دروغ گوئی

آصف علی زرداری ایک ایسا نام جس کے دوستوں اور دشمنوں کی کوئی کمی نہیں ہے´۔اس کا مسندِ صدارت پر فائز ہو نا ایک ایسا کارنامہ تھا جسے ابھی تک اس کے مخالفین ہضم نہیں کر پائے۔پنجاب کی حکومت کو لولی پاپ دے کر اس نے میاں برادران کو جس خوبصورت انداز سے سیاسی مفاہمت پر آمادہ کیا اوہ اس کے زرخیز ذہن کی عکاسی کرتاہے۔ وہ تمام موقع پرست اور سینئر سیاستدان جو آصف علی زرداری کو سیاست میں نو آز مودہ اور نا تجربہ کا ر سمجھتے تھے وہ آصف علی زرداری کی سیا سی چالوں کی تندی اور گہرائی کا ساتھ نہ دے سکے اور راستے میں ڈھیر ہو گئے۔ آصف علی زرداری کی سیاسی کامیابیوں سے اس کے مخالفین حسد کی آگ میں جل رہے ہیں اور اس کی مخالفت میں اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئے ہیں۔ آصف علی زرداری مفاہمتی سیاست سے جمہوریت کا بچانے میں مصروف ہیں اور بہت سی سرکش قوتوں کو ملکی معاملات کو اپنے ہاتھوں میں لے لینے سے روکے ہوئے ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی مفاہمتی سیاست کے فلسفے پر آصف علی زرداری جس صبر برداشت اور رواداری سے عمل پیرا ہیں اس نے سب کو حیران کر دیا ہے ۔ان کے سخت ترین ناقدین بھی ان کی صفتِ برداشت، صبر ،مفاہمت اور رواداری کے قائل ہو گئے ۔ انھوں نے تمام حلقوں سے اپنے معاملات میں جس طرح توازن قائم رکھا ہے اس نے ان کی اقلیتی حکو مت کو چار بجٹ پیش کرنے میں بڑی مدد دی اور اب سینٹ کے مارچ میں ہونے والے انتخابات آصف علی زرداری کی سیاسی پوزیشن کو مزید مستحکم کر دیں گے اور ان کی آئندہ صدارت کے منصب پر فائز رہنے میں بنیادی کردار ادا کریں گے۔۔

آصف علی زرداری کے دشمن جب اسے سیاسی میدان میں شکست دینے میں ناکام رہے تو انھوں نے اس کے خلاف سازشوں کا جال بنانا شروع کر دیا تا کہ اقتدار سے اس کی رخصتی کا بندو بست کیا جائے۔کبھی این آر او کا سہارا لیا جاتا ہے اور کبھی گو زرداری گو کی گردانیں دھرائی جاتی ہیں۔ کبھی جلسے جلوسوں کی سیاست سے ملک میں افرا تفری کی فضا تخلیق کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور کبھی مقتدر حلقے تحریکِ انصاف کی شکل میں عمران خان کو تھپکی دے کر پی پی پی حکومت کو ختم کرنے کے کارِ ِ خیر کا مشکل ترین فرض سو نپتے ہیں تا کہ ملکی سیاست میں افراتفری سے مقتدر حلقوں کو پی پی پی کی حکومت کی چھٹی کرونے کا جواز مہیا ہو سکے۔ لیکن باعثِ حیرت ہے کہ مخالفین کی کوئی بھی تدبیر کارگر نہیں ہو رہی کیونکہ پی پی پی ایک عوامی جماعت ہے اورووٹوں کی قوت سے ا قتدار میں آئی ہے لہذا اس کا موازنہ جنرل پرویز مشرف کی آمرانہ حکومت سے نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اسے جلسے جلوسوں سے مرعوب کیا جا سکتا ہے کیونکہ عوامی اندازِ سیاست اور جلسے جلوسوں کی سیاست کی تو خود پی پی پی بانی ہے لہذا اسے ایسے ہتھکنڈو ں سے خوفزدہ کرنا ممکن نہیں ہے ۔ پی پی پی کی سیاست کا تو نعرہ ہی یہی ہے کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں لہذا وہ تو ہر مسئلے پر عوام کو متحرک رکھتی ہے اور انکی رائے سے ملکی معاملات چلانے پر یقین رکھتی ہے ۔ کیا کبھی آگ کو آگ سے بھی سرد کیا جاتا ہے؟ آگ کو ٹھنڈا کرنے کےلئے پانی کی ضرورت ہو تی ہے لہذا پی پی پی کی حکومت ختم کرنے کے لئے جلسے جلوسوں کی نہیں بلکہ کسی سازش کی ضرورت ہے اور یہی سازش آجکل مقتدر حلقوں میں جنم لے رہی ہے لیکن اس کی شکل کیا ہو گی یہ کیسے روبہ عمل آئے گی اور اس کا حکم کون صادر فرمائے گا ابھی یہ سب کچھ دیکھنا باقی ہے۔ پی پی پی کے خلاف تو ہمیشہ ہی سازشیں ہوتی رہی ہیں اور یہ ان سازشوں کا مقابلہ کر کے جمہوریت کے لئے اپنی جدو جہد سے ان سازشوں کو ناکام بنا تی رہی ہے اب ایسی ہی سازشوں کا سامنا آصف علی زرداری کو بھی ہے دیکھئے وہ اس کو کیسے ناکام بناتے ہیں۔ ایک چیز طے ہے کہ اس سازش کا آغاز ہو چکا ہے اور اس کے متعلقہ کھلاڑ ی ٰ اپنا اپنا رول ادا کرنا شروع ہو گئے ہیں ۔ کیا یہ تمام کھلاری ٰ اپنا اپنا کردار صحیح ادا کر پائیں گے یا کسی انہونی کا شکار ہو کر سارا لکھا ہوا سکرپٹ بھول جا ئیں گئے۔صدر کی مشاقی اور سازشیوں کی سازشوں اور مکر بازیوں کا امتحان ہے دیکھئے اس امتحان میں کون فتحیاب ہو تا ہے؟۔

