ، فرانس، اٹلی،ہالینڈ، پرتگال، روس وغیرہ نے ایشیا
اور افریقہ کے ایک بڑے حصہ پر قبضہ کر رکھا تھا۔ سفید فام یوروپی اقوام نے
بر اعظم امریکہ کے مختلف علاقوں پر قبضہ کیا اور مقامی عوام کو غلام بنا
لیا۔یہ سب استعمار اور استعماری ہتھکنڈوں کی مثالیں ہیں۔اب جبکہ انسانی
شعور بیدا رہو چکا ہے اور کسی بھی ملک کے لئے ، دوسرے ملک پر قبضہ ناممکن
تو نہیں لیکن مشکل ہوگیا ہے، استعمار نے بھی اپنا روپ بدل دیا ہے۔اب راست
ممالک پر قبضہ نہیں کیا جاتا۔بظاہر حکمران مقامی ہی ہوتے ہیں۔ اکثر عوام کے
ذریعہ منتخب حکمران ہوتے ہیں۔لیکن دھونس ، دھاندلی،فریب، لالچ اور بلیک
میلنگ کے مختلف طریقوں کو اختیار کرکے استعمار مقامی حکمرانوں ہی کے ذریعہ
عوام دشمن پالیسیاں ملک پرمسلط کرتا ہے۔ جدیدسرمایہ دارانہ استعمار کا اصل
مقصد دنیا کے وسائل پر قبضہ کرنا اور دولت کی طاقت سے دنیا کو غلام بنانا
ہے۔ اس مقصد کے لیے استعمار مختلف طریقے اختیار کرتا ہے۔ سیاسی محاذ پر وہ
ملکوں اور قوموں پر اپنے پٹھو حکمران مسلط کرتا ہے، ان کے ذریعہ اپنی
پالیسیاں وہاں کے عوام پر تھوپتاہے۔ مقامی معیشتوں کو تباہ کر کے بڑی
کمپنیوں اور سرمایہ داروں کے لیے راہیں ہموار کرتاہے۔ قدرتی وسائل کو لوٹتا
ہے۔ قبائل اور مقامی آبادیوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کرتا ہے۔ جو قومیں
استعمار کی اس راہ میںمزاحم ہوتی ہیں، ان پر فوجی کاروائی کرتا ہے اور فوجی
طاقت کے بل بوتے پرانہیں تباہ وتاراج کرتا ہے۔ اس کے لئے استعمار کے پاس
مختلف طریقے موجود ہیں۔ وہ پسماندہ قوموں کو ترقی اور گروتھ کے خواب دکھاتا
ہے۔ انہیں قرضوں کے جال میں پھنساتا ہے۔ مصنوعی طور پر پیدا شدہ مالیاتی
بحرانوں سے نکلنے اور ترقیاتی کاموں کے لئے آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک جیسے
اداروں سے مشروط قرضے فراہم کراتاہے۔ ان شرائط میں بیرونی کمپنیوں کو کام
کرنے کی اجازت، بیرونی سرمایہ کاری کی اجازت، غریبوں کو دی جانے والی
رعایتوں میں کمی، تعلیم اور صحت جیسے سماجی امور میں خرچ میں کمی، سرکاری
اداروں کو خانگیانا وغیرہ جیسی شرائط شامل ہوتی ہیں۔ ان شرائط کی وجہ سے
دھیرے دھیرے ملک کی دولت اور اسکے وسائل عالمی سرمایہ داروں کے قبضہ میں
چلے جاتے ہیں۔ملٹی نیشنل کمپنیاں اس لوٹ کا اصل ذریعہ ہوتی ہیں۔ میڈیا ،پروپگنڈہ
اور اشتہارات کی قوت کے ذریعہ اس کام میں سرمایہ داروں کی مدد کرتا ہے۔ اور
ملک کے عوام کو غلامی اور غریبی کے عذاب سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔
آئی ایم ایف کی حالیہ رپورٹ اور ہندوستان کی صورتحال:
آئی ایم ایف کی جاری کردہ تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس وقت ہندوستان کے
اندر چالیس کروڑ سے زائد افراد کی آمدنی ایک ڈالر یومیہ سے بھی کم ہے۔ گویا
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی گود میں دنیا کی سب سے بڑی غربت پرورش پارہی
ہے ۔جس کی ایک وجہ دولت کی ناقص تقسیم ہے تو وہیں دوسری جانب مٹھی بھر
لوگوں کے ہاتھ میں ملککی دولت پر قبضہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق ہندوستان کی شرح
نمو جس کے متعلق دعویٰ کیا گیا تھا کہ 9.5فیصد رہے گی 8فیصد سے بھی نیچے
جاچکی ہے۔ جس کے نتیجہ میں ہندوستانی حکومت نے کئی ایک بڑے پراجیکٹس پر
جاری کام بند کر دیئے ہیں۔دوسری جانب عالمی ادارہ خوراک کے مطابق ہندوستان
میں 71فیصد زراعت سے وابستہ کسان عالمی اداروں کی شرائط ،بیج ،کھاد اور
بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے باعث مالی مشکلات سے دوچار ہیں۔ کسانوں کی بڑی
تعداد روزگار کے حصول کے لئے شہروں کا رخ کر رہی ہے جس سے آبادی کا توازن
بری طرح بگڑ چکا ہے۔ کسانوں کی بدتر ہوتی حالت کا اندازہ اس امر سے بھی
لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ مالی سال کے دوران صرف تین ریاستوں میں 12سو سے
زائد کسانوں نے قرضہ جات اور سود سے تنگ آکر خودکشی کر لی۔ماہرین کے مطابق
اس وقت تیزی سے کسان زراعت کے شعبے کو چھوڑ رہے ہیں جس سے ملک میں غذائی
اجناس کی قیمتوںمیں ایک سال کے اندر 31فیصد سے زائد اضافہ ہوگیا ہے۔
دیگر نو آبادیاتی ممالک کی طرح ہندوستان کا مقامی حکمران طبقہ بھی اپنی
تاریخی متروکیت اور پسماندگی کی وجہ سے ہندوستان کو ایک جدید قومی، صنعتی،
ترقی یافتہ ریاست بنانے میں بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔ 80ءاور 90ءکی دہائی
میں معیشت اور منڈی کو کھولنے کے عمل نے ہندوستان میں بہت بڑے پیمانے کی
معاشی تفریق کو جنم دیا۔ آج ہندوستان کی آبادی کا 10فیصد امیر ترین حصہ
آمدنی کا 31.1فیصد لے کے جاتا ہے اور غریب ترین 10فیصد کے حصے میں کل ملکی
آمدنی کا 3.6فیصد آتا ہے۔ ہندوستان کی آبادی کی وسیع اکثریت غربت کی اتھاہ
گہرایوں میں گھری ہوئی ہے۔ 77فیصد افراد 20روپے یومیہ آمدنی کی لکیر سے
نیچے زندگی گزار نے پر مجبور ہیں جبکہ حکومت کی جانب سے غربت کا ’سرکاری‘
پیمانہ24روپے یومیہ کی حد ہے۔ 9کروڑ 30لاکھ لوگوں کی رہائش جھونپڑ پٹیوں
میں ہے جو ہندوستان کی شہری آبادی کا 27 فیصد ہے۔ 1کروڑ 24لاکھ کی آبادی کے
شہر ممبئی میں 86 لاکھ افراد ان کچی بستیوں کے رہائشی ہیں جہاں کوئی بھی
بنیادی سہولت میسر نہیں ہے۔ دہلی میں یہ تعداد 31لاکھ ہے۔ دوسری جانب
ہندوستان کے دوسرے امیر ترین آدمی مکیش امبانی نے حال ہی میں اپنے لیے
27منزلہ محل تعمیر کیا ہے جس کی مالیت ایک ارب ڈالر کے قریب ہے اور اس کی
چھٹی منزل سے ممبئی کی جھونپڑ پٹیوں کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ ہندوستان کا
امیر ترین آدمی لکشمی متل 31ارب ڈالر سے زائد اثاثوں کے ساتھ دنیا کا چھٹا
امیر ترین آدمی ہے۔ جبکہ دوسری طرف ہندوستان خوراک کی کمی کے شکار بچوں کے
تناسب میں دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے جہاں 47فیصد بچے خوراک کی کمی کا شکار
ہیں۔ہندوستان میں ان کی تعداد افریقہ کے غریب ترین ممالک سے دوگنی ہے۔ہر