تحریکِ انصاف کے چیرمین عمران خان کے 30 اکتوبر کو لاہور کے جلسے کے پسِ منظر میں پنجاب اگلے انتخابات کا مرکزی نقطہ بن رہا تھا اور اس صوبے میں سیاسی ٹمپریچر میں تندی کے آثار نظر آرہے تھے ۔ میاں برادران کا فیصل آبا د کا حالیہ جلسہ اس تاثر کو کافی حد تک زائل کرنے میں ممدو معاون ثابت ہوا۔ مسلم لیگ (ن) کے فیصل آباد کے اس جلسے نے پنجاب میں میاں برادران کی گرتی ہو ئی ساکھ کو سہارا دیا ہے اور اس مفروضے کو غلط ثابت کیا ہے کہ میاں برادران پنجاب میں اپنی مقبولیت کھو رہے ہیں ۔ یہ واقعی ایک بڑا جلسہ تھا جس میں میاں محمد نواز شریف کی ذاتی شرکت نے اسے پر جوش بنا دیا تھا۔ جلسوں کی منصوبہ بندی کے حوالے سے ان کا اگلا جلسہ گوجرانوالا میں ہونا طے پا یا تھا تا کہ وہ تمام علاقے جہاںپر مسلم لیگ (ن) کا ووٹ بینک زیادہ ہے وہاں فاصلوں کو کم کر کے اپنے حمائیتوں اور ووٹروں کو اپنے قریب کیا جائے تا کہ کوئی دوسری جماعت اس پر نقب نہ لگا سکے لیکن بوجوہ گوجرا نوالہ کے جلسے کو منصوخ کر دیا گیا ہے کیونکہ فیصل آباد کے جلسے نے ان کی توقعات کی متزلال سوچ کو جس طرح سے پھر مجتمع کیا تھا اس کی روشنی میں شائد اس جلسے کی اتنی ضرورت باقی نہیں رہ گئی تھی۔ اپنی اس حکمتِ عملی میں مسلم لیگ (ن)کو کا میابی نصیب ہوئی ہے۔ اب یہ پی پی پی کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ جلسے جلسوں کے سیاسی فن کا اظہار کرے تا کہ پی پی پی کے جیالے بھی پر جوش رہیں کیوکہ زیادہ خاموشی بھی سیاسی کارکنوں میں بد دلی پیدا کرتی ہے۔ جیالے تو جب تک ہنگامہ آرائی اور ہلا گلا نے کریں انھیں سیاست بے رگ اور بے مزہ سی لگتی ہے۔ یہ پی پی پی کی سیا سی قیادت کا فرضِ اولین ہے کہ وہ کارکنوں سے رابطے رکھے تا کہ ورکرز توانا اور متحرک رہیں۔ ابھی سیاسی گہما گہمی کا ایک ماحول تخلیق ہو رہا تھا جس سے عوام بھی لطف اندوز ہو رہے تھے کہ کہ ا مریکی نژاد منصور اعجاز نے پاکستانی سفیر حسین حقانی کے خلاف ایک نیا شوشہ چھوڑ کر ساری سیاسی بساط کا رخ موڑ دیا۔ اس نے حسین حقانی اور صدرِ مملکت آصف علی زرداری پر الزامات لگا کر پوری قوم کو ذہنی طور پر اس میمو کی تحریر میں ا لجھا دیا ہے۔اس نے اس میمو کو تحریر کروانے کی ساری ذمہ داری حسین حقانی پر ڈالی دی ہے اور جسکے ڈانڈے وہ صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کے ساتھ ملا رہے ہیں۔سازش کا اصل ہدف صدرِ مملکت آصف علی زرداری ہیں دیکھئے وہ اس سازش کو کیسے ناکام بناتے ہیں۔۔ ۔