سال 21لاکھ بچے 5سال کی عمر کو پہنچنے سے قبل ہی قابل علاج بیماریوں کی وجہ
سے مر جاتے ہیں جن میں اسہال، ملیریا، خسرہ، ٹائیفائڈ اور نمونیا شامل ہیں۔
روزانہ ایک ہزار بچے صرف اسہال سے ہی مر رہے ہیں۔2008ءکی ایک رپورٹ کے
مطابق پانچ سال کے کم عمر بچوں میں سے 43فیصد وزن کی کمی کا شکار ہیں۔زرعی
پیداوار میں دنیا میں دوسرے نمبر ہونے کے باوجود ہندوستان کو بڑے پیمانے پر
بھوک کا سامنا ہے۔
کھدرے بازار میں بیرورنی سرمایہ کاری:
حکومت ہند نے کھدرے بازار میں بیرونی سرمایہ کاری کی اجازت دینے کا فیصلہ
اس جواز کے ساتھ کیا ہے کہ اس سے روزگار کے مواقع فراہم کرنے، کاشت کاروں
کے معاوضہ میں بہتری پیدا کرنے، ٹکنالوجی کی درآمد کے قابل بنانے اور
صارفین کو فائدہ ہوگا۔ساتھ ہی انفرا اسٹرکچر بہتر ہوگا، زرعی پیدوار کم
ضائع ہوگی اور اس کے معاوضہ میں اضافہ ہوگا جس کی وجہ سے ہمارے کاشتکار
اپنی فصلوں کی بہتر قیمت حاصل کر سکیں گے۔چونکہ ہول سیل اور ریٹیل قیمتوں
میں کافی فرق پایا جاتا ہے لہذا اس میں کمی واقع ہوگی اور صارفین روزانہ
استعمال کے لیے کم قیمت میں اشیاءحاصل کر سکیں گے۔اس کے برخلاف بائیں
پارٹیوں کے علاوہ سماج وادی پارٹی، بی ایس پی،این ڈی اے، ترنمول کانگریس
اور آل انڈیا انا ڈی ایم کے کے اراکین نے ملٹی برانڈ ریٹیل میں 51فی صد اور
سنگل برانڈ میں صد فی صد غیر ملکی راست سرمایہ کاری کی اجازت دینے کے
سرکاری فیصلہ کے خلاف احتجاج درج کیا ہے۔حکومت کی بعض اتحادی جماعتوں سمیت
بیشتر جماعتیں اس فیصلے کی مخالفت کر رہی ہیں اور اس پر انہوں نے پارلیامنٹ
بحث کا مطالبہ کیا ہے۔ پارلیامنٹ کے سرمائی اجلاس میں لگاتار چھٹے دن بھی
کوئی کام نہیں ہو سکا اور باقی نشستوں پر بھی سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ ہم
جانتے ہیں کہ گزشتہ سال بھی سرمائی اجلاس ہی میں پارلیامنٹ کے 21دن برباد
ہوئے تھے جس پر 146کروڑ روپیہ خرچ ہوا تھا اور یہی صورتحال اب ہے کہ جس پر
اب تک تقریباً50کروڑ خرچ ہو چکا ہے۔ملک کی دولت جو غریبوں سے مختلف ٹیکسس
کی شکل میں لی جاتی ہے اس کو اس ٹھاٹ باٹ کے ساتھ برباد کیا جا رہا ہے اور
عوام کے نمائندے عوام کے سامنے جوابدہ بھی نہیں!بیرونی سرمایہ کاری کے تعلق
سے مخالفین کا کہنا ہے کہ ا س سے ریٹیل بازار میں تجارت کرنے والے وہ
لاکھوں گھریلو تاجر بے روز گار ہو جائیں گے جن کی روزی روٹی چھوٹی چھوٹی
دکانوں سے چلتی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بین الاقوامی کمپنیاں پہلے
مارکیٹ میں آتی ہیں،سستا سامان فروخت کرتی ہیں لیکن جب ان کی اجارہ داری
قائم ہو جاتی ہے تو وہ اپنی من مانی کرتی ہیں۔لیکن حکومت کا خیال ہے کہ غیر
ملکی کمپنیوں کو ملک میں کام کرنے کی اجازت دینے سے ترسیل کی صورتحال بہتر
ہوگی اور مہنگائی پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ ملک میں کارپوریٹ دنیا کی
طرف سے بھی حکومت پر دباﺅ ڈالا جا رہا ہے کہ اس تجویز کو جلد منظوری دی
جائے۔