ہمارا میڈیا منصور اعجاز کو پاکستان کے سچے ہمدرد اور ایک ایسے پاکباز انسان کے روپ میں پیش کرنے کی کو شش کر رہا ہے جس کا مقصد پاکستانی مفادات کا تخفظ کرناہے۔ کچھ حلقے یہ ثابت کرنے کے جتن کر رہے ہیں کہ منصور اعجاز کو پاکستانی عزت اور وقار بہت عزیز ہے اسی لئے اس نے مناسب سمجھا کہ وہ میمو کے راز کو فاش کر دے تاکہ پا کستان کے مفادات اور اس کا وقار مجروح نہ ہو نے پا ئیں۔ بڑی دیر کے بعد منصور اعجاز کو خیال آیا کہ آئی ایس آئی کے خلاف لکھے گئے مجوزہ میموسے پاکستانی حکومت کا آگا ہ کر دینا ضروری ہےکہ اس کا سفیر ملکی معاملات اور آئی ایس آئی کے بارے میں کس طرح کے خیالات رکھتا ہے ہائے اس زود پشیمان کا پشیماں ہونا کا شعر منصور اعجاز پر بالکل صادق آتا ہے۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ منصور اعجاز ایک دروغ گو شخص ہے جس کے الفاظ پر یقین نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی دروغ گوئیاں زبان زدہ خا ص و عام ہیں اور شائد یہی وجہ ہے کہ جب اس نے اپنے دوست جنرل جیمز جونز کی وساطت سے متنازع میمو جنرل مائک مولن کے دفتر میں پہنچوایا تو اس پر کسی نے توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی ۔ اگر منصور اعجاز کی کوئی ریپو ٹیشن ہو تی اور کوئی کریڈیبیلیٹی ہو تی تو مائک مولن ا س کے بھیجے گئے میمو کو در خورِ اعتنا سمجھتے اور اس پر مزید کاروائی کا حکم دیتے لیکن انھوں نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا ۔ منصور اعجاز کے والدِ محترم ڈاکٹر مجدد احمد اعجاز کےساتھ بھی جس قسم کی کہانیاں منسلک ہیں وہ بھی کوئی حوصلہ افزا نہیں ہیں۔ عجیب صورتِ حال ہے کہ منصور اعجاز کے انکشافات کو جب امریکی حکومت کوئی اہمیت دینے کو تیار نہیں ہے تو پھر ہم اس کے ایک ایک لفظ کو صحیفہ آسمانی سمجھ کر کیوں گلے سے لگا رہے ہیں؟

آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور آئی ایس آئی کے ڈئر یکٹر جنرل پاشا اسی میمو کی بنیاد پر حسین حقانی پر آگ بگولا نظر آرہے ہیںحا لانکہ ان کی نظر سے منصور اعجاز کی آئی ایس آئی اور پاکستان کی دوسری خفیہ ایجنسیوں کے بارے میں ہرزہ سرائیاں اور لن ترانیاں بالکل پوشیدہ نہیں ہیں۔ انھیں اچھی طرح سے علم ہے کہ منصور اعجاز کیا چیز ہے اور اس کے دماغ میں پاکستان کے خلاف کس قسم کا زہربھرا ہوا ہے۔ فوجی قیادت کو اس طرح سے ری ایکٹ نہیں کرنا چائیے تھا جس طرح انھوں نے ری ایکٹ کیا ہے۔ فوجی قیادت کے اس طرح کے جذباتی ری ایکشن نے ہمارے حساس اداروں کی فکری سطح کا پول بھی کھول کر رکھ دیا ہے۔اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے ذاتی میلانات، خیالات اور رحجانات کو ریاست کی بدنامی سے ز یادہ اہم سمجھتے ہیں۔ ا مریکہ میں متعین سفیر کو یوں بے آبرو کر کے مستعفی ہونے پر مجبور کرنا اس بات کا بھی غماز ہے کہ ہما ری انانیت اور ذاتی پسندو ناپسند ہمیں کوئی بھی غیر مناسب قدم اٹھانے پر اکسا سکتی ہے چاہے اس کےلئے کوئی ٹھوس جواز بھی موجود نہ ہو۔ ریاستیں اور ملک اس طرح سے نہیں چلائے جاتے، اس کےلئے دانش حکمت اور برداشت کے اصولوں کی پیروی کرنی پڑتی ہے جسے میں اس وقت اپنے ملک میں رو بہ زوال ہوتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔دنیا کیا سوچ رہی ہو گی کہ ہم اپنے سفراءسے کس قسم کا برتاﺅ کرتے ہیں۔ ہم کیسی قوم ہیں کہ ہم اپنے سفیر کی سرِ عام تذلیل کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے بلکہ ان پر الزامات لگا کرانھیں سزا کا مستوجب بھی ٹھہراتے ہیں۔۔

ہمیں سب سے پہلے تو یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ ایک شخص جو امریکہ میں پاکستان کا سفیر ہے کیا اس کی گواہی اس شخص سے کمتر ہے جس کی دروغ گوئی پر سب متفق ہیں ۔ حسین حقانی دنیا کی سب سے بڑی طاقت امریکہ میں پاکستان کاسفیر تھا اور اس سفار ت پر فائز شخص معمولی صلاحیتوں کا مالک نہیں ہوتا لیکن ہم نے جسطرح اپنے سفیر کا تماشہ پوری دنیا میں بنایا ہے وہ بھی باعثِ شرم ہے اگر بات یہی تک رہتی تو بھی قابلِ برداشت تھی لیکن منصور اعجاز تو پا کستانی فوج آئی ایس آئی اور دوسری پاک ایجنسیوں کا انتہائی سخت مخالف رہا ہے اور اس نے پاکستانی فوج اور ایجنسیوں کے خلاف عالمی سطح پر ایک مہم بھی چلا رکھی ہے جسکا واحد مقصد پاکستانی فوج کو نیچا دکھانا اور ہماری ایجنسیوں کو دھشت گرد کاروائیوں کا سرغنہ ثا بت کرنا ہے۔منصور اعجاز اور بھارت کے تعلقات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں لہذا س میں انڈین سازش بڑی صاف اور واضح نظر آرہی ہے جسکا واحد مقصد پاک امریکی دشمنی کو ہوا دینا ہے اور ان دونوں ملکوں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنا ہے۔ منصور اعجاز انڈیا اور اسرائیلی حمائتی ہے اور اسکی سرگرمیاں ان دونوں ممالک کی تقویت کا باعث ہوتی ہیں جس میں وہ ہمیشہ پیش پیش ہو تا ہے۔ منصور اعجاز نے پاکستانی فوج اور اسکی ایجنسیوں کے خلاف اپنے نظریات کو کبھی بھی نہیں چھپایا بلکہ اسکا ببانگِ دہل اعلان کیا ہے کہ پاکستانی فوج دھشت گردوں کی پناہ گاہ ہے لیکن آج اسی منصور اعجاز کے شر انگیز الفا ظ پر ہماری فوج اور خفیہ ایجنسیاں یوں متحرک ہوئی ہیں جیسے انکے ہاتھ کوئی گہرِ نایاب آگیا ہے
 
Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 629 Articles with 515845 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.