معاملہ یہ ہے کہ حکومت کے اس فیصلہ پرچہار طرفہ مذمّت جاری ہے اور عوامی
احتجاج شروع ہو چکے ہیں۔کیونکہ کھدرا بازار قومی آمدنی کا ایک اہم جز ہے جس
کا راست تعلق عوام سے ہے۔یعنی پیدوار کرنے والے بھی عوام اور خرید و فروخت
کرنے والے بھی عوام ۔لیکن اگر یہ تعلق بیرونی حکومتوں یا ان کے من چاہے
افراد کی شکل میں تبدیل ہوجائے تو لازم ہے کہ ملک کی معیشت میںراست اُن
بیرونی حکومتوں کی حصہ داری بھی بڑھ جائے گی جو چاہتے ہیں کہ ایک بار پھر
ابھرتا ہوا ہندوستان ان کی غلامی کے پنجے میں جکڑ جائے۔ہندوستان کی سیاسی
صورتحال کا تجزیہ کرنے والے اس جانب بھی متوجہ کرتے آئے ہیں کہ ملک کو
سیاسی رخ دینے میں سرمایہ داروں کے مفادہمیشہ پیش نظر رکھے جاتے ہیں۔ کہیں
یہ سرمایہ دار ٹاٹا اور امبانی جیسے ناموں سے پہچانے جاتے ہیں تو کہیں
دوسرے ناموں سے۔یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ آج ہندوستان میںسیاست ایک کھلا
بازار بن چکا ہے جہاں مال و دولت کی بے انتہا فراوانی ہے۔انتخابات میں
الیکشن کمیشن کی جانب سے طے کیے گئے رقم کے باوجود سیاسی گٹھ جوڑ میں بے
انتہا روپیہ خرچ کیا جاتا ہے اور جو شخص یا پارٹی جتنی دولت خرچ کرتی ہے
اسی قدر اس کی کامیابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ایسے حالات میں کھدرے بازار
میں بیرونی سرمایہ داری کے اثرات دور رس محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ساتھ ہی یہ
سرمایہ داری ان لوگوں پر بھی اثر انداز ہوگی جومارکیٹ میں کھانے پینے کی
مختلف چیزوں کی ذخیرہ اندوزی صرف اس غرض سے کرتے ہیں کہ اس سے قیمتوں میں
ذاتی مفاد کے پیش نظر اضافہ و کمی کی جا سکے گی نیز اس عمل کے نفاذ
میںتعاون و مددکرنے والے چھوٹے سے لیکر بڑے تمام ہی سیاسی رہنما ہوتے
ہیں۔اور یہ مدد و رہنمائی اس لیے کی اور کروائی جاتی ہے کیونکہ یہی وہ
سرمایہ دار ہیں جوان سیاسی جماعتوں کو مالی تعاون فراہم کرتے ہیں۔پس ایسے
حالات میں کیوں کر ان کے مفاد کو نظر انداز کیا جا سکتے ہیں؟یہ صحیح ہے کہ
کھدرے بازار میں بیرونی سرمایہ داری سے ان چھوٹے قسم کے دلالوں و سرمایہ
داروں کی گرفت کمزور ہوگی تو سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ وہ کون لوگ ہوں گے جن
کی گرفت مضبوط ہونے کے امکانات ہیں؟کیا یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے ملک کو
پہلی دفعہ غلامی کا طوق پہنایا تھا؟یا ان ہی سے مشابہت رکھنے والے چند ملتے
جلتے نام۔واقعہ یہ ہے کہ ایک طویل عرصہ سے ملک میں روزمرہ کا سامان وہی لوگ
فراہم کرتے آئے ہیں جن کو ہم اسرائیل،امریکہ، یورپین کمپنیز نیزچین و جاپان
کے نام سے جانتے ہیں۔فرق اب تک بس یہ تھا کہ یہ کام قدرے کم اثر انداز تھا
لیکن اب اس کے لیے حکومت جواز تلاش کر رہی ہے،قانون بنا رہی ہے اور کھل کر
مداخلت کر رہی ہے۔ملک کے 80%عوام بنیادی ضروریات سے محروم ہیں اور مزیدان
کی ذلت و رسوائی کے مواقع پیدا کیے جا رہے ہیں اس مفروضہ کے ساتھ کہ یہ
فیصلہ ملک کے مفاد میں بہتر ثابت ہوگا۔ |